Episode 56 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 56 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

شخصی و قومی زوال

معاشرہ اور فرد ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ معاشرہ افراد سے بنتا ہے اور معاشرے کے بغیر فرد یا افراد تمدنی زندگی کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ ہر چیز کا ایک جوڑا ہے۔ ذرات میں بھی منفی و مثبت ہیں۔ نباتات،جمادات اور حیوانات میں کوئی بھی چیز الگ اور اکیلی نہیں۔
اگر ایسا نہ ہو تو پیدائش اور موت کا سلسلہ باقی نہ رہے۔ خالقِ کل نے مخلوق کو خاص مقصد کے لئے ایک متعین وقت کے لئے پیدا کیا ۔ احد و واحد صرف خالق کی ذات ہے جس کا کوئی ہمسر و مددگار نہیں۔
قرآن کریم میں واضح فرمان ہے کہ اے لوگو! تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا گیا اور تمہاری ذاتیں اور قبیلے رکھے تاکہ آپس کی پہچان ہو۔

(جاری ہے)

پھر پھلوں کی مختلف اقسام اور رنگوں کا ذکر ہوا اور بتلایا گیا کہ نباتات، جمادات اورحیوانات بشمول بنی نوح انسان کے مختلف رنگ اور صورتیں رب کی نشانیاں ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے کہ اے لوگو! ڈرتے رہو اپنے ربّ سے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور اسی سے پیدا کیا اس کا جوڑا اور پھیلائے دونوں سے بہت مرد اور عورتیں۔ ار تقائی عمل اور اس کی وجوہات پر سوچنے اور لکھنے والے دانشور جن تاویلات کا سہارا لیتے ہیں ان کی بنیاد سطحی علم اور مفروضات پر مبنی ہے۔
انسان کے عروج و زوال کے متعلق خالق کائنات کا بیان ہی حتمی اور مبنی بر حقیقت ہے۔ آج انسان مریخ پر شہر بسانے کی منصوبہ بندی تو کر رہا ہے مگر اسے زمین کے نوے فیصد خزانوں اور دیگر رازوں کا علم ہی نہیں۔ وہ قیامت پر یقین رکھتا ہے اور اس کی ہولناکیوں سے بچنے کے لئے کبھی بڑے بڑے بحری بیڑے تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے تو کبھی مریخ پر منتقل ہونے کے لئے کھربوں ڈالر خرچ کرتا نظر آتا ہے۔
دیکھا جائے تو آج انسانی معاشرہ الٰہی احکامات سے روگردانی کرتا مسلسل باغیانہ روش اختیار کرتا جارہا ہے جو انسانی عالمی معاشرے کے زوال پذیر ہونے کی واضح نشانی ہے۔قرآنی آیات میں ذکر ہے کہ ربِ تعالیٰ نے دیگر مخلوق کوبھی امتوں میں تقسیم کیا جیسے سارے انسان بلا رنگ و نسل ایک امت ہیں چونکہ سبھی انسان ایک ہی باپ اور ایک ماں کی اولاد ہیں۔
آج بہت سے نام نہاد دانشور اورمحقق گوبل ویلج اور عالمی انسانی برادری کی بات کرتے ہیں مگر وہ الٰہی قوانین اور تخلیق آدم کی طرف توجہ دیے بغیر خود ساختہ اصول اور ایسے قوانین پیش کرتے ہیں جو کمزور انسانوں اور اقوام کو برتر مادی، شیطانی اور استحصالی قوتوں کی غلامی پر مجبور کرتے ہیں۔انسانی عالمی معاشرہ ، اخوت و محبت، مساوات و برابری کوئی تصوراتی یا افسانوی چیز نہیں بلکہ حقیقت ہے۔
قرآن کریم میں واضح ہدایات کے ساتھ آگاہ کیا گیا ہے کہ ہر چیز چھوٹی یا بڑی اللہ بزرگ و برترکے حکم اور ارادے سے پیدا ہوئی جس کی تقدیر لوح محفوظ پر درج ہے۔ یہاں تقدیر سے مراد پیدائش اور بعداز پیدائش زندگی کا دورانیہ اور اس دورانیے میں رونماہونے والے واقعات و حادثات، خوشی و غم کے لمحات اور پھر زوال اور اختتام و موت ہے۔ فرمان ربی ّ ہے کہ کوئی پتا میرے حکم کے بغیر کسی پیڑ سے نہیں گرتا۔
قرآن کریم صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ سب انسانوں کے لئے راہ ہدایت ہے اور نبی آخر الزمانﷺ ساری کائنات کے لئے رحمت و وسیلہ نجات بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ جس طرح قرآن پاک ساری انسانیت کے لئے وسیلہ و راہنمائی ہے اسی طرح دین اسلام اللہ کا پسندیدہ دین اور سب انسانوں کے لئے ہدایت و اصلاح کا سبب ہے۔ آدم سے لے کر نبی رحمت ﷺ تک سب نبی ّ اور رسول دین اسلام کا ہی پیغام لائے اورانکی اُمتیں مسلمان ہی تھیں۔
فرمان ربی ّ ہے کہ حضرت ابراہیم  نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی ۔ وہ دین اسلام (دین حنیف) پر قائم تھے اور مسلمان تھے۔ یہودیت، عیسائیت اور صبائیت ادیان کے نام نہیں بلکہ یہ ادیان اُن پیغمبروں کے ناموں سے منسوب ہیں جن کی امتوں نے دین کا بنیادی عقیدہ اور نام بدل کر اپنی پسند کے نام رکھ لیے۔ بعض جاہل علما جن میں کچھ مسلمان بھی کہلواتے ہیں ان میں شامل ہیں۔
اسلام کو محمڈن ازم اور مسلمانوں کو محمڈن لکھتے ہیں۔محمد ﷺاللہ کے آخری نبی اور سب جہانوں کے لئے وسیلہ نجات اور رحمت و برکت کا سائبان ہیں جبکہ دین اسلام اللہ کا پسندیدہ اور الٰہی قوانین کا منبع ہے۔ اسلام محمڈن ازم نہیں اور نہ ہی مسلمان محمڈن ہیں۔اسلام اللہ رب العالمٰین کی وحدانیت پر یقین رکھنا اور نبی اخروالزمان ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا آخری پیغمبر اور رسول تسلیم کرنا اور اللہ پر ایمان کے ساتھ اس کے فرشتوں اور نازل کردہ مقدس کتابوں، تمام نبیوں اور رسولوں، اچھی اور بری تقدیر، موت اور روز جزأ پر ایمان رکھنا ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja