Episode 90 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 90 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

جواہر لال نہرو ترقی پسندانہ اشترا کی خیالات کے حامل تھے تو سبھاش سائنس و ٹیکنالوجی کو ترقی اور خوشحالی کا زینہ سمجھتے تھے۔ دونوں نوجوان، باہمت اور جوشیلے تھے۔جواہر لال نے سبھاش سے مل کر انڈی پنڈنس لیگ قائم کی اور کانگرس کے اندر ہی دائیں بازوں کا مضبوط ونگ تیار کر لیا۔ گاندھی کی سیاست ہل، بیل، چرخے اور کھڈی کے گرد گھومتے اچانک رک گئی۔
اس موقع پر انگریزی سرکار نے طاقت، سیاست اور سازش کے زور پر گاندھی کی بھرپور مدد کی اور دونوں کو الگ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ سبھاش کی کانگرس سے علیحدگی بھی گاندھی جی کی آمرانہ سوچ اور سیاست کے لئے سود مند ثابت نہ ہوئی۔ انگریز سرکار کو جلد ہی سمجھ آگئی کہ گاندھی نہرو اتحاد کی بیل منڈے چڑھنے والی نہیں اور نہ ہی دونوں کے درمیان ہم آہنگی محمد علی جناح جیسے مدبر سیاستدان کا مقابلہ کرسکتی ہے۔

(جاری ہے)

انگریزی سرکار کے لئے کانگرس کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اصل مسئلہ پاکستان اور محمد علی جناح تھے۔
سبھاش چندر بوس کی علیحدگی کے بعد انگریز سرکار نے نہرو، پٹیل جوڑی کا از خود اہتمام کیا۔ نہرو اور پٹیل دونوں ہی انگلشیہ سرکار کے تربیت یافتہ سیاسی فنکار اور پسندیدہ کھلاڑی تھے۔ حکومت نے نہرو اور پٹیل کو کانگرس کی سیاست پر توجہ دینے کے لئے آزاد کردیا اور جناح اور پاکستان کا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
نہرو پٹیل جوڑی تمامتر اختیارات کی مالک اور فیصلہ ساز قیادت تھی۔ وہ کبھی کبھی احتراماً یا پھر رسماً گاندھی سے بھی مشاورت کرتے جس کی باقاعدہ تشہیر بھی ہوتی۔
موجمدار لکھتے ہیں کہ گاندھی جی کو احساس ہوگیا تھا ان کی سیاست کا سورج غروب ہوچکا تھا۔ ایک موقع پر گاندھی جی نے انتہائی مایوسی کے عالم میں کہا کہ ہر چیز کا ایک سلطان یعنی سردار ہوتا ہے۔
اب میرے مقابلے میں بہت سے سلطان منظر پر آگئے ہیں۔ اگر میں آج بھی اپنے آپ کو سلطان تصور کروں تو میری حیثیت سب سے کمتر ہے۔
لارڈماوٴنٹ بیٹن کی آمد پر گاندھی کا فلسفہ، نظریہ اور سیاست اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ 14جون 1947ء کو آل انڈیا کانگرس کمیٹی کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے سردار پٹیل نے گاندھی جی کے فلسفہ عدم تشدد اور اہنساکو ہمیشہ ہمیشہ کے لے دفنانے کا اعلان کیا۔
اپنی تقریر میں پٹیل نے گاندھی کی سوچ اور فکر کو دقیانوسی، خود فریبی اور بے وزن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سوچ و فکر کے ساتھ نہ کوئی ریاست اور نہ ہی کوئی قوم اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔ ہم آزادی کی منزل کے قریب ہیں ہمیں صنعتیں قائم کرنی ہیں،نئے علوم اور ہنر سیکھنے ہیں۔ ہمیں ادارے بنانے ہیں اور ریاست کے دفاع کے لئے ایک مضبوط اور جدید فوج تیار کرنی ہے۔
نہرو سردار پٹیل کے خیالات کا نہ صرف حامی تھا بلکہ اس سے بڑھ کر جدید رجحانات اور اصلاحات کا مبلغ بھی تھا۔ تلاش ہند میں نہرو نے لکھا ہے کہ ہندو کوئی مذہب نہیں بلکہ توہمات اور رسومات کا مجموعہ ہے۔ ہندو ازم نہ تو عقیدہ ہے اور نہ ہی دین اور تہذیب۔ اسے ہم ثقافت کا درجہ بھی نہیں دے سکتے چونکہ ہندوستان مختلف ثقافتوں کا مرکز ہے۔
اگر ہم یہ کہیں کہ ہندوستان کے سبھی باسی ہندو ہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔ ہمیں مذہب کے جھمیلوں سے نجات حاصل کرنا ہے اور جدید علوم کو اپنانا ہے۔ ہندو کے وسیع تر معنوں سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہند کی زمین پر بسنے والے سبھی لوگ ہندو یا ہندوستانی ہیں چاہے ان کا مذہب، عقیدہ یا رسومات الگ الگ ہی کیوں نہ ہوں۔ برطانیہ کا ہر باشندہ برٹش اور امریکہ کا امریکن ہے۔
کوئی اپنے مذہب اور عقیدے کا نام نہیں لیتا۔ ہر شہری کو امریکن اور برٹش ہونے پر فخر ہے۔ موجمدار اور دوسرے تحریر نگاروں نے گاندھی جناح موازنے میں ہمیشہ قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت، کرادر، عملیت، صبرواستقلال، دور اندیشی اور اعلیٰ ظرفی کو سراہا اور کسی بھی لحاظ سے گاندھی کو محمد علی جناح کا ہم مرتبہ قرار نہ دیا۔ قائداعظم کے فکروفلسفہ میں ہم آہنگی تھی جس کی بنیاد قرآن اور اسلامی تعلیمات پر استوار تھی۔
گاندھی کے دقیانوسی خیالات ان کی زندگی میں ہی مذاق بن گئے جنہیں گاندھی کے پیروکاروں نے نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس کا تمسخر بھی اُڑایا۔ قائداعظم کی زندگی سراپا عمل اور عقلیت و علمیت کا سر چشمہ تھی۔قائد کی زندگی میں ان کا کوئی مخالف ان کی سوچ و عمل، فکر و فلسفہ پر کوئی دلیل پیش نہ کر سکا اور نہ ہی قائداعظم نے ان مخالفین کو کوئی اہمیت دی۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja