Episode 101 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 101 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

یاسمین میر کہتی ہیں کہ محترمہ کے پاس کوئی سرکاری اختیارات نہ تھے مگر ذاتی حیثیت سے وہ عورتوں اور بچوں کی ضروریات کا خیال رکھتیں۔ انہیں خواتین اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا احساس تھا۔ایک ملاقات کے دوران ایک کشمیری خاتون نے کہا کہ میرے چھ بچے ہیں۔ قریبی سرکاری سکول میں صرف دو بچوں کی گنجائش ہے۔ آپ نے پوچھا تمہاری تعلیم کیا ہے اور گھر کتنا بڑا ہے۔
خاتون نے بتایا کہ چار کمروں کا گھر ہے اور میری تعلیم آٹھویں تک ہے۔ مشنری سکول سرینگر میں پڑھ رہی تھی کہ کشمیر پر بھارت نے قبضہ کر لیا۔
آپ نے فوراً کہا کہ کسی بچے کو سکول بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ تمہاری تعلیم کراچی کے بی اے کے برابر ہے۔ ایک کمرہ صاف کرو اور خود بچوں کو پڑھاوٴ اور گھر کے باہر پہلی سے پانچویں تک سکول کا بورڈ لگا دو۔

(جاری ہے)

میں کسی وقت خود تمہارے سکول میں آوٴنگی۔ یاسمین میر کہتی ہیں، محترمہ کی ذاتی دلچسپی اور معاونت سے یہ گھر بڑے سکول میں تبدیل ہوگیا جہاں پڑھنے والے بچے بعد میں بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہوئے۔ محترمہ بنیادی تعلیم کی اہمیت سمجھتی تھیں۔
ولّی کاشمیری کہتے ہیں کہ میرپور کے گاوٴں کسگمہ کے رہنے والے راجہ سرور صاحب(مرحوم) چند دوستوں کے ہمراہ فلیش مین ہوٹل راولپنڈی میں جناب کے ایچ خورشید سے ملنے گئے۔
ملاقات کے دوران جناب کے ایچ خورشید نے بتایا کہ ایک بار مادر ملت نے پوچھا کہ آزادکشمیر کے تعلیمی نصاب میں کشمیر کے متعلق کتنے ابواب ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آزادکشمیر کا اپنا کوئی تعلیمی نصاب ہی نہیں۔ وہاں لاہور بورڈ کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ محترمہ نے کہا یہ تو ویسے ہی ہے جیسے کسی سپاہی کی آنکھ پر پٹی باندھ کر اس کے ہاتھ میں بندوق تھمادی جائے۔
وہ جہاں سے آہٹ سنے گا کولی چلا دے گا۔ چاہے مرنے والا اس کا اپنا باپ یا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ پھر کچھ سوچ کر کہا کہ اگر ایسا ہی تعلیمی ماحول رہا تو چند سالوں بعد لوگ مسئلہ کشمیر کو بھول کر بھارت نواز ہوجائیں گے۔ یہ بھی خطرہ ہے کہ کچھ لوگ پھر سے بھارت کے ساتھ الحاق کی باتیں کرنے لگیں۔
دیکھا جائے تو محترمہ کا خدشہ درست تھا۔
آج ستر سال بعد آزاد کشمیر میں ایک ایسا گروپ سامنے آگیا ہے جو مہا راجہ کشمیر کی برسی مناتا ہے اور اس کی تصویر کے سامنے موم بتیاں جلا کر خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ ایک اور گروپ بھارت کے ساتھ الحاق کا حامی ہے اور سوشل میڈیا پر قائداعظم کی ذات پر رقیق حملے کرتا ہے۔تیسرا گروپ گلگت بلتستان کی آزادی اور بھارت سے الحاق کا خواہاں ہے۔ یہ سارے باغی گروپ نا اہل وزیراعظم نواز شریف کی سیاسی جانشین مریم نواز کے میڈیا سے منسلک ہیں جن کا تعلق آزادکشمیر کے ضلع باغ اور راولاکوٹ سے ہے۔
ایسے لوگوں کا سامنے آنا ایک فطری عمل ہے جس کا اظہار مادر ملت نے ساٹھ سال پہلے کیا تھا۔ آزادکشمیر کو آزادی کا بیس کیمپ کہنے والے سیاسی ٹولے نے مفادات کی سیاست کا بازار گرم کیا اور کوشش کی کہ آنے والی نسلوں کو مسئلہ کشمیر سے علمی، جذباتی اور روحانی لحاظ سے دور رکھا جائے اور انہیں برادریوں میں تقسیم کرکے خاندانی حکمرانی کی بنیاد کو مضبوط کیا جائے۔
قائداعظم نے سچ کہا تھا کہ ہم کشمیر کے معاملے میں نہ صرف صحیح بس کھو بیٹھے بلکہ غلط بس پر سوار ہوگئے ہیں۔ جس غلط بس پر ہم جان بوجھ کر سوار ہوئے وہ اب ستر سال بعد آزادی کی منزل سے ہزاروں میل دور ایک ایسے سفر پر رواں ہے جس کی کوئی منزل ہی نہیں۔ ڈرائیونگ سیٹ پر ایک کے بعد دوسرا ٹن سیاسی ڈیلر آبیٹھتا ہے اور اگلی منزل پر نام نہاد جمہوریت کی آڑ میں بس دوسرے بادہ خوار کے حوالے کر دیتا ہے۔
کسی بھی ملک کی قومی قیادت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ملکی تاریخ پر گہری نظر رکھتی ہو، زمانہ حال کے مسائل حل کرنے کے اوصاف سے مزیّن ہو اور آنے والے متوقع اور غیر متوقع حالات کا سامنا کرنے کی صلاحیتوں سے لیس ہو۔ وہ قومیں جو آزدی کی جنگیں لڑتی ہیں ان کی کامیابی کا دارومدار بھی اعلیٰ سیاسی، عسکری،معاشرتی، معاشی اور سفارتی خوبیوں کے حامل قائدین پر ہوتا ہے۔
چواین لائی، ماوٴزے تنگ، احمد بن بیلا، اتاترک مصطفےٰ کمال پاشا، مارشل ٹیٹو، جوزف مزینی، نلسن منڈیلا اور امام خمینی جیسے قائدین کی مثالیں تاریخ کا حصہ ہیں۔
اہلیان پاکستان اور کشمیر کی بدقسمتی کہ قائداعظم کے بعد اس قوم کو کوئی ایسا رہنما نہ ملا جو ایک منتشر الخیال قوم کو یکجا کرتا اور اسے صحیح معنوں میں قومی سانچے میں ڈھالتا۔
تحریک آزادی کے ایک نامور سپاہی کرنل ایم اے حق مرزا اپنی ڈائری میں عشق کے امتحان کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ کشمیر کی جنگ آزادی 1947-48ء ہماری نظریہ پاکستان کے ساتھ عشق کی حد تک وابستگی کا مظاہرہ تھا۔ 1947ء کا مسلم نوجوان بدون تفریق علاقہ یا گروہ اس جہاد پاک میں شریک ہونا سعادت سمجھتا تھا لیکن کشمیر کے مسلم نوجوان کے لئے یہ ایک عظیم دینی فریضہ تھا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja