Episode 54 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 54 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

انتقال کے بعد اسے کٹیا میں دفنا دیا گیا اور قریب ہی ایک چھوٹی سی مسجد بھی تعمیر ہوئی۔ 1950ء میں شیخ عبداللہ نے مزار تعمیر کروایا اور سرکاری سطح پر حبہ خاتون کی برسی منانے کا حکم جاری کیا۔ چک خاندان کا زوال کشمیر کی غلامی پر منبتح ہوا۔ چک خاندان کی ایک نشانی حبّہ خاتون کا مزار اور دوسری مظفر آباد کا خستہ حال قلعہ ہے۔ چک دور میں یہ قلعہ افغانوں کے حملے روکنے کے لئے بمبہ سلطان کی مدد سے تعمیر ہوا۔
بعد کے ادوار میں سکھوں اور ڈوگروں نے اس کی مرمت کروائی اور اہم سرحدی چوکی کے طورپر استعمال کیا۔ 1947ء کے بعد شیخ عبداللہ نے حبّہ خاتون کا مزار تو تعمیر کروا دیا مگر مظفر آباد میں بیٹھے حکمرانوں نے ڈھائی اضلاع کی آزادی کے نشے میں سوائے اپنے گھر تعمیر کرنے اور اپنے حواریوں کو سرکاری محکموں پر مسلّط کرنے کے کوئی کام نہ کیا۔

(جاری ہے)

آج مظفر آباد دنیا کا گندا ترین اور آلودگی سے متاثرہ شہر ہے۔

حکمرانوں نے مال مفت دل بے رحم کا مظاہرہ کیا اور شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہ کی۔ بلیک لیبل ٹن سیاسی مافیا اور پٹواری نظام نے مل کر شہر کو بدصورت اور بے ہنگم بنانے میں کوئی کسرباقی نہ چھوڑی۔جس کسی نے کسی سرکاری اہلکار اور نام نہاد سیاستدان کی مٹھی گرم کی اسے پسند کی جگہ الاٹ کر دی گئی۔
حکمرانوں میں سرِ فہرست غازی ملت سردار ابراہیم خان اور مجاہد اوّل سردار عبدالقیوم خان ہیں۔
دونوں کواس بات کا کریڈٹ ملتا ہے کہ ان کے ادوار میں مظفرآباد کے قلعے کو جی بھر کر نقصان پہنچایا گیا اور والئی مظفر آباد و ہزارہ جات سلطان راجہ مظفر خان کی قبر کے اردگرد خواجہ محلہ قائم کرکے سلطان کی قبر کا راستہ ہی بند کر دیاگیا۔ والئی مظفر آباد کی قبر کا کوئی واضح نشان ہی نہیں۔ خواجہ محلہ کی ایک تنگ گلی میں بارہ فٹ لمبی اور دس فٹ چوڑی ایک کٹیا ہے جس پر ٹین کی چھت رکھی ہے۔
چھت کے نیچے زمین سے دو فٹ اونچا ایک چبوترہ ہے جسکے درمیان ریت اور بجری کاڈھیر سلطان عالیشان کی قبر کی نشاندہی کرتا ہے۔ چبوترے کے اردگرد درختوں کے پتے اور کچرہ اڑ کر آتا ہے اور جمع ہوتا ہے۔
اگر کسی سیاح کو سلطان کی قبر پر فاتحہ خوانی کرنی ہو تو ساتھ والے گھر سے چابی لے کر بہت مشکل سے زنگ آلود تالا کھول کر اندر جانے کا موقع ملتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ دیگر اکابرین کا بھی یہی حال ہے۔ چوہدری غلام عباس کی قبر راولپنڈی کے قبضہ مافیا کی زد میں ہے جو کسی بھی وقت مسمار کر دی جائے گی۔ ہر سال یہ مافیا قبر پر حملہ آور ہوتا ہے ۔ نواز شریف کے تیسرے دور حکمرانی میں تو چوہدری غلام عباس کی قبر پر ایک اشتہار لگایا گیا کہ اسے یہاں سے آزاد کشمیر لے جاوٴ۔ ستم یہ کہ آزاد کشمیر کے پست کردار اور غلامانہ ذہن رکھنے والے حکمران بھی قبر کی منتقلی پر راضی دکھائی دیتے ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان میں بٹوں، ڈاروں، خواجوں اور دیگر کشمیری ذاتوں اور گوتوں کی حکمرانی ہے مگر راولپنڈی کی سرزمین پر انہیں چوہدری غلام عباس کی قبرسے نفرت ہے۔ خطرہ ہے کہ کہیں بھارت سرکار نواز شریف ، زرداری یا مولانا فضل الرحمن سے چوہدری غلام عباس کا جسد خاکی نہ مانگ لے۔ اگر ایسا ہوا تو کشمیرا سنگھ کی طرح کوئی خواجہ یا ڈار وزیر خود جموں جا کر چوہدری غلام عباس کا کفن بھارتیوں کے حوالے کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہ کرے گا۔
میر واعظ مولوی محمد یوسف شاہ اورخورشید حسن خورشید کی قبریں بھی خود ساختہ بلیک لیبل ٹن سیاستدانوں اور کرائے کے حکمرانوں کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دونوں عظیم راہنماؤں کی قبریں مظفر آباد قلعے کے نیچے ایک چوک میں واقع ہیں جہاں سارا دن گردوغبار اور کوڑا کرکٹ اڑ کر ان قبروں پر گرتا ہے۔ احاطے میں صفائی کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔
مظفر آباد کی بے ہنگم ٹریفک اس چوک پر دھوئیں کا بادل بنائے رکھتی ہے جہاں زندہ لوگوں کا بھی دم گھٹتا ہے۔ تحریک آزادی کے اصل قائدین اور قومی سطح کے سیاستدانوں سے یہ برتاوٴ صرف اس لئے ہو رہا ہے چونکہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں ان کی کوئی برادری نہیں۔ گجروں کا خیال تھا چوہدری غلام عباس بھی گجر ہیں مگر بعد میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ چوہدری صاحب کا گجروں کی اصل ڈھائی گوتوں میں سے کسی ایک سے بھی تعلق نہیں بلکہ وہ راجپوت ہیں۔
اس تحقیق کے بعد گجر قوم نے چوہدری غلام عباس سے دوری اختیار کر لی جبکہ آزاد کشمیر کے راجپوت پہلے ہی کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتے۔ دوسری وجہ تینوں کی غریب الوطنی ہے۔ چوہدری غلام عباس کا تعلق جموں اور دیگر دو کا سرینگر سے تھا۔ تیسری اور اہم وجہ یہ کہ تینوں کا تعلق پاکستان کے کسی سیاسی بت خانے سے نہیں رہا۔ یہ لوگ قائداعظم کے ساتھی تھے اور ان ہی کے اصولوں پر کاربند رہے۔ لاڑکانے اور جاتی اُمرأ کے خاکروبوں سے کبھی ان کا تعلق نہیں رہا اور نہ ہی کسی نودولتیے خود ساختہ سیاسی گھرانے سے قربت رہی ہے۔ کشمیری سیاست کے تینوں درویش سیاستدان آزادی کی تڑپ لے کر آزاد کشمیر آئے اور اسی تڑپ کو سینے میں لئے راہی ملک عدم ہوئے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja