Episode 74 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 74 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

اس تحریر کے پہلے ابواب میں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ مہرگل کو آج بھی کشمیری تری کوٹہ یعنی تین کروڑ کاقاتل کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مہرگل کے دور میں کشن گنگا سے لے کر آموں دریا تک کوئی انسان بستیوں اور شہروں میں زندہ نہ رہا۔ کابل سے بدخشاں اور ہرات تک بدھ مت کے پیروکاروں کا قتل عام ہوا اور جو بچ گئے جنگلوں اور بیابانوں میں پناہ گزیں ہوئے۔ راج ترنگنی کا مصنف اور عالمی شہرت یافتہ تاریخ دان پنڈت کلہن لکھتا ہے کہ مہر گل انسانیت کا بدترین دشمن تھا۔
وہ بچوں، عورتوں اور عمر رسیدہ لوگوں پر بھی رحم نہ کرتا تھا۔ مہر گل انسانی روپ میں ایسا درندہ تھا جس پر جس قدر لعن طعن کی جائے کم ہے۔ مہر گل بھی میاں برادران کی طرح تفریح طبع کے ایسے اہتمام کرتا جن کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

(جاری ہے)

ماڈل ٹاوٴن لاہور کی طرح کسی مہم سے واپسی پر پیر پنجال کے پہاڑوں سے ایک ہاتھی پھسل کر ہزاروں گز گہری کھائی میں جاگرا۔

گرتے ہوئے ہاتھی کی چیخیں مہرگل کو اس قدر بھائیں کہ وہ اسی مقام پر رک گیا۔ بادشاہ نے تفریح طبع کے لئے سو ہاتھی یکے بعد دیگرے گرانے کا حکم دیا اور مرتے ہوئے ہاتھیوں کی چنگاڑیں سن کر خوش ہوتا اور شراب پیتارہا۔ پیرپنجال میں واقع اس مقام کا نام ہستی و نج ہے۔
سنا ہے کہ ماڈل ٹاوٴن میں جس وقت پولیس زندہ انسانوں پر گولیاں برسا رہی تھی اور عورتیں کلمہ طیبہ اور درودپاک کا ذکر کرتے ہوئے شہید اور زخمی ہو رہی تھیں تو حکمران شریف خاندان کے دونوں شہزادے اپنے مشیروں کے ہمراہ ٹیلی ویژن پر یہ منظر دیکھ کر مرتے اور زخموں سے چور ہو کر گرتے ہوئے بے گناہ لوگوں کی چیخ و پکار سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
پتہ نہیں شاہی خاندان کی بیگمات اس وقت کہاں تھیں۔ اگرتھیں تو ان کے دل اس قتل عام پر رنجیدہ کیوں نہ ہوئے اور کسی شہزادی مریم، ملکہ کلثوم اور عورتوں کے حقوق کے علمبردار تہمینہ درانی نے اس پر کوئی نوحہ کیوں نہ لکھا۔ کسی اکرم شیخ، عاصمہ جیلانی، سلمان اکرم راجہ، خواجہ حارث، بیرسٹر ظفراللہ اورشاہی خاندان کے قانونی مشیروں اور قومی خزانے سے اربوں روپے فیسوں کی مدد میں لینے والے قانون دانوں کے ضمیر نے انہیں کیوں نہ جھنجھوڑا۔
کیا یہ سب مہرگل کے ساتھی نہیں؟ ہاتھیوں اور انسانوں میں کچھ تو فرق ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کسی عرفان صدیقی، حاجی نواز، اسد اللہ غالب، مجیب الرحمن شامی، حبیب اکرم، نصرت جاوید، طلعت حسین، حامد میر، جاوید چوہدری اور شریف خاندان کے لنگر پر پلنے والے کالم نگاروں، صحافیوں اور قلمکاروں نے خون ناحق بہانے پر شریف شہزادوں کے خلاف ایک حرف تک نہ لکھا۔
مہرگل اور میاں برادران میں کئی قدریں مشترک ہیں۔ وہ سکالا سے کشمیر گیا اور اپنے محسن کشمیری حکمران کا خون بہا کر خود باشاہ بن گیا۔ مہرگل کا آبائی پیشہ آہن گری تھا وہ بادشاہ کی قربت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور پھر ریاست کا راجہ بن گیا۔ مہرگل کو دولت کے انبار لگانے کا شوق تھا۔ وہ جہاں جاتا لوٹ مارکرتا اور پھر قتل عام کا حکم دیتا۔
وہ سوائے اپنے خاندان کے چند لوگوں کے کسی پر بھروسہ نہ کرتا۔ اسے اپنی رعایا سے کوئی ہمدردی نہ تھی اور نہ ہی وہ کسی پر رحم کرتا تھا۔ مہرگل نے اپنی سلطنت سے علم و عدل کے محکمے ختم کردیے۔ وہ علم اور عدل پر یقین ہی نہ رکھتا تھا۔ کشن دور میں قائم ہونے والے تعلیمی مراکز جلادیے گئے اور گوند اوّل کے دور سے قائم عدل و انصاف کے تمام ادارے تباہ اور عدل وانصاف کے محکموں میں تعینات عالموں اور پنڈتوں کو تہہ تیغ کر دیا ۔
مہر گل کا فرمان تھا کہ عدل بادشاہ کی تلوار اور سلطنت کا نظام بادشاہ کی خواہش کا نام ہے۔ مہرگل ناقابل تسخیر ہوگیا تو قدرت کا ہاتھ حرکت میں آگیا۔ جیسا کہ ابتدأ میں عرض کیا ہے کہ فرشتے اور انسان الٰہی نظام کے کارندے ہیں جو حکم ربی ّ کے تحت کام کرتے ہیں۔یوں تو ہر نبی اور رسول دنیا کا نظام چلانے، بگاڑ مٹانے اور اصلاح انسانیت کا مشن لے کر آیا جنہیں فرشتوں کے ذریعے خدا کا پیغام دیا گیا اور معجزات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
جنگ بدر اورحنین کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے کہ جب اصحاب رسولﷺ پر سخت لمحہ آیا تو فرشتوں نے اللہ کے حکم سے مدد کی اور میدان سنبھال لیا۔ فرمان الٰہی ہے کہ اے نبیﷺ جو مٹی آپﷺ نے کفار کی طرف پھینکی تھی وہ آپ ﷺنے نہیں بلکہ ہم نے پھینکی تھی۔ اس امر کی مزید وضاحت میں فرمایا کہ میرا نبی ﷺکوئی کام میرے حکم اور ارادے کے بغیر نہیں کرتا۔
زمانہ کوئی بھی ہو خالق اپنی مخلوق سے بے خبر نہیں رہتا۔ انسانوں پر سختیاں اور ظلم ان کے اعمال کے نتیجے میں ہوتے ہیں۔ انسانی بے حسی ہی بے مرادی کا سبب بنتی ہے اور ظلم و بربریت کا میدان سج جاتا ہے۔ ان حالات کے باوجود الٰہی قوتیں حرکت پذیر ہوتی ہیں اور سٹیج پر سجاسین یکسر بدل جاتا ہے۔ مہرگل ناقابل تسخیر تھا۔
عدل اس کی تلوار اور نظام سلطنت اس کی خواہش کا نام تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک درویش سرینگر کی حدود میں داخل ہوا تو مہر گل نے زہرآلود خنجر اپنے سینے میں گھونپ ڈالا اور اپنے ہی ہاتھوں مارا گیا۔
میاں خاندان کے متعلق عابدہ حسین نے اپنی کتاب پاور فیلئر میں لکھا ہے کہ یہ لوگ اپنا کام نکالتے وقت کس قدر عاجزی و انکساری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کام بن جانے پر اپنے محسنوں کی گردن دبوچ لیتے ہیں۔
میاں شریف کے لوہار خانے سے جہاں وہ ٹیوب ویل بناتے تھے سے لے کر وزیراعظم ہاوٴس تک کی کہانی بیگم عابدہ حسین نے بڑے مدلل اور معنی خیز انداز میں بیان کی ہے۔ عابدہ حسین نے کراچی کی دہشت گردی کی عدالت کا وہ سین بھی لکھا جب میاں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی ہتھکڑیاں پہنے پیش ہوئے۔ عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ دونوں کے چہروں پر مایوسی اور محرومی دیکھ کر میرے آنسو نکل آئے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کسی طرح مجھے بچاوٴ۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja