Episode 102 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 102 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

آگے چل کر لکھتے ہیں کہ اس عشق میں ہم پر کیا گزری، رسم عشق اسے بیان ہی نہیں کرنے دیتی۔ ہم نے جس مقصد کے لئے ہتھیار اٹھائے تھے جب تکمیل کا مرحلہ قریب آیا اور منزل مقصود سامنے دکھائی دی تو میدان جنگ کا سارا منظر ہی بدل گیا۔ سب سے پہلے حضرت قائداعظم کی رحلت کی خبر نے مجاہدین کے حوصلے پست کر دیے۔ مجاہدین کو یقین تھا کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی سردمُہری اور عدم دلچسپی کے باوجود قائداعظم جیسا عظیم رہنما ہماری مدد کے لئے کوئی کارنامہ سرانجام دے گا اور وسائل کی کمی پوری ہوتے ہی کشمیر پاکستان بن جائے گا مگر تقدیر کا فیصلہ کچھ اور تھا۔
ایک طرف پونچھ کا محاصرہ کرنیوالوں کی ہٹ دھرمی تھی تو دوسری طرف قیادت کا شدید بحران تھا۔
جنگ آزادی کشمیر خالصتاً مقامی تھی جسے کسی بھی جانب سے مدد حاصل نہ تھی۔

(جاری ہے)

بیرونی امداد اگر تھی تو وہ پاکستانی عوام تھے جنہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی اپیل پر چندہ اکٹھا کیا اور اپنے محدود وسائل سے مجاہدین کی مدد کرتے رہے۔

اس امداد پر بھی سول انتظامیہ شب خون مارتی اور اپنا حصہ نکال لیتی۔ جو کچھ آگے جاتا اس کی بھی بندربانٹ ہوتی اور نام نہاد کمانڈر اپنی برادریوں اور قبیلوں کا حصہ لے کر کچھ حصہ میدان جنگ میں لڑنے والوں کو احسان مندی کے طورپر دیتے۔ باوجود اس کے ہم ان کے شکرگزار تھے چونکہ ہمیں ہر اس چیز کی ضرورت تھی جو جسم کو ڈھانپنے اور جسمانی قوت کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری تھی۔
اس تحریک کی ناکامی کی بنیاد متحدہ قیادت کا بحران تھا جسے اسلحہ و سامان اگر مہیا ہو بھی جاتا تب بھی پورا نہیں کیا جاسکتا تھا۔
ہندومسلم نفرت اپنی جگہ مگر مسلمان قبیلوں اور برادریوں کے درمیان چپقلش نے تحریک آزادی کا رخ ہی موڑ دیا۔ غلط فیصلوں کا صلہ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیر ابتدأ میں ہی کئی ہاتھوں میں بٹ گئی اور ہر کسی نے اپنی دانست کے مطابق اسے چلانے اور آزادی کے بعد اپنا مقام بنانے کی قبل از وقت کوشش شروع کر دی۔
وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان کو تحریک آزادی کشمیر سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ پاکستان کی جانب سے جو لوگ سامنے آئے ان میں سردار شوکت حیات، نواب مشتاق احمد گورمانی اور میجر خورشید انور قابل ذکر ہیں۔ لیاقت علی خان، سردار شوکت اور مشتاق گورمانی نے دوران جہاد کبھی کشمیر کی سرزمین پر قدم تک نہ رکھا۔ میجر خورشید انور بارہ مولا پہنچے تو قبائلی لشکریوں کی غنڈہ گردی، لوٹ مار اور آتش زنی کے واقعات دیکھ کر مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔
ابھی ہم ان مسائل کے بھنور میں پھنسے ہوئے تھے کہ حکومت پاکستان نے فائربندی کا حکم دے کر ہمیں مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔ مجاہدین کے فتح کئے ہوئے علاقے خالی کر دیے گئے اور کشمیر کے اندر ہی ایک سرحد قائم کر دی گئی جس پر بھارتی فوجیں قابض ہوگئیں۔
اسی باب میں ایک گھناوٴنی سازش کے عنوان سے لکھا ہے کہ حاصل کردہ محدود آزادی کو ایک بار پھرغلامی میں بدلنے کی سازش نے آزادکشمیر ریگولر فورس پر ایک مشکل دور کا آغاز کر دیا۔
یہ سازش سرخ پوشوں نے جنرل آدم خان کی وساطت سے تیار کی۔ سرحدی گاندھی عبدالغفار خان، عبدالصمد اچکزئی اور مولانا آزادتحریک آزادی سے کچھ ہی عرصہ پہلے غدار شیخ عبداللہ کی دعوت پر کشمیر آئے تو ان کی عزت افزائی کے لئے نیشنل کانفرنسیوں نے دریائی جلوس نکالا۔ کشمیری عوام نے اس غدار ٹولے کی آمد کو ناپسند کیا اور ان پر کچرا پھینک کر نفرت کا اظہار کیا۔
عبدالغفار خان اور اچکزئی نہرو اور عبداللہ کے ہمنوا اور کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کے لئے کوشاں تھے کہ تحریک آزادی جنگ آزادی میں بدل گئی۔ قبائلیوں کی آمد، قیادت کے بحران اور منصوبہ بندی کے فقدان کے باوجود کچھ علاقہ آزاد ہوگیا جس پر عبدالغفار خان، اچکزئی اور دیگر خوش نہ تھے۔ آخری چال چلتے ہوئے اس ٹولے نے سابق (آئی این اے) سے تعلق رکھنے والے جنرل آدم کے ذریعے ایک گھناوٴنی چال چلی۔
آزادی کشمیر ریگولر فورس کے افسروں اور جوانوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ان کے عہدے اور تنخواہیں پاکستان آرمی کے مساوی کی جائیں جو کہ ایک جائز اور درست مطالبہ تھا مگر جنرل آدم نے اسے بغاوت کا نام دے کر جنرل ایوب خان کو جسے کبھی بھی کشمیر سے دلچسپی نہ تھی کو اس بات پر قائل کر لیا کہ آزادکشمیر ریگولر فورس کے افسروں کو بغاوت کے الزام میں فوراً گرفتار کر لیا جائے۔
جنرل آدم نے اپنے اردلی کو جس کا تعلق قبائلی علاقے سے تھا اور جرائم پیشہ ہونے کی وجہ سے قبائلی جرگے نے اسے علاقہ بدر کر رکھا، کو میجر کا رینک دے کر آزاد آرمی میں بھرتی کروا رکھا تھا۔ جنرل آدم کے حکم پر آزادکشمیر ریگولر فورس کے افسروں کی بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا اور مختلف مقامات پر ٹارچرسیل بنا کر فرنٹیئر فورس رجمنٹ کے افسروں اور جوانوں کو میجر خزین شاہ (سابق اردلی جنرل آدم خان) کے ماتحت ان مجاہد افسروں اور جوانوں کی تفتیش پر لگایا۔
تفتیش بس نام تھا، اصل کام ان مجاہدین آزادی پر تشدد کرنا اور بغاوت کا الزام قبول کروانا تھا۔ جنرل آدم نے اپنے اردلی میجر خزین شاہ اور فرنٹیئر فورس کے افسروں اور جوانوں کے ذریعے جو ظلم اور بربریت کی اسے دیکھ کر ڈوگرہ حکمران بھی شاید کانپ اٹھتے۔ اس تشدد کے دوران بہت سے جوان زندگی کی بازی ہار گئے جنہیں بارڈر ایریا میں پھینک دیا جاتا اور الزام لگایا جاتا کہ وہ دوران حراست مقبوضہ کشمیر کی طرف بھاگتے ہوئے مارے گئے ہیں۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja