Episode 70 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 70 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

پیر کرم شاہ عربی اور فارسی زبان روانی سے بولتا تھا جبکہ اردو اور پشتو زبانوں پر بھی دسترس رکھتا تھا۔ کرم شاہ نے قبائلی علاقوں میں دینی تعلیم کے اجرأ پر زور دیا اور مدارس اور ملاوٴں کی خفیہ امداد بھی کی۔ کرم شاہ نے ملکہ حمیرہ کو خاص طورپر نشانہ بنایا کہ وہ بے حجاب ہوگئی ہے اور بیرونی دوروں کے دوران وہ انگریزوں اور یہودیوں سے مصافحہ کرتی رہی ہے۔
عورتوں کی تعلیم اور سائنسی علوم کی ترویج بھی اس کے پراپیگنڈے میں شامل تھی۔ملکہ حمیرہ کے جرائم میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اس نے Vatican کے دورے کے دوران پوپ سے فرانسیسی زبان میں بات کی جو اسلامی اور پختون روایات سے بغاوت کے مترادف ہے۔کرم شاہ نے قبائلی سرداروں اور ملاوٴں کو قائل کیا کہ سائنسی اور مخلوط تعلیم دین کے منافی ہے۔

(جاری ہے)

میڈیکل کی تعلیم میں عورت کے مختلف جسمانی اجزأ پر بحث ہوتی ہے جس کا شریعت میں کوئی ذکر نہیں۔

کرم شاہ اپنے منصوبے میں کامیاب رہا اور 1929ء میں میر امان اللہ خان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ لارنس طویل دوروں کے بعد لاہور آتا تو اکبر جہاں اس کے انتظار میں ہوتی۔ شیخ احمد حسین کو ان ملاقاتوں کا پتہ چلا تو اس نے کرم شاہ اور اکبر جہاں کی شادی کروادی۔ افغانستان میں شور مچا تو پتہ چلا کہ پیر کرم شاہ دراصل برطانوی خفیہ ادارے کا کرنل ٹی ای لارنس ہے۔
یہ شادی تین ماہ تک قائم رہی۔ میر امان اللہ خان کی حکومت کے خاتمے پر اخبارات نے کرم شاہ کا بھید کھول دیا۔ حکومتی حمایت یافتہ سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اس کی بھرپور تردید کی مگر کچھ ہی ہفتوں بعد 25اپریل 1929ءء کی اشاعت میں روزنامہ لبرٹی نے پیر کرم شاہ کے سارے منصوبے کی تفصیل لکھ دی جس میں اکبر جہاں سے شادی اور نیڈو لاہور میں قیام کا بھی ذکر تھا۔
اخبار نے ثابت کر دیا کہ پیر کرم شاہ کے خفیہ نام پر کام کرنے والا کردار کرنل ٹی ای لارنس ہی ہے۔
یہ خبر منظر عام پر آئی تو ہیری نیڈو (شیخ حسین احمد) نے لارنس کو دھوکہ دہی کا مرتکب قرار دیا اور بیٹی کی طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ لارنس چونکہ اپنا کام کر چکا تھا اور جلد از جلد ہندوستان سے نکلنا چاہتا تھا اس لئے وہ طلاق پر رضا مند ہوگیا۔
ہمفرے کی طرح کرنل ٹی ای لارنس بھی برٹش ہیرو ہے جس پر بعد کے دور میں بہت کچھ لکھا گیا۔ لارنس کی زندگی کے کچھ خانے خالی رکھے گئے جن میں کشمیری لیڈر شیخ عبداللہ، قادیانی مذہب سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات ، فیض احمد فیض اور پروفیسر ایم ڈی تاثیر شامل ہیں۔ لارنس کا کشمیر منصوبہ بھی ادھورا رہ گیا اور اسے مجبوراً واپس جانا پڑ گیا۔
چار سال بعد 1933ء میں شیخ عبد اللہ اور اکبر جہاں کا نکاح سرینگر میں ہوا جس نے میر واعظ خاندان کے ٹکڑوں پر پلنے والے نعت خواں سکول ماسٹر شیخ محمد عبداللہ کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ بہت کم لوگ جانتے تھے کہ شیخ عبداللہ، فیض احمد فیض، ایم ڈی تاثیر اور ان کے حلقہ احباب میں شامل کشمیری اور لاہوری بھی قادیانیت سے متاثرتھے۔ شیخ عبداللہ کی کوششوں سے کشمیر کمیٹی نے سرینگر، مظفر آباد، ہزارہ، اوڑی اور کرناہ میں اپنے مراکز کھولے جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں کشمیریوں نے قادیانی مذہب اختیار کیا۔
کرناہ،ہزارہ اور نیلم کے سادات گھرانے اور کرناہ کا بمبہ خاندان بھی قادیانیوں کے حلقہ میں شامل ہوا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ1947ء کے جہاد کشمیر میں کرناہ کے بمبہ خاندان نے شیخ عبداللہ اور کانگرس کا ساتھ دیا۔ 1950ء میں کرناہ کے راجہ شیر خان کو حکومت نے شیر کرناہ کا خطاب دیا اور وفاداری کی سند عطا کی۔ اس مضمون میں جن شخصیات کا ذکر ہوا وہ سب عام لوگ تھے۔
ان سب کا مشن اپنی سطح سے بلند ہو کر معاشرے سے انتقام لینا اور اپنی شخصیت کو نمایاں کرنا تھا۔ ان کرداروں کو دوام بخشنے والی قوتیں اور کردار قابل داد ہیں کہ کس ہمت اور عقل سے وہ ان منفی کرداروں کو کھوجنے اور استعمال کرنے میں کامیاب ہوئے۔ نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت درحقیقت سوچ و فکر کا ایسا ادارہ تھا جس کا مقصد ایک نسبتاً چھوٹے اور کم آبادی کے حامل ملک برطانیہ کا ساری دنیا پر تسلّط قائم کرنا اور ساری دنیا کے وسائل پر دسترس حاصل کرنا تھا۔
ہمفرے اور لارنس جیسے لوگوں کا چناوٴ اور پھر انہیں ایک عظیم اسلامی سلطنت کو مسلک، زبان، رنگ ونسل اور علاقائیت کی بنیاد پر تقسیم کرنا اور ایک ہی دین، کتاب اور پیغمبر کے ماننے والوں کو باہم لڑا کر پاش پاش کرنا ایک ایسا کارنامہ ہے جسے سمجھنے اور اس کا توڑ نکالنے کی سوائے قائداعظم  کے اسلامی دنیا کے کسی مفکر،دانشور اور لیڈرنے کبھی کوشش ہی نہیں۔
1929ء میں کرنل ٹی ای لارنس اپنا مشن سمیٹ کر واپس چلا گیا مگر اپنی سوچ و فکر کا اثاثہ لاہور، کابل، دہلی اور سرینگر میں چھوڑ گیا۔ اب کسی ملک پر اپنا ایجنڈا اور نظریہ نافذ کرنے کے لئے نوآبادیاتی علاقوں کی وزارت اور کسی نئے فکر و فلسفے کی ضرورت نہیں رہی۔ ساری دنیا کے مسلمان حکمرانوں، سیاستدانوں، مذہبی اور مسلکی رہنماوٴں، تاجروں، صنعت کاروں،میڈیا مالکان اور صحافیوں کو اپنی قوم، ملک اور معاشرے پر تسلط قائم رکھنے اور عوام کو مسلک، مذہب، علاقائیت اور لسانیت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی ہمفرے اور لارنس ورلڈ بنک ، آئی ایم ایف ، غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں اور این جی او(NGO)کی صورت میں دستیاب رہتا ہے۔
نو دولتیے سیاسی کلچر کی بنیاد معاشی اور اخلاقی کرپشن پر استوار ہے۔ جس کا مذہب، عقیدہ، فرقہ اور مسلک دولت اور حکومت ہے۔ ضمیر فروشوں کا مذہب ، ملت اور غیرت ایمانی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ طوائف کا کوٹھا ، ساہو کار کی ہٹی اور ریاست کا کاروبار کبھی بند نہیں ہوتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ریاست کا نظام اگر باکردار، روشن ضمیر، ملی جذبے سے سرشار غیرت ایمانی کے حامل افراد کے ہاتھوں میں آجائے تو شخصی اور قومی کردار یکجا ہو کر ملت، معاشرے اور مملکت کے لئے امن، عافیت، خوشحالی اور خوش قسمتی کا باعث بن جاتے ہیں۔
بصورت دیگر تینوں میں کچھ فرق نہیں رہتا۔ مسلمان بحیثیت امت خوش قسمت ہیں کہ انہیں قرآن کریم جیسا نسخہ کیمیأ، رسول پاکﷺ کی سیرت اور شریعت جیسا پاکیزہ نظام، نظریہ اور فکری اثاثہ بغیر کسی محنت کے میسر ہے۔ علمائے حق،اولیائے کاملین نے قرآن، سیرت رسولﷺ اور شریعت و طریقت پر بیش و بہا علمی خزانہ آنے والی نسلوں کے لئے جمع کیا مگر امت کے رہبروں نے ہمفرے، لارنس اور ان جیسے کرداروں کے سامنے سجدہ ریز ہو کر میکاوٴلین اور چانکیائی فکروفلسفے کو اپنایا اور قومی زوال کا باعث بنے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja