Episode 57 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 57 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

اسلام انسانیت کا مذہب ہے جو سلامتی، اخوت، محبت، عالمی بھائی چارے اور زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال اور عدل کا درس دیتا ہے۔ اسلام عالمگیر معاشرتی اور ریاستی نظام کا درس دیتا ہے۔جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ اللہ انسانوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ اے لوگوتمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہیں زمین پر پھیلا دیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔
تمہارے لئے دن اور رات بنائے تاکہ دن کو تم روزی تلاش کرو اور رات کو سکون حاصل کرو۔ چاند اور سورج تمہارے لئے مسخر کر دیئے جن سے تم روشنی حاصل کرتے ہو۔ سورة رحمن میں رب ذوالجلال نے اپنے بے شمار احسانات کا ذکر کیا اور سوال کیا کہ آخرتم میری کون کون سی نعمت کو جھٹلاوٴ گے۔
آج ہر طرف انسانی حقوق کے علمبردار امن، اخوت اور بھائی چارے کی بنسریاں بجاتے پھرتے ہیں مگر نہ تو دنیا میں امن و اخوت ہے اور نہ ہی انسانی بھائی چارے کی کوئی مثال ملتی ہے۔

(جاری ہے)

ظالم اور جابر قوتیں دہشت و بربریت کی نت نئی مثالیں پیش کر رہی ہیں۔ طاقتور اقوام معاشی لحاظ سے کمزور اقوام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے نئے نئے حربے اختیار کر رہی ہیں۔ جراثیمی اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے ہو رہا ہے۔ فصلوں کی پیداوار میں کمی، گلوبل وارمنگ، ایڈز جیسے موذی مرض کی تخلیق، ہیضے اور دیگر بیماریوں کے پھیلاوٴ کی ادویات افریقی اور ایشیائی اقوام کی آبادی کم کرنے کے لئے کئی ناموں سے سستے داموں فروخت کی جا رہی ہیں تاکہ غربت کے ہاتھوں تنگ انسانی ریلہ ترقی یافتہ اقوام کی طرف ہجرت نہ کر سکے اور ان کے لائف سٹائل میں مداخلت نہ ہو۔
ایشیائی اور افریقی ممالک اور اقوام کو باہم لڑانے اور خونریزی عام کرنے کے لئے کبھی فرقہ واریت کا زہر پھیلایا جاتا ہے تو کبھی قومیت اور علاقائیت کے ہتھیار کو آزما کر قوموں اور قبیلوں کو خونریزی پر مائل کیا جاتا ہے۔ جنوبی افریقہ کے پادری سے کسی صحافی نے سوال کیا کہ اہل مغرب و امریکہ بھی عیسائی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ آپ اپنی ہی ہم مذہب اقوام کے غلام ہیں۔
پادری نے کہا جب ہماری ہم مذہب گوری اقوام یہاں نہ تھیں تو ہم زمینوں کے مالک تھے اور خوشحال تھے۔ پہلے پہل مغرب سے گوری رنگت والے پادری آئے تو ان کے ہاتھ میں مقدس انجیل تھی۔ انہوں نے انجیل ہمارے ہاتھوں میں پکڑا دی اور خود بندوق تھام لی۔ آج انجیل مقدس ہمارے پاس ہے اور ہماری زمین اہل مغرب کی ملکیت ہے۔
فرقہ واریت، علاقائیت، لسانیت اور قومیت کے بعد جمہوریت کا سہارا لے کر قوموں کا استحصال کیا گیا اور جہاں مفادات کا تحفظ یقینی ہوا وہاں آمریت اور بادشاہت کو بھی مقدس تسلیم کر لیا گیا۔
مغربی اور مشرقی جمہوریت کے بھی الگ الگ پیمانے مقرر ہوئے اور سیاست کو بربریت کے لئے استعمال کرنے کے لئے میکاولین اور چانکیائی سوچ و فکر کے تابع نئے رنگ و روپ میں پیش کیا گیا جسے مشرقی اقوام نے بصد شوق تسلیم کر لیا۔
عرب نیشنلزم اور پین اسلام ازم نے اسلامی اخوت اور امت واحدہ کو شدید نقصان پہنچایا تو باقی کسر سوشلزم نے پوری کردی۔
نام نہاد مسلم علمأ اور دانشوروں نے اسلام اور سوشلزم کو باہم ملانے کیلئے تاویلیں پیش کرنا شروع کیں تو کیپٹلیسٹ مبلغین نے پیٹرو ڈالر کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے شیوخ و سلاطین بنانے اور ان کی پرورش کا ذمہ لے لیا۔ پرانے شاہی خاندانوں کی جگہ نئے شاہی خاندان میکاولین سوچ لے کر آئے اور اہل مغرب کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ عرب دنیا بادشاہتوں، سوشلسٹوں اور کیمونسٹوں کی آما جگاہ بنی تو فرقہ واریت کے ہتھیار نے مسلم دنیا کو شیعہ اور وہابی مسلم بنا کر ایسا وار کیا جس کے زخم نہ صرف تازہ ہیں بلکہ ناسور بن کر ساری امت کو لاغروضعیف کر رہے ہیں۔
بدنام زمانہ برطانوی جاسوس ہمفرے اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے کہ نو آبادیاتی علاقوں کی وزارت میں نوکری کے ابتدائی دنوں میں مجھے ایسٹ انڈیا کمپنی کے معاملات دیکھنے والے ڈیسک پر تعینات کیا گیا تو پتہ چلا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی محض ایک تجارتی کمپنی نہ تھی بلکہ اسکے ذمے بیشمار دیگر کام بھی تھے۔ کمپنی کے ایجنٹوں، کارکنوں اور حفاظتی عملے کی باقاعدہ تربیت ہوتی تھی جنکا کام تجارتی کوٹھیوں کا قیام، مختلف مذاہب و عقائد کے مبلغین و مذہبی رہنماوٴں سے ملاپ، مختلف مذاہب و مسالک کے باہمی اختلافات اور ان کی وجوہات کا کھوج لگانا،غریب و تنگدست طبقے کے جذبات کو زمینداروں، صنعت کاروں اور جاگیرداروں کے خلاف ابھارنا اور انہیں عدم تحفظ کا احساس دلانا۔
اُمرأ اور اعلیٰ طبقات کے لوگوں سے راہ و رسم بڑھانا اور انہیں اپنے کلبوں اور پارٹیوں میں مدعو کرنا۔ اعلیٰ طبقے کے رئیس خاندانوں کو کمپنی بہادراور ملکہ برطانیہ کی طرف سے تحفے تحائف پیش کرنا اور بدلے میں مراعات حاصل کرنا۔ ارضیاتی سروے کرنا اور کمپنی کا تجارتی علاقہ بڑھانا۔ مقامی حکمرانوں کی کمزوریوں پر نظر رکھنا اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنا۔ کمپنی بہادر کا نفسیاتی اثر مقامی آبادی پر بڑھانا اور کمپنی بہادر کو مقامی لوگوں کا غمخوار اور نجات د ہندہ ثابت کرنا تھا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja