Episode 4 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 4 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

اس دن کے بعد رواحہ نے پوری کوشش کی تھی کہ علیشا سے کم سے کم سامنا ہو اور اپنی اس کوشش میں وہ خاصا کامیاب بھی رہا تھا ،آج چونکہ سنڈے تھا اور چھٹی تھی ،بڑے پاپا بھی گھر میں ہی موجود تھے سنڈے والے دن وہ چاروں بیٹھ کے خوب گپ شپ لگایا کرتے تھے ،وہ لاؤنج میں آیا تو بڑے پاپا ،ماما اور نور کے ساتھ ساتھ علیشا بھی وہیں موجود تھی اور حسب عادت خاص چہک رہی تھی ،بڑے پاپا اس کی باتوں پہ محفوظ ہوتے قہقہے لگا رہے تھے ،اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا ،جی تو چاہا یہیں سے واپس پلٹ جائے مگر بڑے پاپا نہ صرف اسے دیکھ چکے تھے بلکہ انہوں نے آواز بھی دے ڈالی تھی۔

”دیکھیں نہ انکل! میں یہاں سیر و تفریح کرنے آئی ہوئی نہ کہ لوگوں کی سڑی بسی شکلیں دیکھنے کیلئے اور ابھی تک میں نے کراچی کا ایک پکنک سپاٹ بھی نہیں دیکھا۔

(جاری ہے)

“ وہ جونہی صوفے پہ قاسم انکل کے برابر آکے بیٹھا علیشا کی رکی شرارت بھڑک اٹھی ”سڑی بسی شکلیں“ سے اس کی مراد کون تھا اور کوئی سمجھے یا نہ سمجھے رواحہ بخوبی سمجھ گیا تھا، اس لئے جلبلا کے پہلو بدلا تھا۔

”بھئی یہ تو بہت بڑی زیادتی ہے ہماری بیٹی کے ساتھ ،چلو بھئی ایسا کرتے ہیں کہ آج ہی پروگرام بنا لیتے ہیں ،اسی بہانے ہماری بھی آؤٹنگ ہوجائے گی ،کیا خیال ہے تہمینہ؟“ آخر میں انہوں نے بیوی سے رائے لی۔
”بہت اچھا ہے میں تو خود سوچ رہی تھی کہ رواحہ سے کہوں کسی دن چھٹی کرکے علیشا کو گھمانے پھرانے ہی لے جاتے۔“ تہمینہ نے فوراً تائید کی اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی ان کی گاڑی کلفٹن کی طرف رواں دواں تھی۔
”تم شروع سے ہی ایسے ہو یا صرف میرے ساتھ ہی ایسا برتاؤ کرتے ہو۔“ ساحل کی ٹھنڈی نرم ریت پر چلتے ہوئے وہ کب اس کے ہم قدم ہوئی اسے خود خبر نہیں ہوئی۔
”کیا مطلب… کیسا ہوں میں؟ کیا میرے سر پہ سینگ اگے ہوئے ہیں؟“ وہ تنک کر بولا۔
”اگر پاگلوں کے سر پہ سینگ ہوتے تو آئی بلیو کہ تمہارے سر پہ بالوں سے زیادہ سینگ ہوتے۔“ وہ مسکراتی ہوئی اسے زہر سے بھی زیادہ بری لگی۔
”میرے سر پہ سینگ ہوں یا بال ،تمہیں اس سے مطلب۔“ وہ سخت لہجے میں گویا ہوا۔
”مطلب نکلنے اور نکالنے میں کون سا دیر لگتی ہے۔“ چپ رہنا تو اس نے بھی نہیں سیکھا تھا۔
”شٹ اپ ،مجھے فضول میں فری ہونے والی لڑکیاں بالکل اچھی نہیں لگتیں۔“ وہ دہاڑا ،اس کی دہاڑ پر سہمنے کی بجائے وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
”اور مجھے فضول میں جلنے کڑھنے والے لوگ بالکل اچھے نہیں لگتے۔
“ ادھار رکھنے کی تو وہ بھی قائل نہ تھی۔
”تمہیں کیا اچھا لگتا ہے ،کیا برا لگتا ہے مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔“ تند خو لہجے میں کہتا وہ اس سے آگے بڑھ گیا۔
”بالکل… اسی طرح مجھے بھی اس سے کوئی سروکار نہیں کہ تمہیں فضول میں فری ہونے والی لڑکیاں بری لگتی ہیں یا چپ چاپ رہنے والی۔“ وہ ڈھیٹوں کی ملکہ اس کے پیچھے ہی چلی آئی۔
”تم آخر چاہتی کیا ہو؟“ وہ جیسے زچ ہو کے مڑا۔
”تمہیں تو بالکل بھی نہیں۔“ وہ ایک مرتبہ پھر اپنی بات کو خود ہی انجوائے کرتی کھلکھلائی رواحہ کا جی چاہا اسے اٹھا کر پانی میں پٹخ دے ،خود کو کچھ بھی کہنے سے باز رکھتے ہوئے وہ سر جھٹکتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
”بس… اتنی جلد ہی ہار گئے؟“ علیشا نے گویا اس کی خامشی کا بھی مزہ لیا تھا۔
”اسی وقت نور اسے آوازیں دینے لگی تو وہ ایک مسکراتی نگاہ اس پہ ڈال کر نور کی طرف بڑھ گئی ،رواحہ نے بلا اٹل جانے پہ خدا کا شکر ادا کیا تھا۔
###
”بیٹا! تم ایسا کرو کہ گھر چلے جاؤ تمہاری ماما کا فون آیا ہے نور اور علیشا نے کچھ شاپنگ وغیرہ کرنی ہے۔“ رواحہ جو قاسم کے آفس کسی کام سے آیا تھا ان کی بات پہ بدک کے انہیں دیکھنے لگا۔
”لیکن بڑے پاپا! ابھی تو آفس میں بہت کام ہے ،میں ڈرائیور کو بھیج دیتا ہوں ،ساجد بخوبی یہاں کے ہر بازار سے واقف ہے۔“ علیشا کا تو نام سنتے ہی اس کے سر میں درد ہونے لگتا تھا۔
”بیٹا! تمہاری ماما نے بطور خاص تمہارا نام لیا ہے اور ابھی آنے کی تاکید ہے لہٰذا تم جاؤ میں شکیل سے کہہ دیتا ہوں چند ایک ضروی کام وہ نمٹا دے گا باقی تم صبح آکے دیکھ لینا۔“ انکار کی تو اب گنجائش ہی نہیں رہی تھی طوعاً کرھاً اسے اٹھنا ہی پڑا۔
لاؤنج میں قدم رکھتے ہی اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا ،اس کی پسندیدہ کتابوں کا ڈھیر بڑی بے ترتیبی سے سینٹرل ٹیبل پر لڑھک رہا تھا ،کوئی کتاب الٹی دھری تھی تو کوئی سیدھی ،کسی کے بیج کو بری طرح فولڈ کیا گیا تھا تو کسی کے ٹائٹل کا حشر نشر ہوا تھا ،اسے اپنی کتابیں اپنی قدر عزیز تھیں کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو چھونے تک نہیں دیتا تھا اور محترمہ علیشا بڑی شان سے صوفے پہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے مطالعے میں مصروف تھیں۔
”کس کی اجازت سے تم نے یہ کتابیں لی ہیں؟“ وہ اس کے سر پہ کھڑا پوچھ رہا تھا ،علیشا نے چونک کے سر اٹھایا اور اس کے غصیلے چہرے پہ ایک نظر ڈال کے مسکرائی۔
”اس میں اجازت والی کون سی بات ہے میں نے کون سا ان کتابوں کو ساتھ لے جانا ہے ،پڑھ کے واپس کر دوں گی۔وہ اپنے ازلی پرواہ انداز میں بولی۔
”پڑھنے کیلئے بھی مالک کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
”میرے سے یہ چونچلے نہیں ہوتے ،جب پڑھ لوں گی تو As it is واپس رکھ آؤں گی۔“ ہاتھ میں پکڑی کتاب کو بند کرکے میز پہ رکھتے ہوئے وہ بھنویں اچکا کے بولی جبکہ اس کے As it isکے الفاظ پہ رواحہ خاصا تلملایا تھا۔
”انہیں چونچلے نہیں ایٹی کیٹس اور مینرز کہتے ہیں۔“ وہ الفاظ چبا چبا کے بولا۔
”یہ سب فضولیات غیروں میں ہوتی ہیں اپنوں میں نہیں۔
“ اس نے ایک مرتبہ پھر ناک پر سے مکھی اڑائی۔
”تم سے تو بحث کرنا ہی فضول ہے۔“ وہ غصے سے سر جھٹکتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
اور پھر باقی رہی سہی کسر اس نے شاپنگ میں پوری کر ڈالی ،اسے اتنا تھکایا اور اتنا زچ کیا کہ کئی بار رواحہ کا جی چاہا کاش وہ کوئی منتر پڑھ کر اسے یہیں کہیں کسی اسٹیچو میں تبدیل کر سکتا۔
”یہ آخری شاپ ہے جو بھی لینا ہے یہیں سے لے لو ورنہ میں واپس جا رہا ہوں بعد میں خود ہی کسی ٹیکسی سے آتی رہنا۔
“ بالاخر اس کا ضبط جواب دے ہی گیا تھا ،اس کی دھمکی کا علیشا پر تو مطلق اثر نہ ہوا تھا البتہ نور ضرور متاثر ہو گئی تھی اور پھر شاید نور نے ہی اس کی منت سماجت کی تھی جو وہ کچھ خریدنے پہ آمادہ ہو ہی گئی تھی۔
جب نہیں خریدا تھا تو کچھ بھی نہیں خریدا تھا اور جب خریدنے پہ آئی تو پھر خریدتی ہی چلی گئی ،اس کے یوں دھڑا دھڑا شاپنگ کرنے پر رواحہ کو اچھی خاصی کوفت ہوئی تھی۔
”کیا بات ہے؟ پریشان ہو گئے ہو؟“ اس کے کوفت زدہ انداز کو بھانپتے ہوئے وہ اس کے قریب چلی آئی۔
”میں کیوں پریشان ہونے لگا ،تم لے لو اگر مزید کچھ لینا ہے تو۔“ خلاف توقع وہ بڑے تحمل سے بولا تھا۔
”نہیں مجھے تو اور کچھ نہیں لینا مگر میں سوچ رہی تھی اگر تمہاری بیوی فضول خرچ نکلی تو تم کیا کرو گے۔“ اس کی بات پہ رواحہ نے شرر بار نگاہوں سے گھورا تھا۔
”میری بیوی فضول خرچ ہو یا قناعت پسند تمہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔“ علیشا کا وار کامیاب ہوگیا تھا وہ حسب عادت تڑخ کے بولا تھا۔
”بڑے پوزیسو لگتے ہو اس معاملے میں ،ویسے کہیں کوئی پسند تو نہیں کر رکھی؟“ وہ یوں راز دارانہ لہجے میں پوچھ رہی تھی جیسے ان کے درمیان بڑی دوستی ہو۔
”فکر نہ کرو ،تم تو ہرگز نہیں ہو۔
“ اس کا انداز سراسر تمسخرانہ تھا ،اب کی دفعہ سلگنے کی باری علیشا کی تھی۔
”تم جیسا سڑیل انسان مجھے پسند کر بھی نہیں سکتا ،ویسے فار یو کائنڈ انفارمیشن آئم آل ریڈی انگیجڈ۔“ بڑے کروفر سے کہتی وہ تن فن کرتی اس کے سامنے سے ہٹی تھی اور رواحہ کو اپنے سر سے بوجھ ہٹتا ہوا محسوس ہوا ،ورنہ جس طرح بڑی ماما اور نور اس کے واری صدقے جاتی تھیں رواحہ کو خدشہ تھا کہیں یہ عذاب مستقل ہی اس کے سر نہ تھوپ دیا جائے۔
رواحہ کا خیال تھا اب وہ اس کے منہ نہیں لگے گی مگر یہ اس کی خام خیالی ہی نکلی وہ پہلے کی طرح اب بھی اسے ستانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی اور پھر شاید رواحہ کی دعائیں رنگ لے ہی آئی تھیں ،جو چند دن بعد ہی ہادی جو کہ علیشا کا بڑا بھائی تھا اسے لینے آ گیا ،ہادی سلجھی ہوئی شخصیت کا مالک تھا ،رواحہ کو یقین نہیں آتا تھا کہ علیشا جیسی اوٹ پٹانگ لڑکی اس کی بہن ہے البتہ ایک بات اس نے بطور خاص نوٹ کی تھی کہ دونوں بہن بھائی کی محبت دیدنی تھی ،ان کے سب سے بڑے بھائی شیراز کی شادی تھی ہادی اسی لئے اسے لینے آیا تھا۔
”آنٹی! اب رواحہ کی بھی شادی کر دیں ،اکیلا انسان یونہی سٹھیا جاتا ہے۔“ جاتے جاتے بھی وہ اس پہ چوٹ کرنا نہیں بھولی تھی۔
”میں اکیلا نہیں ہوں اپنی فیملی کے ساتھ ہوں۔“ وہ لفظ فیملی پہ زور دے کر بولا۔
”دیکھ لیں آنٹی! اسے فیملی بنانے کا کتنا شوق ہے۔“ وہ الفاظ کو اپنے مطلب کے معانی پہناتے ہوئے ہنسی تھی ،تہمینہ تبھی مسکرا دیں ،البتہ رواحہ کے اعصاب تن گئے۔
”تمہیں تو میں کبھی بھول ہی نہیں سکتی رواحہ احمد! کیونکہ تمہیں میں نے بہت زیادہ تنگ کیا ہے ،بہت ستایا ہے۔“ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے جی بھر کے محفوظ ہوتے ہوئے وہ بڑے مزے سے گویا ہوئی۔
”لیکن میں تمہیں بالکل بھی یاد رکھنا نہیں چاہتا۔“ وہ تپ کے بولا تو وہ زور سے ہنس پڑی۔
”یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کون کس کو یاد رکھتا ہے۔
“ وہ آخری الوداعی نظر اس پہ ڈال کر ہادی کی طرف بڑھ گئی جو تہمینہ سے الوداعی کلمات کہہ رہا تھا۔
”کتنا سونا سونا سا لگ رہا ہے گھر ،علیشا کے بغیر ،بڑی ہی زندہ دل بچی ہے ،اگر اس کی بچپن سے ہی منگنی نہ ہوئی ہوتی تو میں ندرت سے اسے اپنے رواحہ کیلئے ہی مانگ لیتی۔“ تہمینہ ان کے جانے کے بعد بڑی حسرت سے گویا ہوئیں اور اس کے منگنی شدہ ہونے پر رواحہ نے بے ساختہ ہی خدا کا شکر ادا کیا تھا جس نے اسے بہت بڑے عذاب سے بچا لیا تھا۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum