Episode 10 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 10 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

اسے پہلی سیلری ملی تو سب سے پہلے اس نے ماما کیلئے موبائل سم اور ساتھ میں چند کارڈ بھی خرید لئے ،اب مسئلہ تھا یہ سب چیزیں ماما کو بھیجنے کا ،دل تو اس کا چاہ رہا تھا کہ ایک کارڈیگن اور گرم شال بھی ان کیلئے خرید لے ،لیکن فی الحال یہ چیزیں ان کیلئے مسئلہ کھڑا کر سکتی تھیں لہٰذا وہ چاہتے ہوئے بھی رک گئی۔
”میرا خیال ہے فاطمہ بھابھی کے ایڈریس پہ بھیج دیا جائے۔
“ اس نے دل میں سوچا۔
”لیکن ان کی ساس تو ہر جگہ ڈھنڈورا پیٹ دیں گی اور اس طرح جس کو نہیں بھی پتہ چلنا اسے بھی خبر ہو جائے گی۔“ اس نے خود ہی اپنی سوچ کی تردید کر دی۔
”کیسی ہیں مس علیشا!“ وہ اپنی سوچوں میں مستغرق تھی جب ثاقب سبحانی نے اس کے سامنے والی چیئر سنبھالتے ہوئے سوال کیا۔
”اس کے ہاتھ میں دو تین فائلیں تھیں جو غالباً وہ اسے ہی دینے آیا تھا ،رواحہ سے اس کا واسطہ کم ہی پڑتا تھا ،ثاقب سبحانی ہی اسے گائیڈ کرتا تھا ،رواحہ کے آفس جانے میں وہ خود بھی قصداً احتراز کرتی تھی۔

(جاری ہے)

”فائن۔“ مختصر جواب دیتے ہوئے وہ سر جھٹک کے اپنی سوچوں سے نکلی تھی۔
اس کی گہری براؤن شہد رنگ آنکھوں میں عجیب سی کسک آمیز تڑپ تھی ،گویا درد ان آنکھوں میں ہمیشہ کیلئے ٹھہر گیا ہو ،ثاقب سبحانی کے دل نے اس سے ملتے وقت ہر دفعہ یہ خواہش کی تھی کہ وہ ان آنکھوں کو ہنستا دیکھے ،اگرچہ سوگوار حسن لئے بھی وہ بے حد پرکشش دکھائی دیتی تھی لیکن پھر بھی اس کا دل چاہتا تھا وہ اسے ہنسائے ،بے تحاشہ ہنسائے اور پھر اس کا کھلکھلاتا ہوا چہرے دیکھے۔
لیکن اس کا انداز اس قدر ریزرو ہوتا تھا کہ وہ ہزار کوشش کے باوجود بھی ابھی تک اس سے زائد از ضرورت بات نہیں کر سکا تھا۔
”یہ گیلانی انٹر پرائزر کی فائلز ہیں ،ہماری اور ان کی گزشتہ تمام ڈیلنگز کی تفصیلات ان میں موجود ہیں ہمارا اور ان کا کانٹریکٹ تین سال کا تھا ،آپ نے ان تین سالوں میں ہونے والی ہر ڈیلنگ کے لاس اور پراوفٹ کی مجموعی پرسٹیج نکال کے ایک خاکہ تیار کرنا ہے ،تاکہ نیکسٹ کانٹریکٹ کے بارے میں غور کیا جائے۔
“ وہ تینوں فائلیں اس کے ٹیبل پہ رکھتے ہوئے اسے تفصیل سے آگاہ کر رہا تھا۔
”اور تمام ڈیٹا کو آفس کے پرسنل آفس میں بھی سیو کر دیجئے گا ،آپ ان فائلز کو ایک مرتبہ اسٹڈی کر لیں ،میں فی الحال یہیں ہوں ،لنچ آورز کے بعد میں نہیں ہوں گا اور مزید دو دن بھی میں لیو پر ہوں ،ایکچوئیلی میری پھپھو بیمار ہیں میں لاہور ان کی عیادت کیلئے جا رہا ہوں۔
“ اس نے اسے اپنے آئندہ کے پروگرام سے آگاہ کیا۔
علیشا جو بڑی توجہ سے اس کی ہدایات سن رہی تھی ،اس کے لاہور جانے کے تذکرے پہ چونک گئی ،اسے لگا قدرت نے خود ہی اس کیلئے انتظام کر دیا ہے ،لیکن مسئلہ تو ثاقب سبحانی سے بات کرنے کا تھا ،وہ ضرورتاً ہی اس سے بات کیا کرتی تھی اور پھر پتہ نہیں وہ اس کا کام کربھی سکے گا یا نہ ،کچھ کہنے اور نہ کہنے کی کشمکش کا شکار وہ متذبذب سے بیٹھی تھی۔
”آپ کو کچھ کہنا ہے مس علیشا؟“ وہ شاید خود ہی اس کے چہرے کے تاثرات بھانپ گیا تھا۔
”آپ کی پھپھو لاہور میں کہاں رہتی ہیں؟“ نظریں جھکائے ،فائل کا کونا کریدتے ہوئے اس نے بے حد جھجکتے ہوئے یہ سوال کیا تھا۔
”وہ صدر میں ہوتی ہیں۔“ اس کے سوال نے اسے اچھا خاصا متحیر کر ڈالا تھا ،کیونکہ علیشا نے اس سے کبھی ذاتیات کے متعلق کوئی سوال نہیں کیا تھا ،بلکہ اس سے کیا کسی سے بھی نہیں کیا تھا۔
”اچھا پھر تو دور ہی پڑے جائے گا۔“ وہ مایوس کن لہجے میں خود کلامی کے سے انداز میں بولی۔
”کیا آپ کو لاہور میں کسی سے کوئی کام تھا؟“ اس نے خود ہی اندازہ لگا لیا تھا۔
”نہیں تو۔“ وہ پھر جھک گئی۔
”آپ کو اگر کوئی کام ہے تو آپ بلا جھجک کہہ سکتی ہیں ،مجھے ہرگز کوئی پریشانی نہیں ہو گی بلکہ دلی خوشی محسوس ہو گی۔“ اس نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔
وہ دل میں انتہائی مسرت محسوس کر رہا تھا کہ آج علیشا نے اس سے کام سے ہٹ کر کچھ کہا ہے ،شاید فی الحال وہ خود بھی اپنی اس خوشی کو نہیں سمجھ سکا تھا۔
”ایکچوئیلی لاہور میں میری ماما ہیں مجھے ان کیلئے کچھ بھیجنا ہے ،وہ ماڈل ٹاؤن میں ہوتی ہیں ،اگر آپ کو پرابلم نہ ہو تو…“
”ارے… مس علیشا ،پرابلم کیسی ،آپ تو تکلف برت رہی ہیں ،آپ نے جو کچھ بھیجنا ہے مجھے دے دیں اور ایڈریس بتا دیں ،ماڈل ٹاؤن میں میرا ایک دوست بھی رہتا ہے اسی بہانے اس سے بھی مل لوں گا اور آپ کا کام بھی کر دوں گا۔
“ وہ بڑی خوشدلی سے کہہ رہا تھا ،علیشا کی اپنائیت نے اسے بے انتہا خوشی بخشی تھی۔
”تھینک یو۔“ وہ ممنون لہجے میں بولی ،ایک بہت بڑا بوجھ اس کے سر سے سرک گیا تھا ،موبائل کل سے اس کے بیگ میں تھا ،اس کا ارادہ تھا کہ آج یہ چیزیں کورئیر سروس کے ذریعے بھجوا دے گی۔
”میں لنچ آورز میں آپ کو پیک کر دوں گی اور ایڈریس لکھ دیتی ہوں۔“ اس نے پیڈ کھسکایا اور اس پر فاطمہ بھابھی کا ایڈریس اور فون نمبر لکھا اور پھر کاغذ الگ کرکے اس کی طرف بڑھا دیا۔
”ٹھیک ہے میں انشاء اللہ پہلی فرصت میں آپ کی امانت پہنچا دوں گا اور آپ یہ کارڈ رکھ لیں اس پہ میرا سیل نمبر ہے ضرورت پڑنے پر آپ مجھ سے رابطہ کر سکتی ہیں۔“ اس نے ایک نظر ایڈریس پہ ڈالی اور پھر اپنا کارڈ نکال اس کی طرف بڑھایا ،علیشا نے شکریہ کے ساتھ کارڈ پکڑا۔
ثاقب سبحانی اٹھ کے گیا تو سب سے پہلے اس نے فاطمہ بھابھی کو فون کرکے ثاقب کے آنے کی اطلاع دی اور ساتھ ہی ریکوسٹ بھی کر دی کہ وہ اپنی ساس سے اس بات کو پوشیدہ رکھیں۔
فون رکھنے کے بعد اس نے موبائل کو ڈبے میں پیک کرتے ہوئے ساتھ میں احتیاطاً کچھ رقم بھی رکھ دی ،تاکہ ماما اپنی ضرورت کی کوئی چیز خرید سکیں ،آج وہ اپنے دل کے ایک کونے میں اطمینان محسوس کر رہی تھی کہ کم از کم وہ ماما اور ہادی سے بات تو کر سکے گی۔
###
ہم دشت کے باسی ہیں اے شہر کے لوگو
یہ روح پیاسی ہمیں ورثے میں ملی ہے
دکھ درد سے صدیوں کا تعلق ہے ہمارا
آنکھوں کی اداسی ہمیں ورثے میں ملی ہے
جان دینا روایت ہے قبیلے کی ہماری
یہ سرخ لباسی ہمیں ورثے میں ملی ہے
جو بات بھی کہتے ہیں اتر جاتی ہے دل میں
تاثیر جدا سی ہمیں ورثے میں ملی ہے
جو ہاتھ بھی تھاما ہے سدا ساتھ رہا
احباب شناسی ہمیں ورثے میں ملی ہے
اگلا دن اس کا نہایت بے چینی میں گزرا تھا ،آفس سے واپس گھر جا کر اس نے ثاقب سبحانی کے سیل پر رابطہ کرکے پوچھا تھا اور جب اس نے کہا۔
”جی مس علیشا! میں نے آپ کی امانت آج دوپہر میں ہی پہنچا دی تھی۔“
”تھینک یو سو مچ ،میں آپ کی بہت احسان مند ہوں۔“ اس کا لہجہ تشکر کے احساس سے بھیگ رہا تھا۔
رات کو اس نے مامان کو فون کرکے ہادی کا نمبر لیا تھا ،اپنا سیل تو وہ خرید ہی چکی تھی ،لہٰذا اس نے فوراً ہی ہادل کو کال کر دی۔
”السلام علیکم!“ دوسری طرف سے فون رسیو ہو چکا تھا۔
”علیشا کی آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں ،آج وہ اپنے پیارے بھائی کی آواز اتنے عرصے بعد سن رہی تھی ،جس سے روزانہ لڑے بغیر اس کا کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا ،پتہ نہیں اس کا نازوں پلا بھائی کیسے ان سب کے بغیر وہاں گزارا کر رہا تھا۔
”ہیلو… کون؟“ مسلسل خاموشی پر وہ دوبارہ بولا تھا۔
”ہادی! یہ میں ہوں۔“ وہ آنسوؤں کو بمشکل حلق سے نیچے اتارتے ہوئے نم لہجے میں بولی۔
”علیشا! کیسی ہو تم؟“ اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں ،تم تو وہاں جا کے بھول ہی گئے۔“ شکوہ یوں آپ ہی اس کے لبوں سے پھسل گیا۔
”لو… تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں جنگلی بلی! میں یہاں کون سا کسی گوری میم کے چرنوں میں بیٹھا ہوں ،جو تمہیں بھول جاؤں گا ،بھلا کوئی بھائی بھی کسی بہن کو بھول سکتا ہے۔“ پتہ نہیں وہ واقعی وہاں خوش تھا یا صرف اس کی خاطر لہجے کو بشاش بنا رکھا تھا۔
”یہ اکیسویں صدی ہے ہادی! یہاں بہن بھائی کی ذمہ داری نہیں صرف ایک بوجھ ہے ناقابل برداشت بوجھ۔“ وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے کٹیلے لہجے میں گویا ہوئی۔
”پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں علیشا! خیر چھوڑو ،یہ بتاؤ تم ٹھیک ہو؟ اور گھر میں باقی سب کیسے ہیں؟ رواحہ کیسا ہے؟“ وہ بات بدل گیا۔
جانتا تھا ابھی زخم ہرا ہے بھرا نہیں ،ان ہرے زخموں پہ کھرنڈ جمنے میں کچھ وقت تو لگے گا۔
”سب ٹھیک ہیں ،تمہاری جاب کا کیا ہوا؟“ وہ جان بوجھ کر رواحہ کا ذکر گول کر گئی۔
”ہاں فی الحال تو ٹھیک ہے ،یہاں ایم ڈی سے میری اچھی ہیلو ہائے ہو گئی ہے ،اس نے کافی امید دلائی ہے کہ اگر میری پراگرس اسی طرح رہی تو وہ میری مستقل جاب پہ غور کریں گے۔“ وہ خود بھی کافی پرامید تھا۔
”ویری گڈ ،تم ایک دفعہ سیٹل ہو جاؤ پھر ہم بھی تمہارے پاس آ جائیں گے ،ہمیں نہیں رہنا یہاں۔
“ وہ پرجوش لہجے میں بولی۔
”دیکھو کیا بنتا ہے ،میری تو اللہ سے یہی دعا ہے کہ وہ ہمارے لئے بہتری کا فیصلہ کرے۔“ وہ مبہم سا گویا ہوا۔
”لیکن ہادی! مجھے اس ملک میں نہیں رہنا ،مجھے… مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ہر نگاہ میرا تمسخر اڑا رہی ہے ،ہر ایک کی نظر میں میرے لئے حقارت ہے ،یوں لگتا ہے جیسے… جیسے میری کوئی وقعت ،کوئی حیثیت ،کوئی مقام نہیں ،فضا میں معلق ایک ذرہ بھی اپنا وجود رکھتا ہے لیکن علیشا فرحان نہیں۔
“ وہ اگرچہ اسے اتنی دور پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
”لیکن آخر وہ بھی انسان تھی ،کسی سے اپنا حال دل کہتی ،کس کو اپنی کتھارس کہتی؟
”ایسے نہیں سوچتے علیشا! اللہ پاک ہمارے لئے جو بھی فیصلہ کرتے ہیں وہی ہمارے حق میں بہتر ہوتا ہے ،لیکن ہماری سمجھ میں نہیں آتا ،ہمیشہ اپنے رب سے اچھی امید رکھو ،میں کسی کو بددعا نہیں دے رہا لیکن دوسروں کا دل توڑنے والے ،زندگی برباد کرنے والے خود کبھی خوش نہیں رہ سکتے ،کبھی بھی نہیں ،آج یا کل انہیں احتساب کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔
“ وہ بڑے وثوق سے کہہ رہا تھا ،علیشا کا بلکتا ہوا دل بھی ایک پل کو قرار پا گیا تھا۔
”اچھا چلو اب فون بند کرو ورنہ تمہارا سارا بیلنس اڑ جائے گا ،میں خود اب تم سے رابطہ کر لیا کروں گا۔“ اس کے یاد دلانے پر ہی اسے احساس ہوا تھا کہ وہ اس سے پاکستان نہیں لندن بات کر رہی ہے۔
”اوکے یہ میرا ہی سیل نمبر ہے سیو کر لینا اور اپنا ڈھیر سارا خیال رکھنا ،اللہ حافظ۔“
”اللہ حافظ۔“ ہادی سے بات کرکے اس کا موڈ کافی حد تک بہتر ہو گیا تھا ،پژمردگی اور احساس کمتری میں خاطر خواہ کمی آئی تھی۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum