Episode 12 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 12 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

اگلے دن اپنی چیئر سنبھالتے اس نے جیسے ہی پی سی آن کیا ٹھٹھک کر رک گئی ،اس کے Desktop پر غزل لگی ہوئی تھی۔
تمہاری آنکھیں کہتی ہیں حصار ذات سے نکلو
تمنا میری بن جاؤ شب برباد سے نکلو
کنارہ تھام لو دل بھلا دو ہر گلہ شکوہ
کبھی سچی ہنسی نہیں لب پر آتی یاد سے نکلو
خیال یار اچھا ہے مگر جس نے وفا نہ کی
پلٹ کر پھر صدا نہ دو در فریاد سے نکلو
نہیں کوئی محبت بھی ہجر رت بھی رقابت بھی
تو یہ دھڑکا سا کیا کہئے وہم کی گھات سے نکلو
سخنور ہم سے کہتا سجا لو آنکھ میں کچھ خواب
دھڑکنا دل کو سکھلا دو اماوس رات سے نکلو
نہیں تم کو گوارا اب ہمارا قرب تو کہہ دو
ہمارے کرب کی چھوڑو تم اب گرداب سے نکلو
سر مقتل جو جاتے ہو نہ ہو درماندگی دل کو
زمانہ دیکھ تھم جائے کچھ اس انداز سے نکلو
”یہ کس کی حرکت ہو سکتی ہے؟“ وہ الجھ کر سوچنے لگی۔

(جاری ہے)

”میں تو خود کل اپنا پی سی آف کرکے گئی تھی اور کل تو ویسے بھی سارا سٹاف جلدی چلا گیا تھا صرف میں اور عمران حیدر تھے تو کیا عمران نے…؟“ اس نے قیاس لگایا۔
”کیسی ہیں مس علیشا!“ وہ ابھی انہی سوچوں میں گھری تھی جب ثاقب سبحانی نے اس کی ٹیبل کے قریب آتے ہوئے ہمیشہ والا سوال دہرایا۔
”اللہ کا شکر ہے۔“ وہ ذہن جھٹکتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
”آپ کل ڈنر پہ نہیں آئیں ،ہم سب آپ کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔“ ثاقب سبحانی کے لہجے میں ہلکے سے شکوے کا تاثر تھا۔
اس نے احتیاطاً ہم سب کہا تھا ،ورنہ تو وہ اکیلا ہی بڑی بے چینی سے اس کا منتظر تھا ،کیونکہ آفس ٹائم میں تو زیادہ بات چیت ہوتی ہی نہیں تھی ،کچھ وہ ویسے بھی بولنے میں بہت احتیاط برتتی تھی ،چنانچہ اس کا خیال تھا کہ ڈنر پہ تو وہ اس سے کچھ بات چیت تو کر ہی لے گا
”بس ایسے ہی ،کچھ تھکاوٹ سی ہو گئی تھی۔
“ اسے ثاقب سبحانی سے اس سوال کی توقع نہیں تھی ،پھر بھی وہ بات کو گول کر گئی۔
یہ کچھ جہد مسلسل تھکاوٹ نہیں لازم
انسان کو تھکا دیتا ہے سوچوں کا سفر بھی
عمران حیدر پتہ نہیں کہاں سے آن ٹپکا تھا ،اس کے آخری جملے کانوں میں پڑتے ہی وہ بے ساختہ شعر کہہ اٹھا۔
”کیسے ہیں عمران صاحب آپ!“ چیئر کو ذرا سا گھماتے ہوئے وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
”اوں ہوں ،عمران صاحب نہیں بھائی ،آپ مجھے بھائی کہیں گی تو مجھے زیادہ خوشی ہو گی۔“ وہ بڑے مان بھرے لہجے میں بولا تھا۔
”بھائی بننا کوئی آسان نہیں ہے عمران! پورا ٹرک بھر کے جہیز میں دینا پڑے گا۔“ مس عظمیٰ گیلانی نے بھی مسکراتے ہوئے گفتگو میں حصہ لیا تھا۔
”ہائیں… یہ تو سراسر ظلم ہے۔“ اس نے مسکینیت سے کہتے ہوئے اپنے سر پہ ہاتھ پھیرا۔
”نہیں یار! تم دل چھوٹا نہ کرو ،آج کے دور میں ایسا کچھ نہیں ہوتا ،یہ اکیسویں صدی ہے۔“ ثاقب سبحانی نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی دی تھی۔
”ہائے میرے اللہ! تیرا شکر ہے ورنہ مجھے تو یوں لگ رہا تھا کہ یہ ٹرک میرے دل کے اوپر سے گزر کر ہی رہے گا۔“ اس نے تیز تیز سانس لیتے ہوئے بے ساختہ دونوں ہاتھ اپنے دل کے مقام پہ رکھتے ہوئے یوں تشکر بھرے لہجے میں کہا تھا ،گویا بہت بڑی مصیبت سے جان چھوٹ گئی ہو۔
”توبہ۔“ علیشا اس کے انداز پہ بے ساختہ مسکرا اٹھی۔
وہ ہولے سے سر کو جنبش دیتی مسکراتی ہوئی اس قدر دلکش لگ رہی تھی کہ ثاقب سبحانی مبہوت سا اسے دیکھے گیا ،اس کے ذہن کے پردے پر فی الفور یہ شعر ابھرا تھا۔
کنارہ تھام لو دل کا بھلا دو ہر گلہ شکوہ
کبھی سچی ہنسی ہنس دو پرانی یاد سے نکلو
”ایں تو آپ مسکراتی بھی ہیں۔
“ عمران حیدر نے باقاعدہ دونوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے یوں دیکھا تھا جیسے اسے اپنی بصارت پہ شک گزر رہا ہو۔
”جی!“ اس نے پلکوں کو ذرا سی جبنش دیتے ہوئے کہا ،لبوں پہ ابھی بھی دھیمی سی مسکان تھی۔
ثاقب سبحانی نے کن اکھیوں سے ڈیسک ٹاپ پر دیکھا جہاں غزل کے الفاظ جوں کے توں موجود تھے ،اس کا مطلب تھا کہ وہ اسے پڑھ چکی ہے اب کی دفعہ اس نے سرسری نگاہوں سے اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا ،جو معمول سے ہٹ کر قدرے نارمل تھے ،روزانہ والے سرد و سپاٹ انداز کے بجائے کچھ نرمی تھی ،اس کے دل نے خوشگوار جذبات میں گھر کر ایک بیٹ مس کی تھی۔
”آہم… کم بیک۔“ سرسری نگاہ کب اس کے دلکش چہرے پہ ٹک گئی ،اسے خود احساس نہیں ہوا ،عمران حیدر نے جب اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے معنی خیزی سے گلا کھنکارا تو وہ ایکدم جیسے ہوش کی دنیا میں لوٹ آیا۔
”آں… ہاں… میں ظہور انڈسٹری کی فائل لینے آیا تھا ،مس علیشا سے۔“ اس نے گڑبڑا کر جلدی سے وضاحت کی۔
”لیکن وہ فائل تو ابھی ابھی میں آپ کے ٹیبل پہ دیکھ کے آ رہا ہوں۔
“ عمران حیدر نے اک محفوظ سی مسکراہٹ لبوں پر سجاتے ہوئے اس کے بوکھلائے ہوئے انداز کو نوٹ کیا۔
”اوہ… ہاں… میں بھول گیا… شاید۔“ بے ربط سے لہجے میں کہتا وہ وہاں سے اٹھ گیا۔
”یہ ثاقب صاحب کو کیا ہوا ہے آج۔“ اس کی آنکھوں میں الجھن تیر رہی تھی۔
”ہو جاتا ہے علیشا جی ،یہ ظالم چیز ہی ایسی ہے اچھا بھلا انسان ہوش گنوا بیٹھتا ہے۔
“ عمران حیدر نے اس کی الجھن کو رفع کرنا چاہا تھا۔
”کون سی چیز؟“ اس نے متعجب ہو کر استفسار کیا۔
”آپ نہیں سمجھو گی ابھی۔“ آہستگی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے وہ بھی اٹھ گیا ،وہ بھی بے نیازی سے کندھے جھٹکتے ہوئے اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گئی۔
###
”تم آج ہمارے ساتھ شاپنگ کیلئے جا رہی ہو اور کل بھی ہر حال میں تمہیں فنکشن اٹینڈ کرنا ہے اور بس۔
“ نور نے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے حتمی لہجے میں فیصلہ سنایا تھا۔
”لیکن نور! میں انجان لوگوں میں جا کر کیا کروں گی۔“ وہ ابھی بھی متامل تھی۔
تہمینہ آنٹی کے خاندان میں کسی عزیز کی شادی تھی ،نور تو بڑے جوش و خروش سے اس کیلئے پروگرام بنا رہی تھی اور ساتھ میں اسے بھی گھسیٹ رہی تھی جبکہ وہ انکاری ہو رہی تھی ،کبھی تو وہ ان محافل کو بڑے ذوق و شوق سے اٹینڈ کیا کرتی تھی لیکن اب تو وہ زیادہ بھیڑ بھاڑ سے ویسے ہی بڑی جلد گھبرا جاتی ہے۔
اور اس کی اس خامی کو ہی تو نور دور کرنا چاہتی تھی ،اس نے بھی پکا تہیہ کر لیا تھا وہ جتنا بھی انکار کر لے وہ اس کے انکار پر ہرگز کان نہیں دھرے گی۔
”انجان لوگوں سے ہی تعلقات پیدا کرکے جان پہچان بنائی جاتی ہے۔“ نور نے اس کے لنگڑے عذر کو چٹکیوں میں اڑا دیا تھا۔
”لیکن مجھے نہ تو کسی سے جان پہچان بنانی ہے اور نہ ہی تعلقات استوار کرنے ہیں۔
“ وہ اس کی مسلسل ضد سے عاجز ہو کے بولی تھی۔
”ایک تو تم بحث بہت کرتی ہو علیشا!“ وہ بھی زچ ہو گئی ،لیکن اپنی ضد سے پیچھے نہیں ہٹی تھی۔
”لیکن ساتھ تو میں تمہیں لے کر ہی جاؤں گی۔“
”مائی گاڈ!“ علیشا نے اپنا سر دونوں ہاتھ میں گرا لیا۔
”لڑکیو! جلدی کرو رواحہ آ گیا ہے ،جلدی تیاری کرو ورنہ شور مچا دے گا۔“ تہمینہ آنٹی نے اندر داخل ہوتے ہوئے دونوں کو وارن کیا۔
”جی ماما! ہم تو تیار ہیں۔“ اس کے لفظ ”ہم“ پہ علیشا فقط اسے دیکھ کے رہ گئی اور پھر واقعی س کے ناں ناں کرنے کے باوجود وہ اسے گھسیٹتی ہوئی اپنے ہمراہ کھینچ لائی تھی۔
وہ شادی سے زیادہ شاپنگ سے گھبرا رہی تھی ،وہ جانتی تھی نور نے فنکشن کے نام پر اس کیلئے ڈھیروں الم غلم چیزیں خرید لینی ہیں ،لیکن ہمیشہ کی طرح اس نے اس کی بالکل نہیں سنی تھی۔
”علیشا! یہ دیکھو یہ ڈریس تم پہ بہت سوٹ کرے گا۔“ ٹی پنک اور کاپر کلر کے امتزاج کا نہایت دیدہ زیب اور جدید تراش خراش کا یہ سوٹ اپنی قیمت خود اپنے منہ سے بتا رہا تھا۔
”نہیں نور! میں اتنا ہیوی ڈریس نہیں پہن سکتی۔“ اس نے فوراً سے پیشتر مسترد کر دیا۔
”کیوں نہیں پہن سکتی ،تم شادی پر جا رہی ہو کسی سوگ میں تو نہیں۔“ وہ اس کے انکار کو قطعی اہمیت دیئے بغیر بولی تھی۔
”تو تم اپنے لئے خرید لو ناں ،اتنا ہی پسند آ گیا ہے تو۔“ اس نے اپنے تئیں بڑا اچھا مشورہ دیا تھا۔
”اگر میں تمہارے جتنی خوبصورت ہوتی ناں تو ایک سیکنڈ کی تاخیر کئے بغیر خرید لیتی۔“ وہ صاف گوئی سے بولی تھی۔
وہ رواحہ کے سامنے ہی یوں منہ پھاڑ کے اس پہ کمنٹ پاس کر دے گی اسے اندازہ نہیں تھا۔
”فضول باتیں مت کیا کرو۔
“ وہ سرخ چہرہ لئے دوسری سمت مڑ گئی۔
”فضول بات کب کی ہے تم چاہے رواحہ سے پوچھ لو ،کیوں رواحہ! یہ والا ڈریس علیشا پہ سوٹ کرے گا یا نہیں؟“ وہ رواحہ کو متوجہ کرکے اسے پوچھنے لگی۔
مارے خجالت کے علیشا کا چہرہ مزید سرخ پڑ گیا ،ایسی بے باکی نور نے کبھی اس کے ساتھ کی تو نہیں تھی پتہ نہیں آج وہ کون سا بدلہ چکانے کے موڈ میں تھی۔
”مجھے تو لگتا ہے کہ یہ ڈریس بنا ہی مس علیشا فرحان کیلئے ہے۔
“ رواحہ نے دونوں بازو سینے پہ لپیٹتے ہوئے اس کے چہرے کو اپنی نرم گرم نظروں کی زد پہ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
”ارے! مس علیشا! آپ یہاں۔“ ابھی تو وہ اپنے جملے کا ردعمل بھی اس کے چہرے پہ ڈھنگ سے دیکھ نہیں پایا تھا جب ایک جانی پہچانی پرجوش سی آواز پہ اسے پلٹ کے دیکھنا پڑا۔
سامنے ثاقب سبحانی کھڑا تھا وہ بھی اسے دیکھ چکا تھا اسی لئے پہلے اس کی طرف بڑھا۔
”اسلام علیکم سر! کیسے ہیں آپ؟“ نجانے کیوں رواحہ کو یوں محسوس ہوا تھا کہ علیشا کو دیکھ کر اس کی آنکھوں کی چمک کئی گناہ بڑھ گئی تھی ،رواحہ نے اپنا وہم سمجھ کر اسے جھٹلانا چاہا تھا۔
”سر! یہ میری آپا ہیں اور آپا یہ ہمارے باس سر رواحہ احمد ہیں۔“ وہ اب اپنے ساتھ کھڑی تیس بتیس سالہ خاتون سے اس کا تعارف کروا رہا تھا۔
”اچھا تو آپ علیشا ہیں۔
“ رواحہ سے سلام دعا کے بعد وہ خود ہی علیشا سے مخاطب ہو گئی تھیں اور اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے نہ صرف اسے اپنے ساتھ لگا لیا تھا بلکہ گال کو بھی ہلکا سا پیار کیا تھا ،علیشا بلش ہو کے نظریں جھکا گئی تھی۔
رواحہ کی نظر بے اختیار ثاقب سبحانی کی طرف اٹھی تھی جو بے خود ہو کر علیشا کو دیکھ رہا تھا ،اسے ناگواری کے شدید احساس نے اپنی لپیٹ میں لیا تھا اور کنپٹیاں سلگ اٹھی تھیں۔
”ماشاء اللہ بہت پیاری ہو۔“ وہ سراہتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ کے بولیں۔
”لگتا ہے آپ کا پہلے سے علیشا سے تعارف ہو چکا ہے۔“ نور کی طرف کسی نے توجہ نہ دی تو وہ خود ہی بول پڑی۔
”نہیں بائے فیس تو آج ہی ملاقات ہوئی ہے ویسے پہلے تذکرہ کیا تھا ثاقب نے۔“ وہ بغیر ہچکچاہٹ کے بولی تھیں۔
”یہ نور ہیں میری کزن۔“ علیشا کو ان کی مسلسل نظروں نے کوفت میں مبتلا کر دیا تھا ،وہ ان کی توجہ ہٹانے کو ان کا تعارف نور سے کروانے لگی۔
”نائس ٹو میٹ یو۔“ نور نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
”جلدی کرو نور! مجھے اور بھی کام ہیں۔“ رواحہ اس سارے سلسلے سے اکتا گیا تھا ،اس کا بس چلتا تو جادو کی چھڑی گھما کر علیشا کو ان دونوں بہن بھائی کی نظروں سے غائب کر دیتا۔
اتنا بدھو تو نہیں تھا وہ کہ ثاقب اور اس کی آپا کی نگاہوں کا مفہوم نہ سمجھ سکتا۔
”پھر ملاقات ہو گی آپ سے ،ابھی ہمیں شاپنگ کرنی ہے۔
“ نور کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔
”انشاء اللہ ضرور۔“ وہ پر یقین لہجے میں بولیں۔
رواحہ کا دل مزید مکدر ہو گیا ،اس نے علیشا کے چہرے کو کھوجنا چاہا لیکن وہ ہمیشہ کی طرح سپاٹ تھا ،ثاقب کی آپا سے الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے بھی اس کے چہرے پہ بڑی نارمل سی مسکان تھی ،اسے دل کے ایک کونے میں اطمینان محسوس ہوا تھا۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum