Episode 64 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 64 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

ہمفرے کی کامیابیاں ہمارے سامنے ہیں۔آج اسلامی دنیا فرقوں اور نظریوں میں بٹ کر تقسیم ہوچکی ہے۔سنی، وہابی اور شیعہ مسالک کے علمأ اور اکابرین کے الگ الگ نظریات ہیں اور ہر مسلک سے منسلک مسلمان ایک دوسرے کے خلاف بنرد آزما ہیں۔کشمیر اور فلسطین جیسے سلگتے مسائل پر عرب بہار کے خونی پھول نچھاورکیے جا رہے ہیں۔شام،یمن ، ایران ،پاکستان اور افغانستان گریٹ گیم کے نئے میدان ہیں جہاں داعش، القائدہ، طالبان اور حوثی قبائل مسلک ، علاقائیت اور نظریات کے تسلط اور فوقیت کو جہاد کا نام دے کرمسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔

ہمفرے پر لکھی جانے والی آٹھ جلدوں کے ابتدائی مسودے میں لکھا گیا کہ ہمفرے کا یہ قول سچ ہے کہ ساری قوم یا قبیلے سے لڑنے کے بجائے ایسے افراد کو ترجیح دی جائے جو محرومیوں کا شکار ہوں۔

(جاری ہے)

ایسے لوگ معاشرے، مذہب اور ریاست کے خلاف مشکل سے آمادہ ہوتے ہیں مگر ایک بار قائل ہوجانے کی صورت ہیں سارا نظام بدلنے اور مضبوط قومی کردار اور نظریات کو زوال پذیر کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔

وہ چانکیہ کو تیلیہ،مہاتمابدھ اور لاوٴزے کی مثالیں پیش کرتا ہے کہ کس طرح ایک اکیلا شخص قوت ارادی، استقلال، علم اور سنجیدہ مزاجی سے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا کر نئے نظریے اور رجحان کی بنیاد رکھ دیتا ہے۔ نظریہ جیسا بھی ہو معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو نہ صرف اس کی طرف مائل ہوجاتے ہیں بلکہ اس پر یقین و ایمان بھی لے آتے ہیں۔
اگر نظریے کی بنیادخیر پر ہو تو عام لوگ اسے آسانی سے سمجھ لیتے ہیں اور اس کی پرکھ دین کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں اگر کوئی نقطہ دین کے بنیادی اصولوں سے مبّرا ہو تو اس کی مخالفت میں آواز اُٹھاتے ہوئے اسے مسترد کر دیتے ہیں۔ نظریہ خیر میں فرقہ بندی اور تفریق کاکوئی پہلو نہیں ہوتا چونکہ اس کی بنیاد توحید و رسالت پر یقین اور غیر متزلزل ایمان پر استوار ہوتی ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ آئمہ اربعہ نے کوئی بات قرآن و حدیث سے ہٹ کر نہیں کی اور نہ ہی سنت رسول ﷺکے کسی پہلو کو نظر انداز کیا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ اپنی طرف سے بھی کچھ لکھتے ہیں جو آپ کی ذاتی سوچ کی بنیاد پر ہو۔ آپ نے فرمایا اگر ایسا ہوتا تو میں پاوٴں کے نیچے سے مسہ کرنے کاکہتا چونکہ پاوٴں نیچے سے ناپاک ہوتا ہے۔
حضورﷺ کا حکم ہے کہ پاوٴں کا مسہ اوپر سے کرو اور یہ حکم ہمارے لیے کافی ہے۔پھر آپ نے قرآن کریم کا حوالہ دیا کہ فرمان ربی ّ ہے کہ اے لوگو میرا نبی ﷺعام گفتگو میں بھی اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ وہی کہتا ہے جو میرا ارادہ ہے۔ امامین، فقرأ اور صلحأ کی زندگیوں کی ہزاروں ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے سبق ملتا ہے کہ دین کے معاملے میں ان میں کوئی اختلاف نہ تھا۔
جہاں تک قوانین کا تعلق ہے تو زمانے کی تبدیلی، ترقی اور نئے سیاسی اور معاشرتی ماحول کے مطابق قرآن و سنت کی روشنی میں اجتہاد کا راستہ بنایا گیا جو وقت اور حالات کی ضرورت تھی۔
قرآن کریم میں مردم شماری اور خانہ شماری کا ذکر نہیں مگر آپ ﷺنے مدینہ شریف تشریف لانے کے بعد مردم شماری اور خانہ شماری کا حکم دیا جس کا مفصل ذکر ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے خطبات بہاولپور میں کیا ہے۔
اسی طرح دیگر انتظامی امور اور معاشرتی اور سیاسی اصلاحات کا بھی ذکر ہے جو رسول اللہ ﷺ نے ریاستی نظام چلانے کے لئے متعارف کروائیں۔ آگے چل کر جوں جوں اسلامی مملکت وسیع ہوتی گئی نئے قوانین کی بھی ضرورت محسوس ہوئی جو قرآن و سنت کے مطابق وضع کئے گئے۔ ان قوانین کے نفاذ سے نہ تو کوئی شرعی مسئلہ پیدا ہوا،نہ بنیادی اسلامی نظریے سے انحراف کی صورت پیدا ہوئی،نہ بنیادی انسانی حقوق پر آنچ آئی اور نہ ہی مسلکی تفریق و رقابت نے سر اٹھایا۔
ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں کہ مدینہ آمد پر آپ ﷺنے سوشل سیکورٹی اور گروپ انشورنس کے ادارے قائم کئے جہاں ہر قبیلے کے مالدار لوگ کچھ نہ کچھ جمع کرواتے جو قصاص، غربأ و مساکین اور یتیموں کے کام آتا۔ اسی طرح بیت المال کا محکمہ قائم ہوا اور آپ ﷺنے جنگی مشقوں کا بھی اہتمام کیا جن میں کشتی،نیزہ بازی، گھڑ سواری، تیراندازی، تیغ زنی سمیت دیگر مروجہ جنگی چالوں اور حکمت عملیوں کا مظاہرہ ہوتا۔
ڈاکٹر صاحب  فرماتے ہیں کہ آپ ﷺایک اونچی جگہ کھڑے ہو کر ان کھیلوں اور مشقوں کا مظاہرہ دیکھتے اور اچھی کارکردگی پیش کرنے والوں کو انعامات بھی دیتے۔
اس میں شک نہیں کہ قرآن کلام الٰہی اور راہ ہدایت ہے مگر عام آدمی کی سمجھ کے لئے ضروری ہے کہ قرآنی الٰہی احکامات کی عام فہم اور سادہ زبان میں تشریح کی جائے۔ قرآن پاک میں وضو،تیمم، نمازاور زکوٰة کا حکم ہوا ہے مگر تشریح کے لیے سنت رسولﷺ اور سیرت پاکﷺ سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے جس کا منبع ومخزن احادیث رسولﷺ ہیں اور جن کا بیان اصحاب رسول ﷺسے منسوب ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja