Episode 77 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 77 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

آج وہ مسلمان ملک جنہوں نے امت کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کیا خود مسائل کا شکار ہو کر دنیا سے امن کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ عرب بہار ابلتے ہوئے آتش فشاں میں بدل چکی ہے جس کی تپش اب سمندر پار یورپ تک محسوس ہو رہی ہے۔ بھارت کشمیر میں ظلم و بربریت کا ہر ہتھیار آزما رہا ہے مگر جموں اور پونچھ خاموش ہیں۔ پاکستان کو کشمیر سے زیادہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی فکر ہے اور ہر پاکستانی حکومت مسئلہ کشمیر کو بھارت کی خواہش کے مطابق حل کرنے کی کوشش میں ہے۔
آزادکشمیر میں غنڈہ راج قائم ہے اور پاکستانی سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے مجرم ذہن کرپٹ عناصر کے ہاتھوں آزادکشمیر کے عوام کا استحصال کرتی ہیں۔ آزاد حکومت محض ایک تھا نہ اور پٹوار خانہ ہے۔ صدر ریاست کی تھانیدار سے اور وزیر اعظم کی پٹواری سے بھی کم حیثیت ہے۔

(جاری ہے)

عبوری آئین نمائشی اور حکومتی نظام پاکستانی سیاسی جماعتوں کی خواہش کا نام ہے۔

علم و آگاہی کا یہ عالم ہے کہ سوائے چند بوڑھے لوگوں کے نئی اور درمیانی نسل کو چوہدری غلام عباس ، اے آر ساغر اور خورشید حسن خورشید کے ناموں کا ہی پتہ نہیں۔ غازی ملت اور مجاہد اوّل طویل عرصہ تک آزادکشمیر کے حکمران رہے مگر کوئی ایسا ورثہ چھوڑ کر نہ گئے کہ انہیں یاد رکھا جائے۔ سردار ابراہیم خان شرافت کی سیاست کے قائل تھے مگر عوام کو قابل قبول نہ تھے۔
اگر وہ غازی ملت نہ بنتے اور سدھن قبیلہ انہیں تحریک آزادی کا واحد لیڈر بنا کر پیش نہ کرتا تو شاید کوئی توشہ چھوڑ جاتے۔ جنگ آزادی کشمیر اور مسلم کانفرنس کی تقسیم کے حوالے سے وہ کوئی جواز پیش نہ کر سکے۔ شیخ عبداللہ اور چوہدری غلام عباس کے درمیان جو ہوا اس کا تو جواز تھا۔ جس طرح شیخ عبداللہ کی یلغار کے سامنے میرواعظ نے ہتھیار ڈال کر سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی ویسے ہی سردار محمد ابراہیم خان کے سیاسی گروپ سے الجھنے کے بجائے چوہدری غلام عباس نے مسلم کانفرنس کی سیاسی لگامیں سردار عبدالقیوم کے ہاتھوں تھما دیں۔
بعد کے دور میں سردار عبدالقیوم نے بھی چوہدری غلام عباس اور تحریک آزادی کشمیر کے اوّلین مجاہدوں، غازیوں اور سیاسی کارکنوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو معرکہ نیلابٹ کی دھول میں دفنا کر مجاہد اوّل اور نیلابٹ کو ہی تحریک آزادی کشمیر کا مرکز اور منبع بنا کر خودپرستی کی نئی بنیاد رکھ دی۔
نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس کی طرح آزاد مسلم کانفرنس اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ایک عرصہ تک آزاد کشمیر کے سیاسی محاذ پر نبردآزما رہیں جنہیں مختصر عرصہ کے لئے لبریشن لیگ کا سامنا کرنا پڑا تو دونوں سرداروں نے خاموش مصالحت کرلی۔
لبریشن لیگ کے بانی جناب کے ایچ خورشید قائداعظم کے معتمد ساتھی اور پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ آپ کی سیاسی تربیت قائداعظم اور مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کے ہاتھوں ہوئی۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد آپ کا مستقل قیام مادر ملت کی قیام گاہ پر ہی رہا۔ مادرملت نے اپنی اولاد کی طرح جناب کے ایچ خورشید کی شادی اور اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کیئے۔
نصیحت کی کہ وہ آزادکشمیر کی سیاست میں حصہ نہ لیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کی خواہش تھی کہ وہ کچھ عرصہ کراچی میں وکالت کریں اور مسلم لیگ کا حصہ بن کر قائداعظم کے مشن کو آگے بڑھائیں۔
آزادکشمیر کا سیاسی ماحول جس کی بنیاد ہی برادری ازم، قبائلی نفرت، جھوٹی انا پرستی، خود غرضی اور لوٹ کھسوٹ پر استوار ہوئی شرافت اور اصول پرستی کی سیاست کے لئے ابتدأ ہی سے موزوں نہ تھا۔
جن مصائب اور پریشانیوں کا چوہدری غلام عباس کو سامنا کرنا پڑا وہی سیاسی بت کے ایچ خورشید کے راستے میں کھڑے ہوگئے جنہیں پاکستانی سیاستدانوں، بیورکریسی، پریس اور اہل علم و دانش کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔
پہلے بھی بیان ہوا کہ چوہدری غلام عباس ہی تحریک آزادی کشمیر کے محرک تھے۔ آپ نے فقیری اور غریبی کو اپنایا اور عوام نے آپ کو اٹھارہ سال کی عمر میں لیڈر مان لیا۔
آپ کے اولین ساتھیوں میں صرف اے آر ساغر آخر تک آپ کے ساتھ رہے اور اہل کشمیر کے حقوق کی جنگ لڑتے رہے۔ 1922ء سے 1938ء تک جو لوگ آپ کے قافلے میں شامل ہوتے رہے ان میں شیخ عبداللہ ، میرواعظ اور ان کے ساتھی شامل تھے مگر وقت اور حالات کے تلاطم میں سب بہہ گئے۔ غازی ملت اور مجاہد اوّل کاتب کوئی نام و نشان نہ تھااور نہ ہی جناب کے ایچ خورشید نے سرداروں کی طرح کسی انقلاب کا دعویٰ کیا ہے۔
نیلابٹ اور انقلاب پونچھ کو تحریک آزادی کا پلیٹ فارم بنانے والے بھول جاتے ہیں کہ اس دور میں پونچھ کے مسلمان چوہدری غلام عباس کی قیادت میں ہی جدوجہد آزادی کی تحریک میں شامل تھے۔ یہ وہ دور تھا جب برادری ازم کی لعنت میرپور اور ملحقہ علاقوں تک ہی محدود تھی۔
چوہدری غلام عباس لکھتے ہیں کہ پونچھ کے مسلمانوں کا جذبہ حب الوطنی دیکھ کر میں نے تین بار پونچھ کا دورہ کرنے کی کوشش کی مگر ہر بار مجھے حکومت نے روک دیا۔
تیسری بار میں نے اوڑی کے راستے پونچھ میں داخلے کی کوشش کی مگر درہ حاجی پیر پہنچتے ہی مجھے گرفتار کرکے واپس بارہ مولہ بھجوا دیا گیا۔ پونچھ سے جو وفد میرے استقبال کے لے آیا تھا میں نے اس سے ملاقات کی اور اہلیان پونچھ کے لئے محبت، اخوت، اتحاد اور صبر کا پیغام دیا۔ میں نے لکھا کہ جس طرح آپ میری عزت کرتے ہیں ویسے ہی میں آپ کی عزت کرتا ہوں اور ہر لمحہ آپ میرے دل میں رہتے ہیں۔
اگر آپ کی صفوں میں اتحاد رہا اورصبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا تو آزادی اور عزت ہمارا مقدر ہوگی۔
دکھ کی بات ہے کہ دیگر امت مسلمہ کی طرح اہلیانِ پونچھ نے بھی برادری ازم کا چوغہ پہن لیا۔ قبیلے اور برادریاں ایک دوسرے کی دشمن بن گئیں اور رہی سہی کسر مسلک اور چانکیائی سیاست نے نکال دی۔ آزادی کا بیس کیمپ کرپشن، لوٹ مار اور بدعہدی وبدکرداری کا اڈہ بن گیا۔
تحریک آزادی کاروباری سیاست میں بدل گئی اور بدکردار اور بداطوار لوگ سیاستدان اور حکمران بن گئے۔ بے حسی قومی کردار بن گیا تو بے مرادی قوم کی تقدیر بن گئی۔ دیکھا جائے تو صرف کشمیری ہی نہیں بلکہ ساری امت مسلمہ بے حسی کا شکار ہے۔ بظاہر اس بیماری کا کوئی حل نظر نہیں آرہااور نہ ہی کوئی رہبرورہنما میدان عمل میں ہے مگر الٰہی قوتیں وقت کی منتظر ہیں۔
اگر قائداعظم کی کوششوں سے محض چھ سال کے محدود عرصہ میں پاکستان بن سکتا ہے تو کچھ بعید نہیں کہ چھ ماہ میں کشمیر اور پاکستان کو کرپٹ اور بدکردار لوگوں سے پاک کردیا جائے اور چھ ہفتوں میں کشمیر بھی آزاد ہوجائے۔ وہ جس نے زمین اور آسمان بنائے۔ جو کچھ زمین اور آسمانوں کے درمیان اور زمین کی تہہ میں ہے اُسی کا پیدا کیا ہوا ہے۔ وہ جو دلوں کے حال جانتا ہے ہمارے حال سے ناواقف نہیں۔ جب انسان بھٹک جائے تو وہی سیدھی راہ دکھلاتا ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja