Episode 53 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 53 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

حالات کے پیش نظر آخری چک بادشاہ یعقوب شاہ چک نے یوسف شاہ کو دوسری بار معزول کیا اور کشمیر کے تخت پر براجمان ہوگیا۔ یعقوب شاہ چک انتہائی سفاک اور بے رحم حکمران تھا۔ اس نے اندرونی حالات سنبھالنے کے بجائے فرقہ واریت کو مزید ہوادی۔ یعقوب چک نے دوسال حکمرانی کی اور کشمیری قوم کو دائمی المیے کا شکار کر گیا۔ چکوں کے زوال سے شروع ہونے والا قومی زوال سلسلہ وار چلتا رہا اور زوال در زوال کشمیری قوم کی ذلت و رسوائی کا باعث بنتا رہا۔
یوسف شاہ معزول ہو کر اٹک کے مقام پر اکبر اعظم سے مدد لینے گیا تو مغلوں نے اسے قید کر لیا۔ اکبر نے یوسف شاہ کو پہلے لاہور اور پھر پٹنہ منتقل کردیا جہاں وہ قید تنہائی میں مرگیا۔ کشمیری تاریخ دانوں کی سمجھ سے بالاتر یہ واقع انتہائی حیران کن ہے کہ جب کشمیری فوجیں مغلوں کو ہر محاذ پر شکست دے رہی تھیں اور مغل پسپائی پر مجبور ہو رہے تھے تو یوسف شاہ کا اچانک اکبر کے پاس جانا اور قید ہوجانا کیا معنی رکھتا ہے؟ میدان جنگ میں یعقوب شاہ چک بمبہ اور کھکھہ سرداروں کی مدد سے بے جگری سے لڑ رہا تھا۔

(جاری ہے)

شاہ رخ جیسا جری مغل جرنیل قتل ہوچکا تھا اور راجہ بھگوان داس ہتھیار ڈالنے والا ہی تھا کہ بادشاہ کے اٹک روانہ ہونے اور قید ہونے کی خبر نے خوشی کو غم میں بدل دیا۔
1558ء میں یعقوب شاہ چک کی میدان جنگ میں تاجپوشی ہوئی اور علی ڈار کو وزیراعظم مقرر کیا گیا۔ علی ڈار بنیادی طورپر تاجر پیشہ تھا جسے امور سلطنت چلانے کا کوئی تجربہ نہ تھا۔
وہ دن رات مے نوشی کرتا اور عیش و عشرت کے لمحات گزارتا جس کی وجہ سے پہلے سے بدحال حکومتی نظام تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا۔
تخت نشینی کے بعد یعقوب شاہ چک نے سنی عقیدہ کے علمأ کو حکم دیا کہ وہ مساجد میں شیعہ طریق عبادت اختیار کریں اور اذان میں علی ولّی اللہ کا اضافہ کریں۔ قاضی القضاة قاضی محمد عیسیٰ نے انکار کیا تو اسے سر عام پھانسی دے کر لاش ہاتھی کی دُم سے باندھ کر سارے شہر میں گھمایا گیا۔
اس واقعہ سے سارے کشمیر میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے اور ہزاروں شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ حالات اس قدر بگڑے کہ شیخ یعقوب صرفی اور بابا داوٴد خاکی ایک وفد لے کر دلّی دربار پہنچے اور اکبر کو تسخیر کشمیر کی دعوت دی۔ کشمیری عمائدین اور مغلیہ حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت مغل فوج غیر مسلح آبادی پر حملہ آ ور نہ ہوگی۔
اجناس کے ذخیروں پر قبضہ نہیں ہوگا اور عبادت گاہوں کا احترام ہوگا۔ سوائے فسادیوں کے کسی مسلک کے علمأ پردست درازی نہ ہوگی اور نہ ہی کوئی جبری ٹیکس لگایا جائے گا۔ عدل و انصاف کا محکمہ بحال کیا جائے گا اور بد اعمال ملازمین کو سزائیں دی جائیں گی۔
اکابرین کے ساتھ اس معاہدے کے تحت 1586ء میں مرزا میر قاسم میر بحر کی قیادت میں پچاس ہزار سوار اور تیس ہزار پیادہ لشکر کشمیر پر حملہ آور ہوا۔
یعقوب شاہ چک بھی اتنی ہی فوج لے کر میدان جنگ میں آیا مگر عوامی حمایت کے بغیر وہ کچھ بھی نہ کر سکا۔ کشمیری فوج نے مغلوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہزاروں مغل میدان جنگ میں کام آئے۔ اس جنگ نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ عسکری قوت عوامی حمایت کے بغیر فتح سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ یعقوب شاہ چک جنگ ہار گیا اور کچھ عرصہ تک روپوش رہنے کے بعد کشتواڑ چلا گیا۔
تاریخ نے جہاں کشمیریوں کی عظمت، خوشحالی اور جرأت و استقلال کے طویل دور دیکھے وہیں ذلت و رسوائی کاآغاز بھی دیکھا۔ فتح کے بعد مغل سارے اصول اور وعدے بھول گئے اور مفتوحہ قوم کو جی بھر کر رسوا کیا۔ مغلوں نے نہ شیعہ سے کوئی معاملہ کیا اور نہ ہی سنی کے سر پر تاج رکھا۔ 
نہ از یوسف نشاں دیدم نہ از یعقوب آثار ے
عزیزان یوسف از گم چہ شد یعقوب را بارے
چک خاندان کے کسی فرد کی قبر بھی محفوظ نہ رہی۔
نفرت کے مارے لوگوں نے ان کی ہڈیاں نکال کر جلاڈالیں۔ بعد کے دور میں کچھ قبروں کی جگہ پتھر رکھے گئے مگر دفن ہونے والے راکھ بنا دیے گئے۔ یوسف شاہ چک کا 1592ء پٹنہ میں انتقال ہوا اور اسے بسواک گاوٴں میں شیعہ قبرستان میں دفنا دیا گیا۔ یعقوب شاہ چک کو کشتواڑ میں پناہ ملی اور کسمپُرسی کی حالت میں کسی ویرانے میں مرگیا۔ حبّہ خاتون نے درویشانہ زندگی بسر کی اور دریا کے کنارے پانتہ چھوک کے مقام پر کٹیا میں رہنے لگی۔
میر قاسم نے حبّہ خاتون کی گرفتاری کا حکم دیا مگر اس کی حالت دیکھ کر اسے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اکبر نے اسے دلی آنے کی دعوت دی اور کشمیر کی حکمرانی قبول کرنے کو کہا مگر وہ خاموش رہی۔ حبّہ خاتون کی شاعری نے کشمیری قوم کی غیرت کو جگانے کی کوشش جاری رکھی۔ جو کام چک حکمران عقل اور تلوار سے نہ کر سکے حبہ خاتون نے وہ کام الفاظ سے کیا اور آزادی کی تڑپ رکھنے والوں کو جگائے رکھا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja