Episode 93 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 93 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

اسی طرح معاہدہ کراچی کی رُو سے گلگت و بلتستان کی ایڈمنسٹریشن اور بنیادی سہولیات اور ضروریات کی ذمہ پاکستان نے لیا تاکہ شمالی علاقوں کی جانب سے بھارت یا کوئی دوسرا ملک پاکستان کے شمالی اور شمال مغربی علاقوں میں مداخلت نہ کرسکے۔ یہ معاہدہ حکومت پاکستان اور حکومت آزادکشمیر کے درمیان ہوا مگر حکومت پاکستان نے کبھی بھی اس کا احترام نہ کیا۔
زرداری پہلے ہی مسئلہ کشمیر کو تیس سال تک منجمد کرنے کا اعلان کرچکا ہے تاکہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل کر اپنے غاصبانہ قبضے کو قانونی حیثیت دے سکے۔ اس سلسلے میں بھارت پہلے ہی بہت سرگرم ہے اور عالمی سطح پر اس بات کا پراپیگنڈہ کر رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سوائے چند ہزار لوگوں کے باقی سب بھارت کو اپنا وطن اور کشمیر کو بھارت کا حصہ تصور کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


گلگت و بلتستان کے متعلق آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے کا کیا حشر ہوا کسی بلیک لیبل کرپٹ لیڈر کو اس کا احساس تک نہ ہوا۔ مسلم کانفرنس اور پیپلز پارٹی نے مل کر آزاد کشمیر اسمبلی میں مہاجرین کی نمائندگی اس قدر بڑھا دی ہے کہ اب آزاد کشمیر کے اصل باشندوں کی اپنے ہی ملک کی اسمبلی میں کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی۔
یہی حال سرکاری نوکریوں کا ہے۔ ہر سال مہاجرین مقیم پاکستان کی آبادی میں مصنوعی اضافہ ہو رہا ہے اور اسی حساب سے سرکاری نوکریاں راجہ ظفر الحق، خواجہ سعد رفیق اور فریال تالپور کی سفارش پر تقسیم ہوتی ہیں۔ آزاد کشمیر پبلک سروس کمیشن ایک بھونڈا مذاق اور سیاسی چکمہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا چیئرمین کشمیر کمیٹی تعینات ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حکومت پاکستان اور پاکستانی سیاسی جماعتوں کو آزادی کشمیر اور کشمیری عوام سے کوئی دلچسپی نہیں۔
نواز شریف نے اعلانیہ قائداعظم کے اصولوں کی نفی کی اور نظریہ اسلام اور پاکستان سے بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے عبدالصمد اچکزئی کے نظریے سے منسلک ہونے کا اعلان کیا۔
نواز شریف کا یہ اعلان غداری کے زمرے میں آتا ہے اور اصولاً مسلم لیگ نواز پر پابندی عائد کرنا سپریم کورٹ آف پاکستان کا فرض ہے۔
مگر ایسا تب ہی ہوسکتا ہے جب کسی قوم کا کوئی کردارہو اور وہ کسی نظریے اور اصول پر کاربند کسی حقیقی تہذیبی ورثے کی امین ہو۔ بدقسمتی سے پاکستانی عوام کو سترسالہ محنت کے بعد قائداعظم اور اقبال کے نظریہ خوداری، ملی و قار و عظمت، نظریہ اسلام اور نظریہ پاکستان سے اسلام مخالف قوتوں نے نہ صرف منحرف بلکہ متنفر کر دیا ہے۔
اکابرین دیوبند، جمعیت علمائے اسلام ہند، سرشاہنواز بھٹو، جماعت احمدیہ، سرحدی گاندھی عبدالغفار خان، مولانا مفتی محمود اور عبدالصمد خان اچکزئی نے پاکستان اور کشمیر کے خلاف جو مہم ابتدأ سے شروع کی وہ اب اپنے پورے جوبن پر ہے۔
1940ء میں قرارداد پاکستان منظور ہوتے ہی جن سیاسی اور مذہبی لیڈروں نے اس قرارداد کی مخالفت میں گاندھی، نہرو، پٹیل، مولانا آزد اور سرکار انگلشیہ کی حمایت کی ان کی اولادیں اپنے اجداد کا مشن کرپٹ خود ساختہ سیاسی گھرانے کی مدد سے مکمل کرنے کی قریب ہیں۔
نئے پاکستان کی سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے بات کی اور آج کل زرداری کے بجائے عمران خان نئے پاکستان کی نوید سنا رہے ہیں۔
یہ نیا پاکستان کیسا ہوگا اس کی تشریح نہ بھٹو نے کی اور نہ ہی عمران خان نے کوئی وضاحت کی ہے۔
13اگست 1947ء کے دن لارڈماوٴنٹ بیٹن کراچی آیا اور 14اگست 1947ء کے تاریخی دن اقتدار کی منتقلی کی دستاویز پر دستخط ہوئے۔ 11اگست1947ء کا دن بھی تاریخی اور نئے پاکستان کی بنیاد کا دن تھا۔ پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے فرمایا:۔

The first observation that I would like to make is this: you will no doubt agree with me that the first duty of Government is to maintain law and order, so that life, property and religious beliefs of its subjects are fully protected by the state. The second thing that occurs to me is this: one of the biggest curses from which India is suffering is bribery and corruption. That really is a poison. We must put that down with an Iron hand and I hope that you will take adequate measures as soon as it is possible for the assembly to do so. 
قائداعظم کے پاکستان کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی گئی ان میں سرفہرست قانون کی حکمرانی اور امن عامہ کا قیام تھا تاکہ لوگوں کے جان، مال اور عقائد کی حفاظت ریاست کی اولین ذمہ داری ہو۔
قائداعظم نے رشوت اور کرپشن کو ریاست اور عوام کے لئے زہر قاتل قرار دیا اور آئین ساز اسمبلی کے ممبران پر زور دیا کہ وہ اس لعنت کے چھٹکارے کے لئے اقدامات کریں۔ دیکھا جائے تو قائداعظم کی رحلت کے بعد کسی بھی حکومت کی ترجیح عوام کے جان و مال کی حفاظت، قانون کی حکمرانی، امن و امان کا قیام، رشوت اور کرپشن کا خاتمہ نہ رہی۔ سکندر مرزا سے لے کر دور حاضر تک ہر حکمران کی ترجیح رشوت، کرپشن اور سفارش کے کلچر کا قیام، آئین اور قانون سے انحراف، عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنا اور ملکی وسائل لوٹنا ہی رہا ہے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja