Episode 73 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 73 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

آصف علی زرداری اور شریف خاندان کی حب الوطنی بھی مشکوک ہے۔ دونوں خاندانوں نے جی بھر کر ملکی وسائل کو لوٹا اور کھربوں روپے بیرون ملک منتقل کر دیے۔ دونوں خاندانوں نے یہ کام جمہوریت کی آڑ میں کیا اور سول بیوروکریسی کی مدد سے کرپشن کا ایسا جال بُنا جس کا تدارک ممکن ہی نہ رہا۔ وہ ادارے جنہیں عدل، انصاف اور احتساب کے عمل کے لئے بنایا گیا وہ خود کرپٹ اور بددیانت ہو کر ملکی وسائل لوٹنے والے سیاسی مافیا کے معاون و مددگار بن گئے۔
ان حالات کے باوجود عوام مدہوش اور کسی حد تک ذہنی لحاظ سے مفلوج ہیں اور ملک دشمن سیاسی ٹولے کے ہی گن گاتے اور کرپشن کی دھن پر ناچتے وطن فروشوں کی مدح سرائی کرتے ہیں۔ جس خطہ زمین پر بسنے والی قوم بے حس ہو، قیادت بداطوار ہو تو بچے کھچے اور وطن سے محبت کرنے والے بھی بے مراد ہوجاتے ہیں۔

(جاری ہے)


ہم اکثر سنتے اور پڑھتے ہیں کہ پاکستان محمد علی جناح نامی ایک عظیم انسان اور نامور وکیل نے الٰہی حکم اور ارادے سے بنایا۔
آج اسی پاکستان کو لوٹنے ، توڑنے اور قوم کو منتشر کرنے والوں کی معاونت بھی پاکستان کے چوٹی کے وکیل کر رہے ہیں اور عدل کے ایوانوں پر گاندھی اور مودی کے پیروکاروں کا جھنڈا لہرانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ پاکستان صرف دہشت گردی اور سیاسی ابتری کا ہی نہیں بلکہ وکیل گردی کا شکار بھی ہے۔ جلیانوالہ باغ اور ماڈل ٹاوٴن لاہور کے واقعات کا موازنہ کیا جائے تو جنرل ڈاہر ، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ، مشتاق سکھیرا اور نواز شریف میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
جلیا نوالہ باغ کے جلسے میں رکھی کرسی صدارت پر ڈاکٹر سیف الدین کچلو کی تصویر رکھی تھی اور ماڈل ٹاوٴن میں واقع ادارہ منہاج القرآن کے مرکز میں محفل درووپاک منعقدہو رہی تھی جہاں بے گناہ عورتوں کی گود میں قرآن پاک رکھے تھے۔ جنرل ڈاہر اور شہباز شریف میں اس قدر مماثلت تو ہے کہ دونوں کی سپاہ پنجابی جوانوں پر مشتمل تھی مگر شہباز شریف اور دیگر شریفوں کو جنرل ڈاہر کے مقابلے میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ماڈل ٹاوٴن میں کوئی ہندو اور سکھ نہ تھا۔
وہاں صرف عورتیں ، بچے، بوڑھے اور کچھ جوان بھی تھے جو نہ تو کوئی سیاسی جلسہ کر رہے تھے اور نہ ہی شریف آف پنجاب کی خاندانی حکومت کے خلاف کوئی احتجاج کر رہے تھے۔ وہ قرآن پاک کی تلاوت اور نبی آخرالزمان ﷺ پر فرمان ربی ّ کے مطابق درودپاک کا ذکر کر رہے تھے۔ شریف آف پنجاب کے بیٹوں نے محض تفریح طبع کے لئے خون بہایا اور عدل کے ایوانوں سے کسی نے اس منظر کی طرف دیکھنے کی بھی جرأت نہ کی۔
شریف آف پنجاب کے خاندان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ایک درودخواں عورت کے پیٹ پر گولی مار کر اس کی کوکھ میں سوئی بچی کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی شہید کر دیا۔
نواز شریف کی بیٹی مریم نواز آج اس بے حس اور بے مراد قوم کے سامنے اپنے باپ کے عظیم کارناموں کا ذکر کرتی ہے مگر یہ نہیں بتاتی کہ اس کے باپ کا سب سے بڑا اور انوکھا کارنامہ ماڈل ٹاوٴن میں ماں کے پیٹ میں شہید ہونے والی بے نام دختر پاکستان بھی ہے جس کا کوئی اور نام نہ تھا۔
پنجاب کے شریف خاندان کے شریفوں اور کشمیر کے بے رحم حکمران مہر گل میں کئی قدریں مشترک ہیں۔ مہر گل کا تعلق اسی خطہ زمین سے تھا جسے آج کل پنجاب کہتے ہیں۔ اس کے باپ دادا کا پیشہ بھی شریف خاندان کی طرح آہن گری تھا۔ جس طرح شریفوں کو جنرل ضیأالحق اور جنرل جیلانی نے دکان کے تھڑے سے اٹھا کر پنجاب کے تخت پر بٹھایا اسی طرح مالوہ کے بے اولادہن قبیلے سے تعلق رکھنے والے راجہ نے تلواروں پر زہر آلود پان لگانے والے مہر گل ہن کو اپنا سپہ سالار مقرر کر دیا۔
مہر گل نے پہلی فرصت میں راجہ کو خاندان سمیت قتل کیا اور خود تخت و تاج کا مالک بن گیا۔ چھٹی صدی میں مہر گل کی بدعنوانیوں کو دیکھتے ہوئے ھن راجاوٴں نے مہر گل کے خلاف مشترکہ کارروائی کی اور اسے سکالا (موجودہ سیالکوٹ) تک محدود کر دیا۔ہن راجگان کی افواج نے سکالا پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنایا تو درندہ صفت مہرگل کشمیر بھاگ گیا۔ کشمیر کے راجہ نے اسے پناہ دی اور گزارے کے لئے جاگیرعطا کی۔
مہر گل نے حسب عادت راجہ کو خاندان سمیت قتل کیا اور کشمیر کا حکمران بن بیٹھا۔ حکمران بنتے ہی مہر گل نے ظلم و ستم کا ایسا بازار گرم کیا جس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ مہرگل نے مشہور زمانہ شاردہ یونیورسٹی جو بدھ مت کا مرکز تھی کو تباہ کیا اور سارے ملک میں بدھ مت کے پیروکاروں کے قتل عام کا حکم جاری کیا۔ مہر گل نے گندھارا، مگدھ اور مالوہ کے بہت سے علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ 

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja