Episode 58 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 58 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

انگریزوں نے مقامی لوگوں پر اس قدر نفسیاتی کنٹرول حاصل کر رکھا تھا کہ انہیں مقامی حکومتوں کے نظام پر بالکل بھروسہ نہ تھا۔ وہ مقامی حکومتوں کے خلاف انگریز کی حمایت میں لڑنے اور مرنے کو جہاد اور شہادت تصور کرتے تھے اور زندہ رہنے کی صورت میں کمپنی انہیں ایسی مراعات دیتی تھی جس سے ان کا مقام مرتبہ عام لوگوں سے بدرجہ بہتر اور نمایاں ہوتا تھا۔
انگریز کی حمایت اور وفاداری میں کام آنے کی صورت میں ان کے خاندان اور قبیلے کو مراعات کے علاوہ عزت و تکریم سے دیکھا جاتا تھا۔
سول سوسائٹی کے قیام نے ہندوستان کے اندر ایک نیا ہندوستان قائم کر دیا جس کے ممبران میں گدی نشین پیروں،جاگیرداروں، صنعت کاروں اور انگریز حکومت کے وفاداروں اور مراعات یافتہ طبقے کے علاوہ نو دولتیوں کا ایک ایسا ٹولہ شامل ہوگیا جو دیہاتوں میں بسنے والی اکثریت کو جاہل، اُجڈ اور قابل نفرت سمجھ کر دھتکارنے لگا۔

(جاری ہے)

سول سوسائٹی کے مرد و خواتین کے کلب قائم ہوگئے اور انہیں انگریز سول اور ملٹری افیسروں سے ملنے اور ان کی بود و باش اختیار کرنے کا سنہری موقع میسر آیا۔ سول سوسائٹی کے ممبران کو انگریزی زبان سیکھنے اور بولنے کا ڈھنگ آگیا تووہ نہ صرف انگریزی حکومت کے رابطہ کار اور سہولت کار بن گئے بلکہ سلطنت برطانیہ کی وسعت پذیری کا باعث بھی بنے۔
ہمفرے کہتا ہے کہ کمپنی امور کی جانچ پڑتال کے دوران پتہ چلا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی تجارتی ہی نہیں بلکہ جاسوسی کا بھی اہم اڈہ ہے۔
کمپنی کے اندر ہی ایک ایسا ادارہ قائم تھا جس میں جاسوسی کا جال پھیلانے والے ایجنٹوں کو عربی، فارسی، پنچابی،بلوچی، پشتو، شینا، کشمیری، چینی اور روسی زبانیں سکھلانے والا عملہ بھی تعینات تھا جو ان ایجنٹوں کو زبانیں سکھلا نے کے علاوہ مختلف علاقوں اور ملکوں کی تاریخ و ثقافت اور مذہبی اور قبائلی رسم و رواج سے بھی واقفیت دلاتا تھا۔ اس محکمہ میں بھرتی ہونے والے انگریز افسروں کا خاندانی بیک گراوٴنڈ دیکھا جاتا اور ان کے علمی و عقلی معیار کو بھی پرکھا جاتا تاکہ کام کے دوران وہ کوئی ایسی حرکت نہ کر دیں جس سے ہدف چوکنّا ہوجائے اور ایجنٹ کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو۔
تربیت کے دوران ان ایجنٹوں کو مذہبی تعلیم دی جاتی اور علمی مباحثوں کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔
ہمفر ے پر لکھی جانے والی کتابوں میں درج ہے کہ اس قدر باریک بینی اور ممکنہ حفاظتی امور پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے باوجود گریٹ گیم جیسی اصطلاح کے موجد۔
(Arthur conolly who first coined the phrase, 
"The Great Game" was beheaded in Bokhara)
کیپٹن آرتھر کنولی، سرالیگذنڈربرن،کرنل سٹوڈارٹ اور دیگر مہم جو اپنی زندگیوں کی بازی ہار گئے۔
لیفٹیننٹ ہنری پوٹنگر، کیپٹن فرانسس ینگ ہا سبنڈ، کیپٹن ایبٹ، کرنل ڈیورنڈ،کیپٹن ایونجر اور میجر بڈھ لوف جیسے مہم جو چینی، تبتی اور شمالی ہند اور کشمیر کے سرحدی علاقوں میں کامیاب بھی ہوئے اور انتہائی مہارت، دلیری اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے روسی جاسوسوں اور مہم جووٴں کو سطح مرتفع پامیرتک محدود رکھا۔ ایک اور بات جس پر دھیان دینا ضروری ہے کہ برٹش انڈین حکومت کی تمامتر تدابیر اور اعلیٰ ترین مہارت اور مہم جوئی کے فن میں یدطولیٰ ہونے کے باوجود مہاراجہ کشمیر کا بھیجا ہوا جاسوس موتی لال سرینگر سے سکردو، نگر، ہنزہ اور پامیر سے گزرتا ہوا ماسکو جا پہنچا اور کامیابی سے مشن مکمل کرتے ہوئے واپس سرینگر آگیا۔
موتی لال دوسری بار خیواسے واپسی پر ہنزہ پہنچا تو میر صفدر علی نے اسے انگریز ریذیڈنٹ کے حوالے کر دیا۔
سوائے کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے ہندوستان میں کسی بھی جگہ انگریزوں کو کسی بڑی رکاوٹ کا سامنا نہ ہوا۔الیگزنڈر برن کی کتاب" ٹریول اِن بخارا" میں لکھا ہے کہ سوائے کَچھ اور ٹھٹھہ کے سرداروں کے کسی بھی سندھی یا بلوچی سردار نے رکاوٹ نہ ڈالی۔
کَچھ اور ٹھٹھہ کے سرداروں نے طویل مذاکرات اور راہداری فیس ادا کرنے کے بعد دریائی بیڑے کو سندھ میں داخلے کی اجازت دی۔ برن اپنی ڈائیری میں لکھتا ہے کہ حیدر آباد سے لے کر شورکوٹ اور پھر لاہور تک ہر سردار ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا نہ صرف حلف اٹھانے بلکہ اپنی ریاستوں کا برطانوی ہند کے ساتھ الحاق کے لئے بھی تیار تھا۔ اس امر کی یقینی وجوہات قبائل کے درمیان نہ ختم ہونے والی دشمنیاں،چوروں اور ڈاکووٴں کے مضبوط جتھے،شخصی حکمرانی کا کمزور ریاستی انتظامی ڈھانچہ، غربت و افلاس کی وجہ سے ٹیکسوں میں کمی اور بڑے پیمانے پر ترک وطن تھا۔
قبائلی سردار آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کم ہوتی دیکھ رہے تھے چونکہ ہندوستان کی مرکزی حکومت برائے نام تھی اور علاقائی حکمرانوں کو عام لوگوں کی زندگی سے کوئی سروکار نہ تھا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja