Episode 7 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 7 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

آفس نہایت شاندار تھا وہ رواحہ کے ساتھ ہی آفس میں داخل ہوئی تھی جس پہ کئی سوالیہ اور متعجب نظروں نے آخر تک ان کا پیچھا کیا تھا ،رواحہ خود اگر وقت کا پابند تھے تو اس کا سٹاف بھی اس بات کا خوب خیال رکھتا تھا کیونکہ جس وقت وہ اس کے ہمراہ اندر داخل ہوئی تو ہر ممبر اپنی چیئر سنبھالے کام میں مگن نظر آیا ،سوائے ایک ٹیبل کے جو خالی پڑی تھی اور سامنے دھرا کمپیوٹر بھی آف تھا۔

”شاید یہی مس ثمن کی سیٹ تھی جواب مجھے ملنے والی ہے۔“ اس نے دل میں قیاس لگایا۔
کئی لڑکے لڑکیوں نے اسے سلام کیا تھا جس کا شائستگی و متانت سے جواب دیتے ہوئے وہ اپنے آفس کی طرف بڑھ گیا تھا۔
”بیٹھے۔“ اندر داخل ہو کر اس نے اپنی ٹیبل کے سامنے والی چیئر پہ اشارہ کرتے ہوئے کہا اور خود بھی اپنی سیٹ سنبھال لی۔

(جاری ہے)

بغیر کچھ کہے وہ خاموشی سے چیئر گھسیٹ کے بیٹھ گئی ،جھکی ہوئی نگاہیں اپنے ہاتھوں پہ مرکوز کئے وہ اردگرد سے قطعی بے نیاز اس کے سامنے بیٹھی تھی ،وائٹ اور بلیک امتزاج کا بڑا سا اسکارف اچھی طریقے سے لپیٹے ،بڑا سا دوپٹہ سلیقے سے کندھوں پہ پھیلائے اس کی شخصیت سنجیدہ اور کم گو ہونے کے ساتھ ساتھ قدرے سوگواریت کی عکاسی بھی کر رہی تھی،چھوٹی سی ستوان ناک شدید سردی کے باعث سرخ ہو رہی تھی لب یوں باہم ایک دوسرے میں پیوست تھے گویا صدیوں تک وا ہونے کا ارادہ نہ رکھتے ہوں۔
”ثاقب صاحب!آپ ذرا اندر آیئے۔“ انٹر کام اٹھاتے ہوئے اس نے کہا اور اگلے ہی چند لمحوں کے بعد اس کے دروازے پہ دستک ہو رہی تھی۔
”یس کم آن۔“ وہ دراز سے کوئی فائل نکال رہا تھا۔
”آؤ ثاقب بیٹھو۔“
”تھینک یو سر!“وہ علیشا کے برابر والی چیئر گھسیٹ کے بیٹھ گیا۔
”ثاقب! یہ مس علیشا فرحان ہیں آپ کی نئی کمپیوٹر ٹراسسٹنٹ اور مس علیشا یہ ثاقب سبحانی ہیں ہمارے کمپیوٹر ڈائریکٹر ،آج سے یہ آپ کو اسسٹ کریں گے۔
“ اس نے خالص پروفیشنل انداز میں دونوں کا ایک دوسرے سے تعارف کروایا تھا۔
”ثاقب نے نہایت شائستہ لہجے میں اسے سلام کیا تھا ،ذرا کی ذرا پلکیں اٹھائے ہوئے اس نے جواب دیا تھا اور دوبارہ سے نگاہیں جھکا لی تھیں۔
”اگرچہ مس علیشا آج سے مس ثمن کی سیٹ سنبھال رہی ہیں لیکن چونکہ یہ ابھی ناتجربہ کار ہیں اس لئے ثاقب پہلے تو آپ کو انہیں ان کا کام سمجھانا پڑے گا پھر اسے چیک کرنے کے بعد فائنل ٹچ دینا ہوگا ،اس لئے جب تک مس علیشا اپنے ورک میں ایکسپرٹ نہیں ہو جاتیں آپ کا برڈن بڑھ جائے گا ایسے میں آپ چاہیں تو حسن کو اپنا معاون بنا سکتے ہیں میں انہیں بریف کر دوں گا۔
“ وہ ثاقب سے مخاطب تھا۔
”نو پرابلم سر! میں کور کر لوں گا۔“ ثاقب نے کہا۔
”اوکے ویسے مجھے امید ہے کہ مس علیشا جلد تمام کام کو سمجھ لیں گی۔“ اس نے ایک نظر علیشا پہ ڈالتے ہوئے کہا۔
”جی انشاء اللہ۔“ آہستگی سے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے اس نے گویا اسے یقین دہانی کروائی تھی۔
”ٹھیک ہے ثاقب! آپ پھر آج سے ہی اسٹارٹ لے لیں۔
“ اس نے ثاقب سے کہا پھر اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔
”آپ یہاں ایزی ہو کر کام کر سکتی ہیں مس علیشا! اور اگر آپ کو کسی بھی قسم کی کوئی پرابلم ہو کسی آفیسر کسی ورکر سے کوئی شکایت ہو تو آپ بلا جھجک مجھ سے بات کر سکتی ہیں۔“
”جی۔“ اس نے ایک دفعہ پھر سر اثبات میں ہلا کر فقط جی کہنے پر اکتفا کیا تھا۔
”اوکے اب آپ دونوں کام شروع کر سکتے ہیں۔
“ اس نے اپنے سامنے پڑی فائل کھول لی ،گویا ان دونوں کے وہاں سے جانے کا واضح اشارہ تھا۔
”تھینک یو سر! آیئے مس علیشا۔“ وہ کھڑا ہوا تو علیشا بھی ساتھ کھڑی ہو گئی اور اس کے ہمراہ آفس سے نکل آئی۔
”ثاقب نے پہلے سب سے اس کا تعارف کروایا تھا اور پھر وہ خالی سیٹ جو مس ثمن کی تھی اس کے پاس اسے لے آیا ،علیشا کا قیاس ٹھیک نکلا تھا یہی سیٹ اسے ملی تھی۔
”آپ کی کوالیفیکشن کیا ہے تاکہ میں اسی لیول سے کام کا آغاز کر سکوں۔“ اس کی ٹیبل کے دائیں طرف رکھی چیئر پہ بیٹھتے ہوئے اس نے دریافت کیا تھا۔
”بی سی ایس۔“وہ اسی سنجیدگی سے بولی۔
”گڈ ،اٹس مین آپ جلد سیکھ لیں گی ،ویسے آپ کو ٹائپنگ تو آتی ہو گی۔“ وہ بڑے نرم دوستانہ انداز میں پوچھ رہا تھا۔
”جی۔“ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
”اوکے میں آپ کو ٹائپ رائٹر اور ایک لیٹر بھجوا رہا ہوں ،آپ اسے ٹائپ کرکے مجھے دکھائیں۔“ وہ کہتے ہوئے اٹھ گیا۔
”تھوڑی دیر بعد پیون اسے ٹائپ رائٹر اور لیٹر دے گیا تو وہ خاموشی سے اپنے کام میں مگن ہو گئی۔
”ارے… یہ مسن ثمن شادی کے بعد اتنی دبلی پتلی اور خوبصورت کیسے ہو گئیں۔“ اسے بالکل اپنے قریب حیرت میں ڈوبی پُرتجسس آواز سنائی دی تو وہ چونک کر متوجہ ہوئی۔
”سامنے ستائیس اٹھائیس سال کا ایک خوش شکل نوجوان متحیر آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا،علیشا جزبز ہو کے رہ گئی۔
”بیوقوف! یہ مس ثمن نہیں مس علیشا ہیں ،اس فرم کی نئی کمپیوٹر ٹراسٹنٹ۔“ اس کے دائیں طرف والے ٹیبل پہ بیٹھی مس عظمیٰ گیلانی نے ہنستے ہوئے اس کی غلط فہمی کو دور کیا تھا۔
”ہک ہا… میں تو سمجھ رہا تھا کہ شاید شادی کے بعد ہر انسان اتنا ہی خوبصورت ہو جاتا ہے ،تو کیوں نہ میں بھی شادی کروا لوں۔
“ اس نے کف افسوس ملتے ہوئے کہا اور علیشا کے سامنے دھری چیئر پہ ہی بیٹھ گیا ،علیشا کے ماتھے پہ ناگواری کی شکن نمودار ہوئی تھی۔
”میرا نام عمران ہے اور میں اکاؤنٹنٹ منیجر ہوں۔“ اس نے خود ہی اپنا تعارف کروایا تھا۔
”یہ صرف اکاؤنٹنٹ ہے منیجر کا اضافہ اس نے از خود کیا ہے۔“ مس عظمیٰ نے ہنستے ہوئے اس کا بھانڈا پھوڑا تھا ،جواباً اس نے سخت ناراض نظروں سے انہیں دیکھا تھا۔
”آپ کیوں ہر وقت میری ویلیو ڈاؤن کرنے پہ تلی رہتی ہیں۔“ علیشا سر جھٹک کر دوبارہ اپنے کام میں مگن ہو گئی۔
”ہیں… میں یعنی کہ عمران حیدر ،پورے چھ فٹ کا بندہ آپ سے مخاطب ہے اور آپ اپنے کام میں منہمک ہو گئی ہیں۔“ اس کے تنے ہوئے ابرو اور ماتھے پہ ابھرتی شکنوں کی قطعی پرواہ کئے بغیر وہ پھر اس سے مخاطب ہوا۔
”سوری… آئم بزی۔
“ وہ ایک پل کو ہاتھ روک کے متانت سے بولی اور اگلے پل پھر ٹائپنگ کی طرف متوجہ ہو گئی۔
”اچھا جی!“ وہ خاصا مایوس ہو کے اٹھا تھا۔ بڑے بے آبرو ہو کے تیرے کوچے سے ہم نکلے۔
ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے وہ اپنی سیٹ کی طرف بڑھا تو مس عظمیٰ بھی اس کی حالت پہ مسکراتے ہوئے کمپیوٹر آن کرنے لگیں۔
بریک ٹائم میں جب لنچ کا ٹائم ہوا تو پیون نے آکر اس سے پوچھا تھا۔
”بی بی جی! سر پوچھ رہے ہیں کہ آپ کیلئے کھانا بھیجوں۔“
”نہیں شکریہ ،ان سے کہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔“ اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
مس عظمیٰ خود ہی اٹھ کر اس کے پاس آ گئی تھیں ،وہ ایک شادی شدہ ایجڈ خاتون تھیں اور یہاں کام کرتے ہوئے انہیں آٹھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا ،تجربہ کار ہونے کے ناطے وہ سب کو مفید مشوروں سے نوازتی رہتی تھیں ،اسی وجہ سے سارا سٹاف ان کی بہت عزت کرتا تھا ،ان کی نرم طبیعت کے باعث علیشا کو بھی ان سے مل کر اچھا لگا تھا۔
”اتنی پریٹی گرل پہ اتنی سنجیدگی اچھی نہیں لگتی ،تھوڑا ہنسا بولا کرو۔“ وہ ہولے سے اس کا گال تھپتھپا کے بولیں۔
”میرے ہنسنے بولنے نے ہی تو یہ دن دکھلائے ہیں مجھے۔“ اس کا اندر کرلانے لگا تھا ،بریک کے بعد وہ خاموشی سے اپنی سیٹ پہ آن بیٹھی تھی۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum