Episode 3 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 3 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

بڑی ماما اور نور جب سے لاہور سے آئی تھیں دونوں کے لبوں پہ ایک ہی نام تھا۔
”علیشا! علیشا ایسی ہے ،علیشا ویسی ہے ،رواحہ کے تو کان پک گئے تھے ،بڑی ماما کے کسی جاننے والے کی شادی تھی لاہور میں اور وہیں ان کی ملاقات ندرت سے ہوئی تھی ،ندرت اور تہمینہ آپس میں کزنز تھیں ،شادی سے پہلے تو میل ملاقات ہوتی رہتی تھی ،لیکن شادی کے بعد الگ الگ شہروں میں رہنے کی وجہ سے کبھی ایک دوسرے سے رابطہ ہی نہیں ہو پایا تھا۔
”ندرت ،تہمینہ اور نور کو شادی کے بعد بڑے اصرار سے اپنے گھر لے آئی تھیں ،وہیں نور اور علیشا کی خوب بن گئی تو انہوں نے بصد اصرار انہیں تقریباً دو ہفتے کیلئے اپنے گھر ہی روک لیا۔
ندرت کی تین اولادیں تھیں ،شیراز ،ہادی اور علیشا ،علیشا سب سے چھوٹی اور گھر بھر کی لاڈلی تھی ،تہمینہ اور نور نے آتے وقت علیشا اور اس کی فیملی کو کراچی آنے کی بھرپور دعوت دی تھی،تب تو نہیں البتہ چند ماہ بعد علیشا کراچی آئی تھی۔

(جاری ہے)

”ارے بابا! اندھا نہیں ہوں میں ،پہچان لوں گا۔“ علیشا کو ایئر پورٹ سے رسیو کرنے چونکہ رواحہ نے جانا تھا اس لئے نور ،علیشا کی تصویر اسے صبح سے ہزار مرتبہ دکھا چکی تھی،وہ آفس کیلئے نکلنے ہی لگا تھا جب نور ایک مرتبہ پھر اس کے پیچھے تصویر لے کے لپکی تو وہ عاجز آکے بولا۔
”پھر بھی رواحہ! میری مانو تو یہ تصویر اپنے پاس رکھ لو کیا پتہ تمہیں علیشا کی شکل بھول جائے اور تم اس کی جگہ کسی اور کو اٹھا لاؤ۔
“ نور ہمیشہ بولنے کے بعد سوچتی تھی۔
”لاحول ولا قوة الا بااللہ! تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے میں کسی کو اغواء کرنے جا رہا ہوں۔“ وہ بھنا کے بولا اور غصے سے تن فن کرتا باہر نکل گیا۔
”آفس بھی اس نے دو تین مرتبہ فون کرکے اسے یاد دلایا تھا ،وہ پورے ٹائم پہ ایئر پورٹ پہنچ گیا تھا اور علیشا کو پہچاننے میں اسے قطعاً دشواری پیش نہیں آئی تھی ،ریڈ گھٹنوں سے اونچی شرٹ ،پرپل چوڑی دار پاجامہ ،ریڈ اور پرپل ٹائی اینڈ ڈائی کا بڑا سا دوپٹہ لاپروائی سے دائیں کندھے پہ ڈالے ،شولڈ کٹ بالوں کو دائیں بائیں جھٹکتی وہ غالباً اس کی تلاش میں ہی نظریں دوڑا رہی تھی ،قریب جاتے ہوئے اس نے اپنا تعارف کروایا تھا۔
”میں رواحہ ہوں نور کا کزن۔“
”میں علیشا ہوں کیسے ہو؟ ویسے دیکھنے میں تو ٹھیک ہی لگ رہے ہو ،پر میرا حال بہت برا ہے جلدی سے نکلو یہاں سے ،میری برابر والی سیٹ پہ ایک اماں بی بیٹھی تھیں ،اللہ معاف کرے سارے راستے اپنی بہو کی چغلیاں لگاتی رہی ہیں ،میرے تو سر میں درد شروع ہو گئی ہے۔“ اس کے ہمراہ چلتے ہوئے وہ تو یوں بول رہی تھی جیسے برسوں کی شناسائی ہو ،رواحہ کو باتونی لڑکیاں بالکل اچھی نہیں لگتی تھیں ،جبھی اسے اچھی خاصی کوفت ہوئی تھی اور پھر یہی نہیں اس نے راستے میں بھی اسے اچھا خاصا زچ کیا تھا۔
”ہائے اللہ! یہاں بھی پانی پوری ملتی ہے ،اتنی مزے کی لگ رہی ہے رواحہ ،ذرا گاڑی تو روکنا۔“ آپ جناب کے مخاطب کی بجائے وہ ڈائریکٹ ”تم“ کا صیغہ ہی استعمال کر رہی تھی ،رواحہ کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگی وہ خاموشی سے ڈرائیونگ کرتا رہا۔
”اچھا… چلو یہ دہی بڑے ہی لا دو۔“ تھوڑا آگے جا کے اس نے پھر فرمائش کر ڈالی ،رواحہ کان لپیٹے ڈرائیونگ کرتا رہا۔
”اگر تمہارے پاس پیسے نہیں تو میں اپنے پیسوں سے لے لیتی ہوں۔“ اسے ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ کر وہ دانت کچکچا کر بولی۔
”فضول کاموں کیلئے میرے پاس ٹائم نہیں ،مجھے واپس آفس بھی جانا ہے ایک ضروری کام چھوڑ کر آ رہا ہوں۔“ اس نے طعنہ ایسا دیا تھا کہ اسے بولنا ہی پڑا ،آخر میں وہ جتاتے ہوئے لہجے میں بولا تھا۔
”تو نہ چھوڑ کر آتے ،میں نے کون سا تمہارے انتظار میں ساری عمر ایئر پورٹ پہ بیٹھے رہنا تھا ،خود ہی چلی جاتی۔
“ اس کا جتاتا لہجہ اسے سلگا ہی تو گیا اور رواحہ کا جی چاہا ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر ایسی بدلحاظ اور منہ پھٹ لڑکی کو گاڑی سے نیچے اتار دے ،بڑی ماما کا لحاظ مانع تھا ورنہ شاید وہ ایسا کر بھی گزرتا۔
”بڑی ماما اور نور بڑے پرتپاک انداز میں اس سے ملی تھیں اس کا موڈ البتہ اتنا آف تھا کہ وہ لنچ کئے بغیر ہی آفس چلا گیا ،رات کے کھانے پر البتہ اس سے پھر ٹکراؤ ہوا تھا ،بڑی ماما ایک ایک ڈش اٹھا کے اس کے سامنے رکھ رہی تھیں ،اسے اتنی اہمیت دیئے جانے پہ رواحہ کو اندر ہی اندر جیلسی ہوئی تھی۔
”رواحہ! تم کیا سلاد ہی ٹوٹگے جا رہے ہو ،یہ اپنے پسندیدہ کریلے گوشت لو ناں۔“ اس کی ناز برداریوں کے درمیان بالاخر بڑی ماما کو اس کا خیال آ ہی گیا تھا۔
”رہنے دیں آنٹی! جن کا مزاج پہلے ہی کریلے جیسا ہو انہیں مزید کڑوا کسیلا ہونے کی ضرورت نہیں۔“ علیشا تو اس کے روکھے پھیکے رویے پہ دوپہر سے ہی بھری بیٹھی تھی ،اس کی بات سن کے تہمینہ اور نور کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھر گئی جبکہ رواحہ کے تو تن بدن میںآ گ لگ گئی ،اس نے خوانخوار نظروں سے اسے گھورا ،جو بڑے مزے سے بریانی کھا رہی تھی ،رواحہ نے کریلے گوشت کی ڈش کو ہاتھ سے پرے کیا اور دوبارہ سلاد کھانے لگا۔
”ہونہہ… ایک تو کریلا اوپر سے نیم چڑھا۔“ وہ ناک سکوڑ کے بولی۔
”یہ ٹرائفل لو ناں ،بڑا میٹھا ہوتا ہے ،جلے بھنے مزاج والے لوگوں کیلئے بڑی اکسیر دوا ہے ،ٹیسٹ تو کرکے دیکھو ،آزمائش شرط ہے۔“ اس کے غصے کی قطعاً پرواہ کئے بغیر وہ بڑی اپنائیت و یگانگت سے نازک سا ٹرائفل والا باؤل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی ،بے اختیار رواحہ کا جی چاہا یہ باؤل اسی کے سر پہ دے مارے۔
”تم بھی نہ علیشا!“ نور بے ساختہ ہنس پڑی۔
”رواحہ میٹھا نہیں کھاتا ،اسے بالکل پسند نہیں۔“
”اوہ! اب میں سمجھی ،اس میں بیچارے رواحہ کا کوئی قصور نہیں ،شوگر کی کمی کی وجہ سے مزاج ویسے ہی ڈاؤن رہتا ہے۔“ نور کے وضاحت کرنے پر وہ جیسے بڑی سمجھداری سے سر ہلا کے بولی جبکہ ”بیچارے رواحہ“ کے الفاظ اسے اچھا خاصا سلگا گئے تھے۔
”دوسروں کے مزاج کو جانچنے اور پرکھنے کی بجائے تم اپنے کام سے کام رکھو تو زیادہ بہتر ہے۔“ وہ الفاظ چبا چبا کے بولا ،جب وہ منہ پھٹ اور بدتمیز لڑکیوں کی طرح اس پر کمنٹ پاس کر رہی تھی ،تو وہ بھی اس کے مہمان ہونے کا کیونکر لحاظ رکھتا۔
”اوہ… تو تم بول بھی لیتے ہو ،ویری گڈ خوب گزرے گی۔“ وہ گویا اس کی بات سے حظ اٹھا رہی تھی ،نور کیلئے مسکراہٹ ضبط کرنا مشکل ہو رہا تھا ،اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ علیشا کو مزے دے گئے تھے جبکہ وہ اس کے منہ لگنے کی بجائے دو چار لقمے زہر مار کرکے ہی اٹھ گیا تھا ،بڑی ماما نے اگرچہ اسے کافی روکا تھا مگر اس کا تو سارا موڈ ہی غارت ہو گیا تھا۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum