Episode 51 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 51 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

اہل پاکستان کو خبر نہیں کہ ان کا پانی کشمیر میں ہے جس کا رخ بھارت آہستہ آہستہ موڑ رہا ہے۔ بھارت پاکستانی سیاستدانوں اور قوم پرستوں کو اربوں روپے رشوت دے کر نئے ڈیموں کی تعمیر کی مخالفت پر اکسارہا ہے اور پاکستانی عوام ملک دشمنوں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔
زرداری حکومت قائم ہوئی تو بجلی اور پانی کے وزیر راجہ پرویز اشرف نے اپنے آقا کے حکم پر اسمبلی میں پہلا بیان دیا کہ کالا باغ ڈیم کسی صورت نہیں بنے گا۔
پرویز مشرف نے کالا باغ کی بات کی تو الطاف حسین نے دھمکی دی کہ یہ ڈیم میری لاش پرہی بن سکتا ہے۔ چیئرمین واپڈا نے کالاباغ ڈیم کی افادیت پر کالم لکھے تو سارے پاکستان کی سیاست اور بھارتی میڈیامیں بھونچال آگیا۔ میاں نواز شریف نے اپنے بھارتی دوستوں اور پاکستانی اتحادیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے چیئرمین کو عہدے سے ہٹا کر نہ صرف سیاسی بازیگروں سے داد حاصل کی بلکہ جمہوریت کے قلعے کو مزید مضبوط کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔

(جاری ہے)

مسئلہ کشمیر،نظریہ پاکستان، فوج اور ڈیم پاکستانی سیاست کے منفی پہلو ہیں اور ہر سیاسی جماعت ان سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے بھارت کی ہمنوا ہے۔ بھٹو نے شملہ معاہدہ کیاور اور تحریک آزادی کشمیر کا رخ ہی بدل دیا۔ ضیأ الحق نے گلگت و بلتستان کے سکولوں اور سرکاری عمارتوں سے کشمیرکا جھنڈا اتروا دیا اور کشمیری ترانے پر پابندی عائد کر دی۔
آزاد کشمیر کے غلام حکمرانوں نے بھی اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کی اور آزادکشمیر کے سکولوں میں وطن ہمارا آزاد کشمیر کی صدا ہمیشہ کے لئے خاموش کر دی گئی۔ بھٹو کا بڑا کارنامہ کشمیر کونسل اور وزارت امور کشمیر کا قیام ہے جس کے ذریعے آزادکشمیر کے عوام پر حکمرانی اوراس کی غلامانہ حیثیت کو برقرار رکھنے کا ایک آئینی طریقہ ایجاد کیا گیا ہے۔
بھٹو اور ضیأ الحق کے بعد پاکستانی حکمران طبقے کی مسلسل کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح آزاد کشمیر ، گلگت اوربلتستان کو صوبوں کا درجہ دے کر مسئلہ کشمیر کو بھارتی امنگوں کے مطابق ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا جائے۔ موجودہ دور میں کشمیریوں نے پاکستان کا نام لے کر جتنی قربانیاں دیں ہیں تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
آج سرینگر کے گلی کوچوں میں پاکستان کا پرچم لہراتا ہے اور پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الااللہ کا نعرہ لگاتے ہوئے بچے، بوڑھے، مرد اور عورتیں سینوں پر گولیاں کھا کر شہید ہو رہے ہیں۔ پاکستان اور پاکستانیوں سے جذباتی، روحانی، دینی اور نظریاتی رشتہ قائم رکھنے کی جدوجہد میں جوانوں اور بچوں کے چہرے مسخ کیے جا رہے ہیں اور ان کی آنکھوں کی روشنی چھینی جا رہی ہے۔
شہیدوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفنایا جاتا ہے تو دوسری طرف اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کے بلوچستان میں پاکستان کا پرچم لہرانا اور قومی ترانہ پڑھنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ ایک نام نہاد کشمیر کمیٹی کا چیئرمین ہے اور دوسرا بلوچستان اور کے پی کے کو پاکستان سے الگ کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ دونوں وزیراعظم پاکستان کے دست راست اور شریک اقتدار ہیں۔
صرف نواز شریف ہی نہیں یہ دونوں اور دیگر ،زرداری کے بھی غمخوار ہیں۔ایک کا باپ پاکستان بنانے کے جرم میں شریک نہ تھا اور جہاد کشمیر کو فساد کہتا تھا۔ دوسرے کا باپ نہرو اور شیخ عبداللہ کا یار تھا جس پر کشمیریوں نے دریائی جلوس کے دوران جوتے برسائے تھے۔
سوچ و فکر کے معیار کو دیکھیں تو کشمیر کبھی بھی پاکستانی ادب، صحافت، سوچ و فکر کا محور نہیں رہا۔
فیض، فراز ، جالب اور دیگر کو سوشلزم کا دائمی بخار رہا اور انہیں فلسطین، کیوبا، لیبیا، شام اور لبنان کے غم نے نڈھال کیئے رکھا۔ اعتزاز احسن کی کتاب سندھ ساگر میں صرف چار مقامات پر لفظ کشمیر آیا ہے۔ سندھ ساگر لکھنے والا بھول گیا کہ یہ دریا کشمیر سے بہتا سندھ اور پنجاب کے میدانوں کو سیراب کرتا ہے۔ اعتزاز احسن نے شاید دھیان ہی نہیں دیا کہ آخری کمزور کشمیری حکمرانوں کے ادوار تک کشمیر کی سرحد اٹک کے مقام پر ختم ہوتی تھی۔
آج بھی حضرو شہر سے سات کلو میٹر مغرب کی جانب دریائے سندھ کے قریب ایک پتھر نصب ہے جس پر کشمیر کی حدود کے اختتام کا ذکر ہے۔ جیسا کہ عرض کیا ہے کہ مستند تاریخی حوالوں سے کشمیری تمدن جب بام عروج پر تھا تب ہند اور سندھ کا کوئی ذکر نہ تھا۔ کشمیری تہذیب کے اثرات سے ہی ہند اور سندھ کی تہذیبوں کا آغاز ہوا جس پر ایرانی اور آرین تہذیب نے غلبہ حاصل کر لیا۔
اعتزاز احسن یہ بھی بھول گئے کہ ستی سر جھیل کے قدرتی بند ٹوٹنے سے ہی موہنجوڈارو اور ہڑپہ کے شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور پھر نئی تہذیب کی بنیاد بھی کشمیری تہذیب کے زیر اثر پروان چڑھی۔ للتہ دتیہ اور اونتی ورمن نے یارقند اور بدخشاں سے لے کر خلیج بنگال تک اپنی فتوحات کا جھنڈا لہرایا جن کے ذکر کے بغیر سندھ اور ہند کی تاریخ نامکمل اور ادھوری ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja