Episode 99 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 99 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

مولانا کوثر نیازی "دیدہ ور" میں لکھتے ہیں کہ ایک دور وہ تھا جب بھٹو اور عوام ایک ہی جسم کے دو نام تھے۔ بھٹو کی نبض عوام کے دلوں میں دھڑکتی تھی اور بھٹو کا ہاتھ عوام کی نبض پر تھا۔ پھر وقت پلٹا اور نوکر شاہی نے بھٹو کو عوام سے دور کردیا۔ ایک دور تھا جب بھٹو ایوب خان کے دس سالہ جشن اقتدار کا مذاق اڑاتے تھے اور پھر وہ دن بھی آگیا جب راوٴ رشید جیسے صلاح کاروں نے بھٹو کو اپنی ذاتی تشہیر اور اداروں کی کارکردگی کاڈھنڈورا پیٹنے کے لئے سرکاری افسروں پر مشتمل کمیٹی بنانے پر مجبور کر دیا۔

کوثر نیازی مرحوم اپنی دوسری تصنیف "اور لائن کٹ گئی" میں لکھتے ہیں کہ بھٹو جیسا ذہین شخص جس نے ایک نئی سیاسی جماعت بنائی اور جس کی ذاتی مقبولیت نے ملک کے کروڑوں ووٹروں کے دل جیتے کی ذاتی تشہیر اور پانچ سالہ حکومتی کارکردگی کے لئے کمیٹی قائم کی گئی۔

(جاری ہے)

یہ ترکیب کسی انتہائی غیر سیاسی ذہن کی پیداوار تھی۔ ہم لوگ وزیراعظم کی ذاتی مقبولیت کو پارٹی کا سرمایہ سمجھتے تھے اور مشیران کرام ان کی پروجیکشن کے لئے کمیٹی بنا رہے تھے

مولانا کوثر نیازی نے جس جمہوریت اور جمہوری رویوں اور اصولوں کی بات کی وہ بھٹو کی اقتدار میںآ مد اور پاکستان کی حد تک مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کے بعد ہی زوال پذیر ہوچکے تھے۔
یہ بات اٹل ہے کہ قائد یا لیڈر پبلسٹی اور پروجیکشن کا محتاج نہیں ہوتا اور نہ ہی جنرل انور اور آزادکشمیر کے نام نہاد بچہ جمہورا سیاستدانوں کی طرح کسی سرکاری افسر یا حاکم کی طرف سے مسلط کردہ تنخواہ دار ملازم ہوتا ہے۔ قائداعظم اردو سمیت کوئی بھی ہندی زبان روانی سے نہ بول سکتے تھے مگر باوجود اس کے وہ عوام کے دلوں میں اور عوام ان کے دل میں رہتے تھے۔
قائداعظم کو ہر اس خطہ زمین کا بخوبی علم تھا جہاں مسلمان بستے تھے۔انہیں ہر بستی، گاوٴں اور علاقے کے باسیوں کی تکالیف اور پریشانیوں کا علم تھا۔
تحریک احرار والوں کا اصول تھا کہ وہ کسی میزبان پر بوجھ نہ بنتے تھے۔ اگر میزبان کچھ کھلا پلا دے تو وہ اس کی قیمت ٹیبل پر رکھ آتے تھے۔ ایک دفعہ علامہ عنایت اللہ مشرقی قائداعظم  سے ملاقات کے لئے گئے تو انہیں شربت کا گلاس پیش کیا گیا۔
اٹھنے سے پہلے علامہ مشرقی نے جیب سے پانچ پیسے نکال کر گلاس کے نیچے رکھ دیے۔ قائداعظم نے پوچھا کہ یہ کیسا تکلف ہے؟ علامہ کہنے لگے یہ ہماری جماعت کا اصول ہے ۔ ہم میزبان پر بوجھ نہیں بنتے۔ قائداعظم  مسکرائے اور پانچ پیسے اٹھا کر علامہ کی جیب میں ڈالتے ہوئے فرمایا کہ مجھے حیرت ہے کہ آپ جیسا حساب دان نہیں جانتا کہ بازار میں شربت کے گلاس کی قیمت پانچ نہیں بلکہ آٹھ پیسے ہے۔
قائداعظم کے ڈرائیور اور مشہور فلم ایکٹر آزاد نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ قائداعظم جیسا باخبر شخص میں نے نہیں دیکھا۔ قائداعظم ہر روز صبح ناشتے کے بعد مجھے ایک سو روپیہ گھر کے اخراجات کے لئے دیتے۔ محترمہ فاطمہ جناح گزرے دن کے خرچے کا حساب پوچھتی تو قائد مسکرا کر کہتے فاطمہ چھوڑو جانے دو بچوں (ملازموں) کے ذاتی اخراجات بھی تو ہوتے ہیں۔
آزاد لکھتے ہیں کہ قائداعظم کے گھر کے اندر بھی طے شدہ اوقات تھے۔ رات کے کھانے کے بعد وہ اپنے مطالعہ کے کمرے میں چلے جاتے اور پھر کچھ دیر بعد سونے کے کمرے میں جاتے اور صبح تک باہر نہ آتے۔ ایک دن میں رات دیر سے گھر لوٹا تو دیکھتا ہوں کہ قائداعظم دروازے پر کھڑے ہیں۔ مجھے لے کر اندر گئے اور پوچھا لڑکی کس خاندان کی ہے۔
میں نے بتایا کہ وہ سیّد گھرانے سے ہے اور میں شیخ ہوں۔ شاید اس کے والدین رشتہ منظور نہ کریں۔ قائد نے فرمایا جا کر سوجاوٴ۔ آئندہ وہاں مجھ سے پوچھے بغیر نہ جانا۔ چند روز بعد قائداعظم اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح لڑکی والوں کے گھر گئے اور سیّد گھرانے کی لڑکی کا اپنے بیٹے کے لئے ہاتھ مانگا۔ لڑکی کے باپ نے خوش ہو کر رشتہ قبول کر لیا تو قائد نے اپنی بہو (میری بیوی) کو تحفے پیش کیے اور شادی کی تاریخ طے کردی۔
آزاد لکھتے ہیں کہ ایک بار قائداعظم طلبأ کے ایک وفد سے ملے جن کا تعلق ہندوستان کے مختلف علاقوں سے تھا۔ قائد نے ان سے مصافحہ کیا اور فرداً فرداً ان کے علاقوں کے عوام کا احوال پوچھا۔ ایک طالب علم کا تعلق کشمیر سے تھا جس کے والدین عرصہ سے آگرہ میں مقیم تھے۔ آپ نے طالب علم کو خود کشمیر کے مسلمانوں کی حالت زار کے متعلق بتایا اور پھر نصیحت کی کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے آبائی علاقہ میں جاوٴ۔
ملاقات کے اختتام پر آپ نے طلبأ سے مختصر خطاب میں فرمایا کہ علم کا بنیادی مقصد آگاہی اور خدمت خلق ہے۔محض نوکری کا حصول علم کی وسعت اور عالمگیریت کو محدود کر دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا علم کی کوئی حد نہیں۔ آپ جس قدر عوام سے رابطہ رکھیں گے اور ان کے مسائل پر توجہ دیں گے آپ اسی قدر علم و عقل کے میدان میں آگے بڑھنے کی صلاحیت حاصل کریں گے۔ آپ جو بھی پیشہ اختیار کریں ایمانداری، فرض شناسی اور خدمت خلق کا جذبہ ہی آپ کا نصب العین ہونا چاہیے۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja