Episode 97 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 97 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

پٹواری نے کہا تمہاری جو مرضی ہے کہو۔ میں نے اپنے سیاسی مرشد اور پٹواری باپ سے پوچھا کہ لوگ مجھے بددعائیں اور گالیاں دیتے ہیں اس کا کیا کروں۔ ابا جی نے کہا غریب کی بددعا میں اثر نہیں ہوتا اور گالیاں مجھے اور تمہاری ماں کو دیتے ہیں تمہیں نہیں۔ یہ لوگ چالیس سال تک مجھے بددعائیں اور گالیاں دیتے رہے اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے۔ تم اپنا کام کرو اور سرکار کو خوش رکھو۔
بیٹا باپ کا جانشین ہوتا ہے اور ملازم سرکار کا غلام ہوتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور عربی میں بیٹے کو بھی غلام کہتے ہیں۔ پٹواری نے کہا۔ میں نے سرکار کے لئے بائیس لاکھ کما لیے اب اتنی ہی رقم اپنے باپ کے لئے کما کر چلا جاوٴنگا تم زیادہ فکر نہ کرو۔
کچھ عرصہ پہلے میرے ضلعے میں ایک رینکر ایس پی تعینات ہوا اور آتے ہی ضلع بھر کے قانون شکنوں، غنڈوں اور ڈاکو صفت سیاسی کارکنوں اور ٹاوٴٹوں نے داروغہ صاحب کی دعوتوں کا اہتمام شروع کر دیا۔

(جاری ہے)

ان دعوتوں میں دوسرے اور تیسرے درجے کے سیاستدان اور مقامی پولیس افسر بھی شامل ہوتے اور عوام کو احتیاط سے کام لینے کا پیغام دیتے۔ داروغہ صاحب کے چھچھورے پن کی انتہا تھی کہ وہ باوردی ان دعوتوں میں شریک ہوتے اور دعوت کے اختتام پر ٹن ہو کر غل غپاڑہ قسم کی تقریر بھی کرتے۔
تعیناتی کے تھوڑے عرصہ بعد درندہ صفت ایس پی نے پولیس کی مدد سے سرکاری زمینوں کے علاوہ مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کروانے کا دھندہ شروع کر دیا۔
ایسی ہی ایک کوشش میں دو مقامی قبیلے جو صدیوں سے اکٹھے رہ رہے تھے اور ایک دوسرے کا احترام و عزت کرتے تھے، باہم الجھ گئے۔ پولیس نے ایک قبیلے کی کھل کر مدد کی اور تصادم کے نتیجے میں تین لوگ قتل اور نو زخمی ہوگئے۔ پولیس نے پہلے سے تیار شدہ ایف آئی آر پر مقتولین کے ورثا سے دستخط لیے اور دوسری جانب کے پچاس سے زیادہ لوگوں کو جیل میں بند کردیا۔
درندہ صف داروغہ نے اس کیس سے ایک کروڑ سے زیادہ کمائے مگر کچھ ہی عرصہ بعد گردوں کی بیماری میں مبتلا ہو کر واصل جہنم ہوا۔ اس حادثے کی منصوبہ بندی پر آزاد کشمیر کی جیالی حکومت کے چند وزرأنے ایس پی کو پروموشن دلوایا تاکہ قبر پر ڈی آئی جی پولیس کا کتبہ نصب ہوسکے۔
ڈی آئی جی کے مرنے کی خبر آزادکشمیر کے ریاستی میڈیا نے قومی فریضہ سمجھ کر شائع کی اور کئی روز تک تعریفی اور توصیفی کالم اور اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کی طرف سے ایک بہادر، دلیر، قانون کے رکھوالے اور عوام کا دکھ درد سمجھنے والے نیک اور پارسا افسر کی شان میں قصیدے لکھے۔
صدر ریاست جنرل انور کو اس عظیم قومی ہیرو کی موت پر سخت صدمہ ہوا۔ صدر محترم نے اپنے پیغام میں نہ صرف ایک قومی ہیرو کی قوم سے جدائی کا اظہار کیا بلکہ ساری ریاستی پولیس کو مرحوم ڈی آئی جی کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کی۔ صدر صاحب کے اس پیغام سے یوں لگتا تھا جیسے فوج میں جانے سے پہلے وہ ڈوگرہ پولیس میں تھانیدار رہ چکے ہوں۔
صدر صاحب اپنے زمانہ صدارت میں پولیس، پٹواری کھیل میں مصروف رہے یا پھر تحریک آزادی کشمیر کا اشتہار بنے بیرون ملک دوروں پر قومی خزانہ لٹاتے رہے۔
جنرل انور فوجی امور کے کتنے ماہر تھے، کچھ کہہ نہیں سکتے۔ چونکہ جرنیل بننے کے لئے علم حرب کا ماہر ہونا ضروری نہیں۔ بقول کرنل اشفاق احمد کے وردی میں بڑے بڑے لوگ چھوٹے عہدوں پر اور چھوٹے چھوٹے لوگ بڑے عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہی حال سیاستدانوں اور حکمرانوں کا ہے۔ چانکیائی اور میکاوٴلین چالیں اور چکمے درندگی اور سفاکی کا علم ہے جس کے عروج سے انسانیت، حقیقت، تہذیب و تمدن اور اخلاقیات کا معیار پست ہوجاتا ہے۔
جنرل انور چانکیائی علوم کی حد تک جیالے اور متوالے تھے۔ آصف علی زرداری، نواز شریف اور دیگر اعلیٰ سطحی قیادت کی حرکات سے یوں لگتا ہے جیسے یہ سب انور اکیڈمی کے طالب علم ہوں۔ چوہدری غلام عباس، کے ایچ خورشید اور سردار ابراہیم خان مرحوم کے بعد جناب سردار عبدالقیوم خان تک شرافت اور سیاست میں کسی حد تک ہم آہنگی رہی۔
عدل و انصاف اور انتظامی امور میں بھی کچھ اعتدال رہا۔ سیاست کو شرافت اور اخلاقیات سے دور کرنے کا آغاز پیپلز پارٹی کی آزادکشمیر میں آمد سے شروع ہوا جسے مجید دور میں عروج حاصل ہوا۔مسلم کانفرنس اور پیپلزپارٹی میں چانکیائی سیاست اور میکاولین فکر اور فلسفے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کا مقابلہ جاری تھا کہ شریفانہ نظریہ سیاست کے پیروکار وں نے آدھا کشمیر ایک بار پھر فتح کر لیا۔
نواز شریف کے حکم پر مجید اوّل اور دوئم کی سیٹیں برقرار رکھنے کا فیصلہ ہوا چونکہ دونوں نے شریفوں کے بیرون ملک اکاوٴنٹ میں اپنی اپنی سیٹوں کا ہدیہ جمع کروایا تھا۔ اسی طرح مریم میڈیا کے فنکاروں نے نودولیتے سیاستدانوں سے منہ مانگی قیمت کے عوض ایم ایل اے کی سیٹیں فروخت کیں اور کشمیر کاز میں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈالا۔ مولانا فضل الرحمن کے والد محترم نے اگرچہ جہاد کشمیر کوفساد اور پاکستان کے وجود کو گناہ قرار دیا تھا مگر مولانا کی کوئی چانکیائی چال چلنے سے پہلے ضروری سمجھا گیا کہ انہیں بھی کشمیر کی حکمرانی میں شامل کیا جائے۔
مولانا کا کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بننا ایسا ہی ہے جیسے غازی چک کو خطرہ تھا کہ پوٹھوار کے گکھڑ بیرونی حملہ آوروں کو کشمیر میں مداخلت کا کوئی جواز پیش کر کے مصیبت کا باعث بن سکتے ہیں۔ غازی چک نے اس خطرے کا بروقت ازالہ کیا اور اپنے بیٹے کی شادی پوٹھوار کے گکھڑ سردار کمال گکھڑ کی بیٹی سے کردی۔ ایسی ہی چال جنرل مشرف نے چلی چونکہ جنرل پرویز مشرف کو سردار سکندر اور سردارعتیق پر بھروسہ نہ تھا۔
جنرل مشرف نے چار نکاتی فارمولا پیش کیا تو سردار سکندر نے مشورہ دیا کہ اگر کشمیر کا سودا ہی کرناہے تو بہتر ہے چناب فارمولے پر کام کیا جائے۔سردار عتیق نے نہ صرف چارنکاتی فارمولے کی حمایت کی بلکہ ملٹری ڈیموکریسی کی اصطلاح بھی پیش کر دی۔ جنرل پرویز مشرف کو پتہ تھا کہ سردار عتیق کی حمایت میں کوئی وزن ہے اور نہ ہی وہ وقت آنے پر ساتھ چل سکتا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ پرویز مشرف نے پہلے ہی جنرل انور جیسے ماٹی کے مادھو کا بندوبست کر رکھا تھا۔ پرویز مشرف کو جنرل انور کی کمزوریوں کا بھی علم تھا جن پر نظر رکھنے کے لئے پرویز مشرف نے محترمہ فردوس عاشق اعوان کو خصوصی ٹاسک دے رکھا تھا۔ سکندر حیات کی حکومت کو ڈانواں ڈول کرنے کے لئے جنرل انور نے اسمبلی میں ہم خیال گروپ بنایا مگر عدم اعتماد کروانے میں ناکام رہا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja