Episode 55 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 55 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

آج کشمیر کا سب سے بڑا المیہ کرپٹ نظام حکومت، سیاسی غنڈہ گردی، شرابی،زانی،بداخلاق،بداطوار اور بے اصول خودساختہ سیاسی ٹولہ اور ان کا طرز حکمرانی ہے۔ یہ المیہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا زوال صرف آزاد کشمیر تک ہی محدود نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر کی حالت بھی ایسی ہی ہے۔ یہاں زرداری اور نواز شریف کے عاشق ہیں تو دوسری طرف مودی اور سونیا گاندھی کے چیلوں کی بھی کمی نہیں۔
دونوں طرف آزادی کی تڑپ رکھنے والے بھی موجود ہیں جن پر غیروں نے ہی نہیں بلکہ اپنوں نے بھی ظلم کا پنجہ گاڑھ رکھا ہے۔
ولّی اللہ کاشمیری کہتے ہیں کہ ایشیأ کا قلب افغانستان اور جنت نظیر کشمیر گریٹ گیم کا میدان اور معصوم انسانوں کی قتل گاہ میں بدل چکے ہیں۔ کشمیری پاکستان اور پاکستانیوں کا مستقبل بچانے کے عشق میں مبتلا اپنی جانوں، مالوں اور اولادوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں اور پاکستانی قوم اور قائدین قاتل بھارتیوں کی غلامی قبولنے کے لئے بے قرار ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان بنا تو افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔ بھارت نے پاکستان کو دل سے قبول نہ کیا اور افغانستان نے کھل کر اس کے وجودکی نفی کی۔ روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تو پاکستانیوں نے افغانوں کے لئے اپنے دَر، دل اور ملک پیش کر دیا۔ بدلے میں افغانوں سے دنیا بھر کی دہشت گرد تنظیموں سے مل کر تین لاکھ معصوم پاکستانیوں کو بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔
صوبہ خیبر کو اسلحے کے ڈھیروں سے بھر دیا اور پختون کلچر اور غیرت کا جنازہ نکال دیا۔ سوات اور وزیرستان کے لوگوں کو بے گھر کیا اور صدیوں پرانی پختون روایات کو تباہ کیا۔ آج افغانستان بھارت سمیت دنیا بھر کی اسلام اور پاکستان مخالف قوتوں کا مرکز ہے مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستان جیسا نظریاتی اسلامی اور ایٹمی قوت کا حامل ملک قیادت سے محروم کرپٹ سیاسی ڈیلروں اور پاکستان دشمن قوتوں کے منتخب کردہ ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر ہے جنہیں دوست اور دشمن کی پہچان ہی نہیں۔
پاکستان کی کشمیر پالیسی کی اس سے بدترین مثال کیا ہوسکتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن جیسا شخص دس سالوں سے کشمیر کمیٹی کا چیئرمین ہے۔
ولّی اللہ کاشمیری کہتے ہیں کہ کشمیرایک روحانی مسئلہ ہے۔ مستقبل میں پاکستانی اشرافیہ اور حکمران طبقہ کشمیر سے مکمل لاتعلقی اختیار کرے گا۔ آزاد کشمیر کا وزیر اعلیٰ لاہور یا کراچی کا کوئی جعلی کشمیری مہاجر ہوگا۔
گورنر وہ بنے گا جس کا ضمیر مردہ اور روح کرپشن اور بداعمالیوں سے بوجھل ہوگی۔ آزاد کشمیر کے عوام کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا اور خوشی خوشی اس مسلط کردہ قیادت کی غلامی قبول کر لیں گے۔ مسلم کانفرنس کا وجود علامتی ہوگا جس کی لبریشن لیگ سے بھی کم تر سیاسی حیثیت ہوگی۔ جماعتِ اسلامی کی جگہ جمعیت فضل الرحمن لے گی اور اسے پاکستانی اور بھارتی حکومتوں اور حکمرانوں کی مکمل تائید حاصل ہوگی۔
شمالی آزاد کشمیر کا کچھ علاقہ گلگت و بلتستان میں شامل کر دیا جائے گا اور خیبر پختون خواہ کی سرحد وادی نیلم تک بڑھا دی جائے گی تاکہ آزاد کشمیر سے کوئی آزادی کا متوالہ مقبوضہ کشمیر میں داخل نہ ہوسکے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بھارت ٹیٹوال کے علاقے کی قربانی دے کر دنیا کو خوش کردے اور یہ علاقہ جو پہلے سے وادی نیلم کا حصہ ہے اسے پاکستان کے حوالے کر دے۔
ولّی اللہ کاشمیری کی اس پیشن گوئی کے مطابق یہ انتظام عارضی ہوگا اور جلد ہی یہ علاقہ ایک بار پھر گریٹ گیم کا حصہ بن جائے گا۔ آزاد کشمیر کا حکومتی نظام برادری ازم ، بھٹو زرداری ازم اور تخت لاہور کے غلاموں کی حمایت کے باوجود افراتفری کی نذر ہو جائے گا۔
جعلی مہاجروں کی اسمبلی سیٹوں میں اضافہ ہوگا اور آزاد کشمیر کے عوام کو نوکریوں سے محروم کر دیا جائے گا۔
یوں تو اس کی ابتدأ مسلم کانفرنس کے دور میں ہوچکی ہے مگر ابھی تک مہاجروں کی سیٹوں اور نوکریوں پر احتجاج نہیں ہوا۔ اس کی بڑی وجہ آزاد کشمیر کا پست تعلیمی نظام، ڈگری ہولڈروں کی نا اہلی اور غیر اعلانیہ برادری کوٹہ سسٹم ہے۔ آزاد کشمیر کا پبلک سروس کمیشن کرپشن کمیشن میں بدل چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکن دو نہیں بلکہ تین تین محکموں سے تنخواہیں لیتے ہیں اور سرکاری تعمیراتی سکیموں کی ٹھیکیداری بھی کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر کے دیگر اداروں کی طرح پبلک سروس کمیشن بھی ایک تماشہ ہے۔ اس تماشے کا ایک سین یہ بھی ہے کہ جو لوگ کسی امتحان میں ہی نہیں بیٹھتے وہ بھی پاس ہوجاتے ہیں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ 
کیا یہ ایک قومی المیہ اور اخلاقی زوال نہیں؟ زوال پذیر اقوام کا پھر بھی کوئی مستقبل ہوتا ہے مگر زوال زدہ اقوام کاکوئی علاج نہیں ہوتا۔ اخلاقی اور روحانی موت مرنے والی اقوام اور شخصیت کا تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا چونکہ مردہ اور بے اہمیت چیزوں کی کوئی مثال بھی پیش نہیں کرتا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja