Episode 62 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 62 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

اگست1712ء میں مجھے انگلینڈ سے بحری جہاز پر سوار کیا گیا۔ تمامتر سہولیات سے لیس ایک ماہ کے تھکا دینے والے سفر کے بعد میں قسطنطنیہ پہنچا جہاں شہر میں داخل ہوتے ہی میری ملاقات اہلسنت سے تعلق رکھنے والے عالم دین اور انتہائی شفیق انسان احمد آفندی سے ہوئی۔شیخ احمد آفندی ضعیف العمر تھے جن کے دل میں پیغمبر اسلام ﷺ کی محبت بھری ہوئی تھی۔وہ اپنے نبی ﷺکا نام لیتے تو آنکھیں بھیگ جاتیں اور چہرہ سرخ ہوجاتا۔
وہ شہدائے بدر، احد اور کربلا کا نام لیتے تو بھی آنسو جاری ہوجاتے۔ میں نے شیخ سے اپنا تعارف یتیم و یسیر بچے کے طورپر کرایا اور قسطنطنیہ آنے کا مقصد قرآن باتفسیر پڑھنے کے علاوہ درس حدیث اور اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہونا بتایا۔ میں نے اپنا فرضی نام محمد رکھا اور شہر میں ایک ترکھان خالد احمدسے فرنیچر بنانے کا کام سیکھنے لگا۔

(جاری ہے)

میں نے ابتدائی ایّام میں اپنے آپ کو یوکرین کا مسلمان ظاہر کیا اور بعد میں لوگ مجھے آزر بائیجانی سمجھنے لگے۔

میں نے ابتدائی قیام مساجد میں کیا جہاں مجھے باجماعت نماز سیکھنے اور پڑھنے کے علاوہ درس قرآن و حدیث میں شمولیت کا موقع ملا۔خالد احمد کی ورکشاپ سے فارغ ہوتے ہی میں شیخ احمد آفندی کے آستانہ پر حاضری دیتا اور اسلامی روایات اور سنت رسولﷺ کے متعلق درس کی کلاس میں بیٹھتا۔ قرآن پڑھنے سے مجھے عربی، ترکی اور فارسی زبانیں سیکھنے میں بے حد مدد ملی۔
میرا لہجہ چونکہ عربوں، ترکوں اور ایرانیوں سے مختلف تھا اس لئے اکثر لوگ مجھے یوکرینین یا پھر آزری سمجھتے جسے تسلیم کرنا میرے لئے عزت کا باعث تھا۔ہمفرے کے متعلق برطانوی دانشوروں کا کہنا ہے کہ وہ اٹھارویں صدی میں برٹش ایجنٹ بنکر ترکی، ایران،مصر اور مشرق وسطیٰ میں تعینات ہوا جس کی خدمات قابل قدر ہیں۔ 1888ء میں ہمفرے کی زندگی اور کارناموں پر پانچ جلدوں پر مشتمل تحریر سامنے آئی اور حکومت نے اسے فادر آف وہابی ازم قرار دیا۔
ہمفرے کی یادداشتیں سب سے پہلے جرمنی کے ایک رسالے میں شائع ہوئیں اور بعد میں اسے لبنانی دانشور ایوب پاشا نے عربی اور ترکی زبان میں شائع کیا۔ انگریزی زبان میں کتاب کا نام۔
"Colonization Ideal" Mr. Humphrey's Memories. The English spy in Islamic Countries.
ہے۔ ہمفرے لکھتا ہے کہ ابتدائی مشن کی مدت پوری ہوئی تو نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت نے ہمیں واپس بلالیا۔
میرے دیگر نو ساتھیوں میں سے صرف پانچ واپس آئے۔ باقی چار میں سے ایک پر اسلامی تعلیمات کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ دین اسلام قبول کرنے کے بعد مصر میں مقیم ہوگیا اوروہیں شادی کرلی۔ دوسرا روسی نثراد تھا جس نے ماسکو میں قیام کرلیا اور وزارت سے تعلق توڑ لیا۔ تیسرا بغداد میں بیمار ہو کر مرگیا اور چوتھا ایران جا کر غائب ہوگیا۔ قیاس ہے کہ وہ ایران سے افغانستان گیا اور مسلمان ہو کر ہندوستان جا کر آباد ہوگیا۔
وزارت میں رپورٹ کرنے کے بعد ہماری کارکردگی کو جانچا گیا اور مشن واپسی پر پانچ کام سوپنے گئے جن میں مسلمانوں میں نسلی، قبائلی، مسلکی اور مذہبی اختلافات کو ہوا دے کر انہیں شعلہ بنانا تاکہ کھلیان اس انداز سے جل کر راکھ ہو جائے کہ کسی کو آگ لگانے والے کی خبر تک نہ ہو۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے ہمیں تعلیم یافتہ جوشیلے نوجوانوں پر توجہ دینے اور ان کے جذبات کو خلافت اسلامیہ اور اسلامی روایات کے خلاف ابھارنا تھا۔
 
آگے چل کر ہمفرے شیخ محمد بن عبدالوہاب سے ترکھان کی ورکشاپ پر ملاقات، دوستی،علمی مباحث، خلافت عثمانی کے خلاف شیخ کے خیالات و جذبات اور وہابی فرقے کی بنیاد، تعلیمات، تبلیغ اور ایک خاص طبقے میں پذیرائی کا احوال لکھتا ہے۔وہ لکھتا ہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب کا ذہن شیعہ سنی اختلاف سے پاک تھا۔ شیخ کے نزدیک حنفی، شافعی،حنبلی اور مالکی مکاتیب فکر کی کوئی اہمیت نہ تھی۔
وہ کہتا تھا کہ خدا نے جو کچھ قرآن میں کہہ دیا بس وہ ہی ہمارے لئے کافی ہے۔ شیخ کا کہنا تھا کہ چاروں امامین حضور ﷺکے وصال کے سوسال بعد پیدا ہوئے ۔عباسی خلفأ نے زبردستی عوام کو ان چار امامین تک محدود رکھا اور کسی اور نظریے کو پروان نہ چڑھنے دیا۔ شیخ کے نزدیک شیعہ مکتبہ فکر ان چار سلاسل کی ضد ہے۔ شیخ کا خیال تھا کہ آخر ہم ان پانچ سلسلوں کے مقید کیوں رہیں۔ اگر کوئی شخص ان سے بہتر خیالات کا حامل ہو تو اجتہاد کا راستہ اس کے لئے بھی کھلا ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja