Episode 63 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 63 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

ہمفرے لکھتا ہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب ہمیشہ یہ بات دھراتا کہ ہمارے نبی ﷺنے صرف کتاب و سنت کو نا قابل تغیر اصول بنا کر پیش کیا ہے ۔اس لئیے ضروری نہیں کہ ہم علمأ ، آئمہ اربعہ حتیٰ کہ اصحاب رسولﷺ کی رائے پر اپنا دین استوار کریں۔ میں نے محسوس کیا کہ شیخ کی اس سوچ پر کام کیا جائے اور دلائل سے اسے قائل کیا جائے کہ وہ ایک نئے سلسلے کی بنیاد رکھے جس میں سہل پسند اور دین بیزار مسلمانوں کے لئے خصوصی کشش ہو۔
ہمفرے کہتا ہے کہ مذہبی، روحانی اور اخلاقی اقدار و روایات سے روگردانی یا نئی نظریاتی جہت کی رونمائی میں تجسس اور کشش کا مادہ موجود ہوتا ہے۔ ہر معاشرے، ماحول اور ریاست میں نوے فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں سیاست، مذہب ، روحانیت، اخلاقی قدروں اور روایات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

ہر شخص الہامی کتابیں نہیں پڑھتا اور نہ ہی اسے دیگر علوم تک رسائی ہوتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں بھی ان پڑھ،بیروزگار،بیمار،بے گھر اور غربت کے شکنجے میں جکڑے لوگوں کی خاصی تعداد موجود ہوتی ہے۔ میرے مطالعہ میںآ یا ہے کہ سوائے اسلام کے کسی بھی مذہب میں قناعت، صبر، استقلال، اخوت وبھائی چارے کی زورآور تلقین نہیں ہوئی۔ زکوٰة، خیرات،صدقات اور حقوق انسانی پر جس قدر مواد اسلام میں موجود ہے کسی اور مروجہ مذہب میں نہیں۔
ہمیں قرآن اور حدیث رسول ﷺکے مطالعہ سے ہی پتہ چلا کہ نماز اور زکوٰة کا حکم ہر پیغمبر کے ذریعے مخلوق خدا کو دیا گیا جس کا مقصد غربت و افلاس کا خاتمہ اور معاشرے اور ریاست میں استحکام اور توازن پیدا کرنا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ خلافت راشدہ کے بعد آہستہ آہستہ امرأ و سلاطین نے اسلامی تعلیمات پر مکمل عمل نہ کیا جس کی وجہ سے عدل و انصاف کا معیار بھی قائم نہ رہا۔
آئمہ اربعہ کی زندگیوں اور تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں بھی کوئی خاص اختلاف نہیں اور نہ ہی حکمران طبقے نے ان کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔ امامین خود بھی حکومتی اثرات قبول نہ کرتے تھے اور اکثر حکمران طبقے کی خواہشات کے برعکس قرآن، احادیث اور سنت رسول ﷺکو مشعل راہ بنا کر اپنی تعلیمات عام لوگوں تک پہنچاتے تھے۔آئمہ اربعہ کی اہم خصوصیات یہ تھیں کہ یہ لوگ روحانیت سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے ۔
قرآن و حدیث پر تحقیق کے لیے ان ہستیوں نے روحانی علوم کا مشاہدہ کیا اور امامین اہل بیت سے فیض یاب ہوئے۔ امام جعفر صادق ، امام رضا  اور امام موسیٰ کاظم  کے بعد سید عبدالقادر جیلانی اور حضرت ابن عربی ایسی ہستیاں تھیں جن سے نہ صرف امامین بلکہ مسلم فاتحین اور حکمأنے بھی فیض حاصل کیا۔
اللہ کے رسول ﷺکی رحلت کے بعد اسلامی ریاست اور مسلم معاشرے میں خوارج کا ظہور، خلیفہ سوئم حضرت عثمان کی شہادت ، جنگ جمل، جنگ صفین ، خلافت بنو امیّہ،یزید بن معاویہ ،ولید اور مالک کے کردار اور سانحہ کربلا ایسے واقعات ہیں جن کی وجہ سے مسلم معاشرہ تقسیم ہوگیا اور نئے رجحانات نے جنم لیا۔
ہمفرے کہتا ہے کہ میرے لئے ان واقعات میں ایسا مواد موجود تھا جس کی بنیاد پر ایسے لوگ تیار کیے جاسکتے تھے جو خلافت عثمانیہ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں اور مملکت کا جغرافیائی، اخلاقی، انتظامی، دینی اور فکری وجود تقسیم ہوجائے۔ خوارج کے ظہور، حضرت عثمان کی شہادت،جنگ جمل، جنگ صفین اور سانحہ کربلا کے نتیجے میں ایک بار ایسا ہوچکا تھا مگر مسلم اکابرین اور علمائے حق نے اپنی دینی، روحانی اور فکری سوچ سے کسی حد تک ان اثرات کو زائل کر دیا۔
مدینہ،بغداد، قاہرہ، دمشق، ثمرقند اور بخارا اسلامی فکروفلسفے کے مراکز بن گئے۔ ان مراکز نے علمائے حق اور اولیائے کاملین کی ایسی جماعتیں پیدا کیں جو خود چلتی پھرتی یونیورسٹیاں تھیں۔ مختصر عرصے میں ان محترم ہستیوں کی تیار کردہ جماعتیں چین سے مراکش تک جا پہنچیں اور عام لوگوں میں رہ کر انہیں دین اسلام کے علم اور افادیت سے روشناس کروایا۔
ہمفرے لکھتا ہے کہ نوآبادتی علاقوں کی وزارت میں ایک جلسے کے دوران تجویز پیش کی گئی کہ کیوں نہ سپین سے مسلمانوں کے اخراج کے ماڈل کو اپنایا جائے۔ کافی سوچ اور مطالعے کے بعد حاضرین نے اس سے اختلاف کیا۔ اس منصوبے پر کام کی صورت میں خطرہ تھا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد یورپ میں داخل ہوجائے گی جسے سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔
مسلمان مہاجرین کی آمد سے جرمنی اور اٹلی کو گھر بیٹھے ایسی افرادی قوت میسر ہوجائیگی جس کی مدد سے یورپ اور مغربی مقبوضات پر جرمنی غلبہ حاصل کرلے گا۔ بہت سے اجلاسوں اور فکری مباحث سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا اس کا نچوڑ ترکوں کو عربوں سے جدا کرنا، عرب علاقوں کو دینی ، فکری، نظریاتی اور جغرافیائی لحاظ سے تقسیم کرنا ۔علاوہ اس منصوبے کے اثرات کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ان ممالک تک لے جانا،جہاں مسلمان اکثریت میں آباد ہیں اور مستقبل میں کسی فکری انقلاب کی صورت میں خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja