Episode 66 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 66 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

ہمفرے کے بعد کرنل لانس المعروف لارنس آف عریبہ کا دور آیا۔ لارنس کے دور میں وہابی نظریات کے اثرات ہندوستان تک پہنچ چکے تھے اور مدارس میں اس مسلک کے ماننے والوں کی تعداد بڑھ رہی تھی۔ آئمہ اربعہ، علمائے حق اولیائے کاملین کی تعلیمات اور مسلمان علمأ کے خیالات کو رد کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ بدعت اور کفر کے فتوے عام ہوچکے تھے اور ہندی مسلمانوں اور علمأ میں تقسیم اور تفریق کی جنگ کا آغاز ہوچکا تھا۔
برطانوی حکومت کو اس بحث سے کوئی سروکار نہ تھا بلکہ حکومت اور ہندو اکثریت کو اس نئے مسلک اور مسلمانوں کے باہمی ٹکراوٴ سے فائدہ ہی فائدہ تھا۔ سعودی ریاست کے قیام اور وہابی مسلک کو ریاستی مذہب بنانے میں برطانیہ کی سیاسی اور فوجی حکمت عملی کوئی راز نہیں۔

(جاری ہے)

ٹی ای لارنس کی مشہور زمانہ تنصیف۔Seven pillars of wisdom a triumph (1935)

اس حکمت عملی اور مقاصد کا واضح ثبوت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔
لارنس نے اپنی حکمت عملی کا جو نقشہ ترتیب دیا اس میں جزیرہ نما عرب کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا اور پھر ہر حصے میں بسنے والے قبائل، ان کے مسلک اور قبائلی سرداروں کی سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے اور انہیں اسلحہ اور تربیت دینے کا منصوبہ بڑی احتیاط سے مرتب ہوا۔ منصوبے کی تیاری کے بعد لارنس نے جنرل میک موہن اور دیگر برطانوی فوجی کمانڈروں اور دانشوروں کی اس پر رائے لی اور پھر لارنس آف عربیہ کے روپ میں اپنا کام شروع کیا۔
ابتدأ میں شریف آف مکہ، نوری شالان آف اردن و فلسطین، ابن رشید آف ھیل و جاوٴف، ابن سعودآف نجدو ریاض کے علاوہ عمان اور کویت کے قبائلی سرداروں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں الگ اور آزادانہ طریقے سے جنگ میں شامل کیا۔ لارنس کے منصوبے کے مطابق قبائل اپنی زمین پر ہی جنگ لڑنے کے ماہر ہوتے ہیں اور وہ اپنے سرداروں کے حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے۔
ایک منظم اور متحرک فوج کے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ ایک ہی وقت میں کئی محاذوں پر پوری قوت استعمال کرے ۔جبکہ قبائل کئی علاقوں میں پھیل کر فوج کا نہ صرف بھاری نقصان کرنے بلکہ فوج اور حکومت کا حوصلہ پست کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بشرطیکہ، انہیں راشن اور ایمونیشن کی کمی نہ ہو اور سرداروں کے پاس وافر مقدار میں سرمائیہ بھی موجود ہو۔لارنس لکھتا ہے کہ صحرائے عرب میں یہ کام مشکل ضرور تھا مگر ناممکن نہ تھا۔
1916ء سے پہلے برطانوی افواج بغداد اور مصر میں داخل ہوچکی تھیں۔ مصری حکومت کے ساتھ تعلقات انتہائی دوستانہ تھے جبکہ روس اور ایران کے تعلقات کشیدہ تھے۔ ایسے حالات میں عرب سرداروں کو استعمال کرنا مشکل نہ تھا۔
لارنس کی کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح پہلے عربوں کو ترکوں کے خلاف استعمال کیا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شریف آف مکہ اور ابن رشید کا صفایا اور ابن سعود کا وسیع علاقوں پر کنٹرول ہوگیا۔
اسرائیل کے قیام اور استحکام کے لئے ضروری تھا کہ عربوں کو مختلف ملکوں، فرقوں اور قبیلوں کی طرز پر تقسیم کیا جائے۔ اس منصوبے کے تحت اردن،شام، عراق اور لبنان کو عربستان سے الگ اور منفرد حیثیت دی گئی۔ امان، یمن، اور خلیجی ریاستوں پر عرصہ تک برطانیہ کا اثر رہا چونکہ برٹش انڈیا پر کنٹرول کے لئے سمندری راستوں کا تحفظ ضروری تھا۔لارنس لکھتا ہے کہ عرب بغاوت کی وجہ سے ترکی آہستہ آہستہ مر رہا تھا اور سلطان عبدالحمید کی حیثیت ایک ترک سپاہی سے بھی کم تر ہو رہی تھی۔
میری پہلی ترجیح ٹرانس عربین ریلوے سسٹم کو تباہ کرنا اور ترکوں کو اس کے استعمال سے روکنا تھا جبکہ دیگر ایجنٹ ینگ ترک موومنٹ کو بھڑکانے کے علاوہ ترکی، فارسی اور عربی بولنے والی اقوام کو مسلکی، علاقائی اور قبائلی سطح پر تقسیم کرنے کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے۔ لارنس لکھتا ہے کہ استنبول، انقرہ ، دمشق اور مدینہ کو ملانے والی ریلوے لائن کا دوسرا سرا یورپ سے ملا ہوا تھا جس کے ذریعے جرمنی، اٹلی اور روس قریب المرگ ترکی کو آکسیجن فراہم کر سکتے تھے ۔
جلد ہی وہ لمحہ آگیا کہ ایک خدا، ایک رسولﷺ، ایک کتاب اور شریعت کو ماننے والی امت تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر گئی۔آج ہمفرے کی تحریک کے اثرات ہر اس جگہ پہنچ چکے ہیں جہاں مسلمان آباد ہیں۔ نئے مسلک میں شیعہ اور سنی مسالک کی نسبت زیادہ کشش ہے۔ ہر دین کی اصل روحانیت سے منسلک ہے۔روحانیت کے بغیر مادہ بھی بے جان ہوجاتا ہے۔ تخلیق کائنات کی ابتدأ نور سے ہوئی اور احکامات الٰہی کے تابع نوری کیفیات نے بتدریج تبدیلیوں کے عمل سے گزر کر مادی شکل اختیار کی۔ علمائے حق کے سائنسی علم کے مطابق اگر مادے کو تحلیل کیا جائے تو واپس اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja