Episode 59 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 59 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

مایوسی اور محرومی کے اس ماحول نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے سیاسی اور توسیع پسندانہ رجحان کو تقویت دی تو کمپنی کے لئے ضروری ہوگیا کہ وہ ہندوستان میں جاسوسی کا ایسا نظام قائم کرے جس سے مرغوب ہوکر عام آدمی سے لے کر والیان ریاست تک ہر ہندوستانی انگریز کو نجات د ہندہ، مدد گار اور اپنا ہمراز سمجھے۔ یہی وجہ تھی کہ سراج الدولہ کی قوت ختم کرنے کے لئے میر جعفر اور ٹیپو سلطان کے خلاف مٹھی بھر انگریزوں کو میر صادق جیسے لوگ میسر آئے۔
مرہٹوں اور نظام آف دکن نے بھی سلطنت برطانیہ سے وفاداری کا غیر متزلزل ثبوت دیا اور مشکل مرحلوں پر کمپنی بہادر کو غیر یقینی صورت حال سے بچ نکلنے میں مدد فراہم کی۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد کمپنی امور پر حکومت برطانیہ نے ڈائیریکٹ کنٹرول حاصل کر لیا تو ایک بڑی سلطنت کا انتظام سبھالنے کے لئے ایک مضبوط نظام کی ضرورت محسوس ہوئی۔

(جاری ہے)

ہندوستان، مشرقی وسطیٰ، چین اور افریقی نوآبادیات کے مقابلے میں برطانیہ ایک چھوٹا ملک تھا جس کے وسائل پوری دنیا میں منتشر تھے اور آبادی قلیل تھی۔ ان حالات کے پیش نظر حکومت نے نوآبادیاتی نظام کے متعلق الگ وزارت قائم کی جس کے ذمے دو اہم امور پر فوری توجہ دی گئی۔ اوّل ایسی تدابیر اختیار کی جائیں کہ مقامی آبادی کو حکومت برطانیہ پر کامل بھروسہ ہو تاکہ بغیر کسی مداخلت کے برطانوی حکومت کا کنٹرول مضبوط اور مستحکم رہے۔
اس سلسلہ میں جو اوّلین کام ہوا اس میں وفادار والیان ریاست،مذہبی شخصیات، قبائلی سرداروں، گدی نشین روحانی علم رکھنے کی دعویدار معتبر شخصیات اور ایسے لوگوں کا چناوٴ کیا گیا جو معاشرے میں فتور پھیلانے اور لوگوں کو باہم دست و گریبان کرنے کا ہنر جانتے ہوں۔ اس ضرورت کی وجہ طویل بحث کے بعد سامنے آئی کہ جب تک کوئی معاشرہ سیاسی، مذہبی، فکری، علمی اور عقلی لحاظ سے تقسیم نہ ہو اسے کسی بھی سطح پر زیر کرنا آسان نہیں ہوتا۔
یہ نسخہ صرف ان معاشروں اور اقوام پر آزمایا جاتا ہے جہاں عدل و انصاف کا فقدان ہو، امیر غریب کا استحصال کرتا ہو، قوانین لاگو کرنے والے ادارے کرپشن اور رشوت کو جائز سمجھتے ہوں،عام لوگوں کی عزت نفس کو پامال کیا جاتا ہو اور لوگ امرأ کی شان و شوکت کوحسرت سے دیکھتے ہوں۔ جہاں لوگوں کے ذہن میں یہ بات آجائے کہ فلاں دولت مند کل ہماری طرح ہی مفلس تھا تو اچانک امیر کیسے بن گیا یا پھر نچلی ذات کا شخص معتبر اور معزز کیسے ہوگیا۔
سوچ کی اس بنیاد اور محرومی کے احساس کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے لئے ضروری تھاکہ مذہب، اورمعاشرتی رسم و رواج سے لیس ایسے ایجنٹ تیار کئے جائیں جنکا علم مقامی علمأ اورگدی نشینوں سے بہتر ہو اور وہ عام لوگوں کو ان کی ضروریات کے مطابق قائل کر سکیں۔ اگرچہ یہ ایک مشکل اور طویل المدتی منصوبہ تھا مگر اس کے فوائد دیر پا اور مسلسل اثرات و نتائج کے حامل تھے۔
دوسری بات جس پر غور کیا گیا کہ ایسا طریقہ کا رواضح کیا جائے تاکہ جو علاقے نوآبادیات میں شامل نہیں، انہیں غیر محسوس طریقے سے نوآبادیات میں شامل کیا جائے اور ان علاقوں کے عوام پر احسان مندی،ہمدردی اور دوستی کا ایسا بوجھ ڈالا جائے کہ وہ برطانوی حکومت کو اپنا محافظ سمجھ کر اپنی خودمختاری سے دستبردار ہوجائیں۔
اس پالیسی کا کشمیر کے ڈوگرہ حکمرانوں کے علاوہ چترال،گلگت اور پنجاب کے مقتدر گھرانوں کے علاوہ بلوچی سرداروں پر گہرا اثر ہوا۔ افغانستان پر برطانوی ہند کی فوجوں نے یلغار کی تو والیان ریاست اور قبائلی سرداروں نے حکومت کی کھل کر مدد کی اور بے پناہ قربانیاں بھی دیں۔ برطانوی حکومت ہندوستان اور چین سے بظاہر مطمئن تو تھی مگر اس بات کا کھٹکا بہر حال موجود تھا کہ اسلام اور کنفیوشزم کی کوکھ سے کسی بھی وقت ایسی چنگاری پھوٹ سکتی ہے جس کے اثرات مستقبل کی سیاست اور نوآبادیاتی نظام کی تحلیل کا باعث بن سکتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے حالات بھی نوآبادیاتی نظام کی وسعت پذیری کے لئے انتہائی موزوں تھے۔ قبائلی، مذہبی،ثقافتی اور نسلی اختلافات اس قدر گہرے ہو چکے تھے کہ عربوں، ترکوں اور ایرانیوں پر نفسیاتی غلبہ حاصل کرنا اور انہیں غلامی کی دلدل میں دھکیلنا مشکل کام نہ تھا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ جاسوسوں کی تربیت میں کوئی کمی باقی نہ رہے اور انہیں طویل عرصہ تک ان علاقوں میں رہنے اور بودوباش اختیار کرنے کی عادت پڑجائے۔
ایک عیسائی یا لا مذہب شخص کے لئے کتنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ بظاہر ایک دین کا نہ صرف پیروکار بلکہ عالم اور مبلغ بن کر لوگوں کو نئے فرقے، فکر اور فلسفے پر نہ صرف قائل کرلے بلکہ اس پر قربانی دینے کے لئے بھی تیار ہوجائے۔ ہمفرے اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے کہ جامعہ الازہر کے مفتی اورایرانی و عراقی شیعہ علمأہمارے منصوبوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔
یہ علمأ جدید علوم اور تمدن کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہ تھے اور نہ ہی قرآن کریم،حدیث نبویﷺ اور سنت رسولﷺ سے ذرہ بھر روگردانی برداشت کر سکتے تھے۔شیعہ علمأ ہی نہیں بلکہ شیعت کے سارے پیروکار آل رسولﷺ کی تعلیمات،اقوال،طریقِ زندگی اور دین کے لئے قربانیوں کو مشعل راہ سمجھتے تھے۔ ان کے مطابق آل رسول ﷺ کی پیروی میں جان بھی چلی جائے تو کوئی نقصان نہیں چونکہ اس کے بدلے میں جنت میں وہ مقام ملے گا جس کا وعدہ پیغمبر آخرالزمان ﷺ اور قرآن میں ربّ تعالیٰ نے کیا ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja