Episode 103 - Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja

قسط نمبر 103 - کشمیر کا المیہ - اسرار احمد راجہ

جنرل ایوب خان اور جنرل آدم کی اس بربریت کے باوجود کسی افسر اور جوان نے کوئی جُرم قبول نہ کیا۔ بہت سے افسروں کا بعد میں کورٹ مارشل ہوا اور طویل عرصہ تک انہیں پاکستان کی مختلف جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ اس سازش کا اگلا مرحلہ آزادکشمیر ریگولر فورس کو ختم کرنا اور منظم قبائلی لشکروں کو سینرفائر لائن پر تعینات کرنا تھا۔ تیسرے مرحلے میں انڈین آرمی کو لشکریوں پر حملہ کرنے کی دعوت دینا اور پہلے سے تیار کردہ منصوبے کے تحت لشکریوں کو آزادکشمیر سے پہلے کی طرح بھگانا اور سارا آزادکشمیر بھارت کے حوالے کرنا تھا۔

جنرل آدم، سرحدی گاندھی اور اس کے چیلوں کی اس سازش کی کسی طرح جی ایچ کیو میں تعینات کچھ افسروں کو بھنک پڑگئی تو نہ صرف جنرل ایوب خان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ زیرحراست افسروں اور جوانوں کو بھی رہا کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

قانون کا تقاضہ تھا کہ جنرل آدم، میجر خزین شاہ اور فرنٹیئر فورس کے افسروں کا کورٹ مارشل کیا جاتا مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔

فرنٹیئر فورس رجمنٹ کے ایک افسر کرنل مختیار حسین جن کا تعلق صوابی کے گاوٴں کوٹھا سے ہے نے ایک ملاقات پر بتایا کہ انہوں نے اس جرم میں شامل ہونے سے انکار کردیا چونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ سب سازش ہے جس کا سرغنہ جنرل آدم اور اس کا اردلی میجر خزین شاہ ہیں جنہوں نے جنرل ایوب خان کو بیوقوف بنا کر سرحدی گاندھی کے مشن کی تکمیل کا ارادہ کر رکھا تھا۔
کرنل مختیار حسین کے مطابق بعد میں ایک ہلکی پھلکی انکوائری کا حکم جاری ہوا جس کا سربراہ ائیر مارشل اصغر خان کا بھائی بریگیڈیئر اسلم خان مقرر ہوا۔ اسلم خان اور جنرل آدم کے انتہائی قریبی تعلقات تھے جس کی وجہ سے یہ انکوائری خود ہی دم توڑ گئی۔
حیرت کی بات ہے کہ آزادکشمیر کو ایک بار پھر بھارت کے حوالے کرنے والوں پر کسی کشمیری سیاستدان، صحافی اور دانشور نے کبھی ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔
لکھے بھی کون؟ آزاد کشمیر کی سیاست کی طرح صحافت بھی منافقت زدہ ہے۔ صحافی اور دانشور سورج مکھی کے کھیت ہیں جو چمک دیکھ کر رخ بدل لیتے ہیں۔ زرداری،بھٹو، مریم نواز،نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی مدح سرائی سے ہی ان نام نہاد صحافیوں اور دانشوروں کو وقت نہیں ملتا۔ جو اس منافقانہ پیشے سے منسلک ہیں انہیں مجاہد اوّل، غازی ملت کے بعد بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، چوہدری مجید، سردار عتیق، راجہ فاروق حیدر اور ان کے معاون چوہدریوں، راجوں اور سرداروں کی قصہ گوئی سے ہی فرصت نہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ اس درندگی کے بعد کسی آزاد حکومت نے اپنے طورپر کوئی انکوائری نہیں کروائی اور نہ ہی حکومت پاکستان سے سرخ پوش جنرل آدم خان، اردلی میجر خزین شاہ اور اس کے ٹولے میں شامل فرنٹیئر فورس کے افسروں بشمول بریگیڈیئر اسلم کے خلاف اس جرم کی انکوائری اور ان کے غدارانہ فعل پر کورٹ مارشل کا مطالبہ کیا۔
اس سے بھی بڑا جرم آزادکشمیر کے آزاد منش اور ٹن حکمرانوں کا یہ کہ درندہ صفت اردلی میجر خزین شاہ نے آزاد کشمیر رجمنٹ میں بحیثیت میجر نوکری کی میعاد پوری کی اور عزت و احترام سے ریٹائرہو کر ہجیرہ آزاد کشمیر میں سرکاری زمین پر قابض ہوکر رہائش اختیار کر لی۔
جیسا کہ پہلے لکھا ہے کہ خزین شاہ کا تعلق قبائلی علاقہ سے تھا اور جرائم پیشہ ہونے کی وجہ سے قبائلی جرگہ نے اسے علاقہ بدر کر رکھا تھا۔ قبائلی روایات کے مطابق وہ واپس اپنے علاقے میں تو کیا صوبہ سرحد میں بھی نہیں جا سکتا تھا مگر صدحیف آزاد کشمیری حکمرانوں پر جنہوں نے آزادی کے مجاہدوں کی نہ صرف توہین کی بلکہ انہیں درندگی کا نشانہ بنانے والوں کو سینے سے لگا لیا۔
آج ہمارے عوام اور دانشوروں کی حالت یہ ہے کہ وہ غدار مجیب الرحمن کو محب وطن کہنے والے اور عبدالصمد اچکزئی کی پاکستان دشمنی پر مبنی آئیڈیالوجی کو اپنانے کی خواہش کرنے والے نواز شریف اور اس کے خاندان کو نہ صرف اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں بلکہ ان کے بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ جس قوم کی ذہنی کیفیت اس قدر گراوٹ کی شکار ہو وہ جنرل آدم خور اور درندہ صفت خزین شاہ کے شاید نام سے بھی واقف نہ ہوں۔
میجر خزین شاہ عرصہ تک ہجیرہ میں مقیم رہا اور آزادکشمیر حکومت سے اپنی درندگی اور عشاق پاکستان پر تشدّد کا بھرپور معاوضہ وصولتا رہا۔ اس کا ایک بیٹا آزادکشمیر میں تحصیلدار کے عہدے پر پہنچا اور کروڑوں کما کر راولپنڈی اور واہ چھاوٴنی میں عالیشان مکانات، وسیع کاروباراور مارکیٹیں تعمیر کر لیں۔ بعد میں خزین شاہ بھی واہ شفٹ ہوا اور وہیں مرا۔

Chapters / Baab of Kashmir Ka Almiya By Asrar Ahmed Raja