Episode 47 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 47 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

وہ لکھتا ہے کہ رائے سین کے قلعے میں چار ہزار راجپوت معہ اہل و عیال قلعہ بند ہوئے تو شیر شاہ کے اوسان خطا ہوگئے۔ وہ جانتا تھا کہ چار ہزار راجپوت آٹھ ہزار پٹھانوں کی گردنوں سے گزر کر ہی قلعہ چھوڑ یں گے۔ شیر شاہ اتنی بڑی قربانی کے لئے تیار نہ تھا لہٰذا صلح کی طرف مائل ہوا۔ پورن مل شیر شاہ کے دھوکے میں آگیا اور قلعے کے دروازے کھول دیئے۔ شیر شاہ نے اپنی فوج کو قتل عام کا حکم دیا اور خون کا دریا بہا دیا۔
اکبر نامہ میں ابوالفضل نے اس واقعہ کی تصدیق کی اور شیر شاہ کی بد عہدی کی بدتر ین مثال پر دکھ کا اظہار کیا۔ شیر شاہ نے افغان علمأ کی کونسل طلب کی اور شیخ سید رفع الدین صفوی سے پورن مل کے قتل کا فتویٰ لیا۔ افغان علمأ نے فتوے کی بنیاد اس دلیل پر رکھی کہ پورن مل کافر تھا۔

(جاری ہے)

احمد یاد گارلکھتا ہے کہ قیدی ہندو لڑکوں کو نامرد کر دیا اور لڑکیاں قتل کر دی گئیں۔

عباس نے اس سے بھی بڑھ کر لکھا کہ لڑکیاں بازی گروں اور ناچنے گانے والوں کو دے دیں۔ وہ لکھتا ہے کہ پورن مل کی ایک لڑکی اور تین بھتیجے قیدی بن گئے۔ ہمایوں نامہ میں بعداز تحقیق لکھا گیا ہے کہ پورن مل کے بڑے بھائی بھوپت کا صرف ایک ہی لڑکا تھا جو کنواہہ کی لڑائی میں اپنے باپ کے ساتھ ہی مارا گیا تھا۔ ڈارون نے تاریخ ہند میں لکھا ہے کہ پٹھانوں نے قلعے پر یلغار کی تو پورن مل نے اپنی بیویوں کو خود قتل کر دیا تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ لڑکی کو قیدی بننے کے لئے چھوڑ دیتا۔
تاریخ میں پورن مل کی کسی بیٹی کا کوئی ذکرہی نہیں۔
کالکانے افغانوں کو پٹھان لکھا ہے چونکہ فرید الدین کی فوج میں کسی دوسرے قبیلے یا مسلک کا افغان نہ تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ پٹھان جنگ وجدل کو تفریح سمجھتا ہے۔ قدرت کی سنگدلی یعنی جغرافیائی حالات اور قدرتی آفات کا مسلسل سامنا کرنے کی وجہ سے محتاجانہ زندگی بسر کرتا ہے۔
وہ پوری نیند نہیں سوتا۔ اسے ہر لمحے دشمن کے وار کا خطرہ ہوتا ہے جو اس کا حقیقی بھائی بھی ہو سکتا ہے۔ کبھی تین وقت کا کھانا ایک ہی بار کھا لیتا ہے اور کبھی تین دن بھوکا رہتا ہے مگر بظاہر خوش و خرم نظر آتا ہے۔ وہ کسی بھی وقت امن کو جنگ میں بدل دیتا ہے اور ترک وطن کے لئے تیار رہتا ہے۔ قدیم زمانے سے وہ خانہ بدوشی کی زندگی کا عادی ہے۔ افغان کبھی مغرب کی طرف نہیں ہمیشہ مشرق کی جانب ہجرت کرتا ہے۔
اس کی زندگی کا دارومدار وادی سندھ اور پنجاب کے میدانوں کی پیداوار پر ہے۔
افغان حکومت کے نام سے واقف ہی نہیں اور نہ ہی کبھی اس کا حکومت سے کوئی تعلق رہا ہے۔ اس نے مذہب کو روایات کا درجہ دے رکھا ہے اور یہی اس کا آئین اور قانون ہے جسے پختون والی کہا جاتا ہے۔ بیرونی حملہ آوروں کے علاوہ کبھی کوئی پٹھان ان پر حکومت نہیں کر سکا۔
پٹھانوں کی حکومت کا بنیادی عنصر قبیلہ اور قبیلے کا سردار ہے۔ پٹھانوں کا حکمران سپہ سالار ہوتا ہے جو میدان جنگ میں مختلف قبائل کی قیادت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس حکمران سپہ سالار کا کوئی کام نہیں ہوتا۔ افغان پٹھان جرگہ سب سے بڑی عدالت ہے جس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ شرم افغانی کے نام پر افغان ساری دنیا کے خلاف اعلان جنگ کر سکتا ہے اور کنبے کی بانگ پر ہر افغانی پٹھان پر فرض ہے کہ وہ جنگ میں شریک ہو۔
افغان پٹھان کی زندگی میں قبیلے کے سردار، پیر اور ملاں کا کردار اہم ہے۔ وہ کسی کنبے، قبیلے یا با اثر شخص کی فوقیت قبول نہیں کرتا۔ جو چیز اسے پسند آجائے اسے ہر حالت میں حاصل کرتا ہے چاہے جان ہی کیوں نہ چلے جائے۔ وہ کسی قانون وقاعدے کا پابند نہیں۔ ذاتی مفاد کے حصول کے لئے بھائی،بیٹے اور باپ کا قتل بھی جائز سمجھتا ہے۔ افغان معاشرے میں عورت کی ویسی ہی قدر ہے جیسے ہندو معاشرے میں ہے۔
افغانستان کی سرزمین خون سے سیراب ہوتی ہے۔ افغان پٹھان میدان جنگ سے بھاگنے والے کو ذلت آمیز موت سے ہمکنار کرتا ہے مگر رات کے وقت ڈاکہ ڈالنا جائز تصور کرتا ہے۔
وہ غلاموں کی طرح محنت مزدوری سے روزی کمانے پر یقین نہیں رکھتا۔ اس کے نزدیک خون بہا کر روزی حاصل کرنا آسان اور باعث فخر ہے۔ تاریخ میں افغانوں کی باہم دشمنیاں اور خونریزیاں اس قدر ہیں کہ تاریخ انہیں سمیٹنے سے قاصر ہے۔
افغانوں کو جہاں بھی اقتدار ملا اس کا انجام خون خرابے پر ہی ہوا۔ 1520ء میں لودھی قبائل باہم رقابتوں میں اس قدر الجھے کہ پھر سنبھل نہ سکے۔ سلطان سکندر کے بعد سلطان جلال الدین اور ابراہیم لودھی میں اقتدار کی جنگ چھڑگئی۔ فارمولی، لوہانی، سروانی اور لودھی سردار دو دھڑوں میں بٹ گئے۔ سوری جو تعداد میں کم تھے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے رہے اور دونوں جانب حمایت کا یقین دلاتے رہے۔ 

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja