Episode 68 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 68 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

دیوبندی اور بریلوی تقسیم کے علاوہ سلسلہ مرزائیت ایک الگ مذہب کی شکل میں سامنے آیا اور مسلمانوں کا ایک بڑا اور پڑھا لکھا طبقہ دین اسلام سے منحرف ہو کر اس مذہب سے منسلک ہوگیا۔ مرزائیوں کا مرکز قادیان کشمیر کے صوبہ جموں میں واقع ہونے کی وجہ سے نہ صرف محفوظ تھا بلکہ ہندو اکثریتی صوبے میں انہیں تربیت و تبلیغ کے علاوہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے بھی مواقع میسر تھے۔
یہ مذہب بنیادی طورپر ختم نبوتﷺ اور جہاد فی سبیل اللہ سے انکار کے اصولوں پر استوار کیا گیا جس سے انگریزی حکومت، کانگریس اور ڈوگرہ حکومت کو بھرپور فائدہ حاصل ہوا۔ مرزا غلام احمد قادیانی عقیدہ ختم نبوت سے کیوں منکر ہوا؟ کیا یہ بھی کسی ہمفرے یا لارنس کی کوششوں کا نتیجہ تھا؟ اس مسئلے پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آنے والے وقت میں شاید بہت کچھ سامنے آئے جس پر لکھنے کا موقع میسر نہ ہوگا۔

(جاری ہے)

الٰہی قوتیں جب حرکت پذیر ہوتی ہیں تو لوگوں کو سوچنے اور حکمت عملی تیار کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ ایک وقت ایسا بھی گزرا جب عیسائی مشنریوں کا مقابلہ کرنے والا پورے ہند میں مرزا غلام احمد جیسا کوئی عالم دین نہ تھا۔ مرزا غلام احمد کی دین اسلام سے محبت اور نبی آخرالزمانﷺ سے اُنس و عقیدت کا اندازہ مرزا کے اس شعر سے لگایا جاسکتا ہے جو شاید کم لوگوں کی نظروں سے گزرا ہوگا۔

گر خواہی دلیلِ عاشقش باش
محمد است بُرہان محمد
اگر تمہیں حضورﷺکے مرتبے کی دلیل چاہیے تو لفظ محمدﷺ ہی ان کی عظمت کی دلیل ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ دین دار لوگ ہی بھٹک کر قومی اور ملی زوال کا باعث بنتے ہیں۔ بظاہر اس کی وجوہات سیاسی، معاشی، انتقامی اور نفسیاتی معلوم ہوتی ہیں۔ وہ لوگ جن کی معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں ہوتی محض معزّز، محترم اور نمایاں حیثیت کے حصول کی خاطر کسی بھی حد تک گرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں پہلے جاگیردارانہ کلچر متعارف ہوا۔ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جنہوں نے حکومتی جبر کا ساتھ دیا اور اپنے ہی ہم وطنوں سے غدّاری کے مرتکب ہوئے۔ ان جاگیرداروں میں گدی نشین پیروں اور مذہبی شخصیات نے بھی شمولیّت اختیار کی اور نو آبادیاتی نظام کے خاتمے پر ان کی آئندہ نسلوں نے جانشینی کا حق حاصل کر لیا۔
تقسیمِ ہند سے پہلے کچھ ریاستوں، جن میں کشمیر بھی شامل تھا، ایک ایسا طبقہ ُروشناس ہوا جنہیں حکومتی ٹاوٴٹ اور سرکاری وفادار کہا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ جاگیردار کہلواتے اور معمولی مراعات اور چند سو ایکڑ زمین کے بدلے میں اپنے ہی ہم مذہب اور ہم وطن لوگوں سے غدّاری کے مرتکب ہوتے اور حکومت سے مفاد حاصل کرتے تھے۔
تقسیم ہند کے دوران دونوں اطراف سے مہاجرین کی کثیر تعداد پاکستان اور بھارت منتقل ہوئی تو غنڈہ عناصر نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا۔
ان عناصر میں بھی نچلے طبقے کے سرکاری ملازمین اور تشدد پسند عناصر شامل تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ لارڈ ماوٴنٹ بیٹن کی حکومت اس انسانیت سوز المیے کی ذمہ دار ہے۔ اگر حکومت مہاجرین اور اثاثوں کی منتقلی سمیت آزاد و خودمختار ریاستوں کے حقوق کا تحفظ کرتی تو نہ کشمیر، سکم،آسام، حیدر آباد اور جوناگڑھ کا المیہ ہوتا اور نہ ہی پنجاب میں آگ اور خون کے دریا بہتے۔
اس میں شک نہیں کہ ہندوستان چھوڑتے ہوئے انگریز نے برّصغیر کے مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ بنایا اور ہندو تشدد پسند تنظیموں کو قتل عام کی کھلی اجازت دی۔
پاکستان کے شمال میں چین، شمال مغرب میں افغانستان اور مغرب میں ایران واقع ہے۔ پاک چین باوٴنڈری اور ڈیورنڈ لائن کا جائزہ لیں تو سرحدوں کا تعیّن زمینی خدوخال کو مدنظر رکھ کر کیا گیا جب کہ ایران اور بلوچستان میں حد بندی بلوچ قبائلی سرداروں اور انگریز ریذیڈنٹ نے دونوں اطراف کے قبائل کی سہولیات کو مدّنظر رکھ کر کی۔
اس ضمن میں پاک بھارت سرحد کا جائزہ لیں تو اس سلسلے میں کسی اصول کو مدنظر نہ رکھا گیا بلکہ پنجابی جاگیرداروں کی جاگیروں کے تحفظ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پٹواریوں کے نقشوں پر انحصار کیا گیا جس کی وجہ سے بہت سے اہم علاقے بھارت کی طرف چلے گئے۔
جنرل مجید ملک مرحوم نے اپنی کتاب "ہم بھی وہاں موجود تھے"میں لکھتے ہیں کہ جنرل اکبر خان رنگروٹ جنرل ڈگلس گریسی کے بعد سینئر ترین جرنیل تھے۔
جنرل اکبر کا تعلق آرمی سپلائی کور سے تھا اس لیے انہوں نے آرمی چیف بننے سے انکار کر دیا۔ انہیں پتہ تھا کہ فوج میں لڑاکا فوج کے افسر اور سپاہی کی زیادہ اہمیت اور عزت ہوتی ہے۔ جنرل اکبر کے بعد ان کے چھوٹے بھائی جنرل افتخار خان سینئر جرنیل تھے۔ جنرل افتخار خان ایک لائق، ذہین، خوبصورت جو ان اور گوناں گوں خوبیوں کے حامل تھے۔جنرل گریسی کے بعد انہیں کمانڈر انچیف نامزد کیا گیا اور سپیشل ٹریننگ کے لئے رائل ڈیفنس کالج انگلینڈ بھجوایا گیا۔
جنرل افتخار خان تین ماہ کے سپیشل کورس کے بعد واپس آئے مگر بدقسمتی سے کراچی کے قریب جنگ شاہی کے مقام پر ہیلی کاپٹر کے حادثے میں شہید ہوگئے۔ اس حادثے میں ان کی بیگم، جواں سال بیٹا اور ایک نہایت قابل افسر بریگیڈئیر شیر خان ڈائریکٹر ملٹری آپریشن بھی شہید ہوگئے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja