Episode 15 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 15 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

لوگ ملتے جلتے ہیں
ساتھ ساتھ چلتے ہیں
ساتھ ساتھ چلنے میں
رنجشیں تو ہوتی ہیں
رنجشوں میں بھی لیکن
چاہتیں تو ہوتی ہیں
چاہتوں کی بھی ہر پل
اک عجب کہانی ہے
ہونٹ ہنستے رہتے ہیں
آنکھ بھیگ جاتی ہے
بھیگی ان نگاہوں میں
خواب جلتے بجھتے ہیں
درد کے سفر میں کچھ
موڑ ایسے آتے ہیں
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
ساتھ چھوٹ جاتے ہیں
کرچیاں اٹھانے میں
وقت بیت جاتا ہے
درد جیت جاتا ہے
درد جیت جاتا ہے
اور وہ علیشا فرحان ایک مرتبہ پھر ہار گئی تھی ،ابھی آزمائش کا وقت ختم نہیں ہوا تھا ،وہ جو خوش فہم ہو کر زندگی کی طرف قدم بڑھانا چاہ رہی تھی ایک دفعہ پھر بہت طریقے سے دھتکاری گئی تھی۔
کتنے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ،علیشا فرحان کی ذات کے پرخچے اڑائے گئے بھری محفل میں اس پر کیچڑ اچھالا گیا ،اس کے کردار کو مٹی میں رولا گیا۔

(جاری ہے)

”بس میرے پروردگار! بس اب مجھے اور نہیں جینا ،مجھے ایسی ذلت و رسوائی والی زندگی نہیں چاہئے۔“ اس نے اس زور سے آنکھوں کو میچا تھا گویا کہ اب زندگی بھر انہیں کھولنا نہ چاہتی ہو۔
”سر! پیشنٹ کو ہوش آ گیا ہے۔
“ کوئی سسٹر غالباً اسے ہی دیکھنے آئی تھی ،اس کی پلکوں میں جنبش ہوتی دیکھ کر وہ سرعت سے باہر لپک کر ڈاکٹر کو بلا لائی تھی۔
”گڈ۔“ ڈاکٹر نے اسے اچھی طرح چیک کیا۔
”اب یہ خطرے سے باہر ہیں ،لیکن جب تک یہ پوری طرح ری کور نہیں کریں گی تب تک ہم انہیں چھٹی نہیں دے سکتے۔“ ڈاکٹر اپنے ساتھ کھڑے شخص سے مخاطب تھا۔
”کیسا فیل کر رہی ہیں آپ اب۔
“ وہ یقینا چیئر گھسیٹ کر اس کے پاس ہی بیٹھ چکا تھا ،علیشا نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تھا اور رواحہ کا دل بے تحاشہ دکھ میں گھر گیا تھا ،یہ آنکھیں علیشا فرحان کی آنکھیں تو نہیں تھیں ،زندگی کی چمک سے مفقود و ویرا ن ،بنجر نگاہیں ،وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھے گئی۔
”آپ ایزی رہیں کسی سوچ کو ذہن پر سوار مت کریں ،سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ۔
“ وہ زیادہ دیر اس کی بے رونق آنکھوں کو دیکھ نہیں پایا تھا ،اسی لئے نگاہیں جھکا کر اسے تسلی دینے لگا۔
جب سے علیشا بے ہوش تھی اس کے اندر اشتعال اٹھ رہے تھے ،رہ رہ کر اس کے ذہن میں یہی خیال آ رہا تھا۔
”وہ کون تھے جنہوں نے بھری محفل میں اس کے کردار کو داغ دار کرنا چاہا تھا۔“ اگر لوگ درمیان میں آکر معاملہ رفع دفع نہ کرواتے تو وہ یقینا اس شخص کا سر پھاڑ دیتا ،اسے اس وقت تو اپنے طیش کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی تھی ،لیکن جب ڈاکٹر نے اس سے کہا تھا۔
”شدید ذہنی شاک کی وجہ سے پیشنٹ کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا ہے اگر بارہ گھنٹوں تک انہیں ہوش نہ آیا تو خطرہ ہے کہ کہیں یہ کومے میں نہ چلی جائیں۔“
اس وقت رواحہ کو اپنے دل کی دھڑکن رکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی ،سب گھر والے ہی علیشا کیلئے از حد پریشان تھے لیکن اس کی تو حالت ہی سب سے جدا تھی ،وہ دیوانہ وار کئی دفعہ آئی سی یو کے چکر لگا چکا تھا۔
دس گھنٹوں کے طویل وقفے کے بعد اسے ہوش آیا تھا اور رواحہ سب سے پہلے اس کی طرف لپکا تھا ،اسے لگا تھا علیشا کے ساتھ ساتھ اس کے وجود میں بھی ابھی زندگی کی لہر دوڑی ہو ،لیکن اس کی اجاڑ آنکھیں دیکھ کر وہ ایک مرتبہ پھر شدید کرب سے گزرا تھا ،اس کے پاس وہ الفاظ ہی نہیں تھے جن کا سہارا لے کر وہ اسے تسلی کے دو بول کہہ سکتا ،اس کے درد کو کم کر سکتا ،اس کے ہوش میں آنے کا سن کر باقی سب کی بھی جان میں جان آئی تھی۔
”شکر ہے علیشا کو ہوش آ گیا ،ورنہ میں ندرت کو کیا منہ دکھاتی ،اس کی اکلوتی بیٹی کا خیال بھی نہ رکھ سکی۔“ تہمینہ بے ساختہ تشکر بھری سانس خارج کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
”میرا وجود اوروں کیلئے سوائے بوجھ کے اور کچھ نہیں۔“ ایک مرتبہ پھر یہ خیال پوری قوت سے اس کے دل کے ایوانوں میں گردش کرنے لگا تھا۔
”پیشنٹ کو اب آرام کرنے دیں۔
“ سسٹر نے اندر داخل ہوتے ہوئے ان سب کو مخاطب کیا تھا ،پھر اس کا چارٹ چینج کرنے لگی وہ سب بھی خاموشی سے باہر نکل گئے۔
###
وہ ایک مرتبہ پھر سارے ماحول سے کٹ گئی تھی ،آفس تک جانا چھوڑ دیا تھا ،اسے لوگوں کی نگاہوں سے خوف آتا تھا ،اسے لگتا تھا اس دن ساری دنیا نے اس کا تماشا دیکھا تھا ،اب وہ زندگی بھر کسی کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہی۔
نور اس کی حالت دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھتی تھی ،وہ لاکھ اسے سمجھانے کی کوشش کرتی لیکن وہ تو شاید مٹی کا مادھو بن گئی تھی۔
رواحہ جونہی اندر داخل ہوا تو اس کی نظر سامنے لان میں دھری کرسی پہ بیٹھی علیشا پہ پڑی ،اس کے قدم بے اختیار اس کی طرف اٹھنے لگے ،وہ اپنی ہی سوچوں میں مستغرق تھی اس کے پاس آنے کی بھی خبر نہ ہوئی۔
”آہم… السلام علیکم!“ وہ گلا کھنکار کر بلند آواز سے بولا ،وہ چونک کر متوجہ ہوئی تو سامنے اسے کھڑا ہوا پایا۔
”وعلیکم السلام!“ آواز اتنی آہستہ تھی کہ وہ بمشکل سن پایا۔
”کیسی ہیں آپ؟“ وہ غالباً اس سے بات کرنے کے موڈ میں تھا ،جبھی وہیں اس کے سامنے چیئر گھسیٹ کے بیٹھ گیا۔
”ٹھیک ہوں۔“ اس کے الفاظ ہرگز اس کے انداز کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
”آفس میں آپ کے کولیگ آپ کا پوچھ رہے تھے ،کب سے ری جوائن کر رہی ہیں آپ۔“ اس کا مقصد صرف اس کا دھیان بٹانا تھا اور جس جمود کا وہ شکار ہو رہی تھی اس جمود کو توڑنا تھا۔
”پتہ نہیں۔“ وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولی تھی ،اس کے سپاٹ لہجے پہ وہ ایک دم خاموش ہو گیا ،چند ثانیے بہت کھوجتی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھا تھا پھر گویا ہوا۔
”ہم اپنی پہلی لغزش کو تو غلطی کا نام دے سکتے ہیں لیکن ہماری دوسری لغزش ،غلطی نہیں بلکہ گناہ کہلاتی ہے۔“ اس کے لہجے میں کچھ ایسا ضرور تھا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی طرف متوجہ ہو گئی ،وہ بولی تو کچھ نہیں تاہم متعجب نگاہوں سے اسے دیکھا ضرور تھا۔
”آپ خاموش رہ کر کیوں یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ آپ غلط ہیں ،خاموشی کے اس پردے کو آپ چاک کیوں نہیں کر دیتیں۔“ اس کا انداز ترغیبانہ تھا۔
”میرا بولنا یا نہ بولنا برابر ہے۔“ وہ اپنے سابقہ سپاٹ انداز میں بولی تھی۔
”یہ صرف آپ کی خام خیالی ہے اور کچھ نہیں آپ کو شاید اندازہ نہیں لیکن بعض اوقات ہماری خاموشی بہت بڑے بڑے شبہات کو پیدا کر دیتی ہے۔
“ اب کی دفعہ ذرا بلند آواز سے گویا ہوا تھا۔
”آپ کو میرے بارے میں کتنے شبہات ہیں۔“ وہ سرد لہجے میں پوچھ رہی تھی ،رواحہ کو اس سے اس سوال کی توقع نہیں تھی ،تاہم وہ بولا تو اس کا لہجہ بھرپور یقین لئے ہوئے تھا۔
”ایک فیصد بھی نہیں۔“ وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر باوثوق لہجے میں بولا تھا ،علیشا کا دل ایک لمحے کیلئے ٹھہر سا گیا۔
”علیشا!“ رواحہ نے بڑے نرم اپنائیت بھرے انداز میں اسے پکارا تھا۔
علیشا کو اپنی پلکیں بھیگتی ہوئی محسوس ہوئیں ،اسے لگا تھا اس کا گلیشیئر بنا وجود قطرہ قطرہ پگھل جائے گا۔
”آپ سب کچھ بھول کیوں نہیں جاتیں۔“ اس کی بات پر وہ بول تو کچھ نہ سکی البتہ ایسی بے بس نظروں سے اسے دیکھا تھا کہ اس کی بے بسی دیکھ کر رواحہ کو اپنا دل کٹتا محسوس ہوا تھا۔
”تم مجھ پر اعتبار کر سکتی ہو علیشا! مجھے بتاؤ ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میں کون سا ایسا سانحہ رونما ہوا کہ تم سرتاپا بدل گئی ،ہادی کو جاب کیلئے یو کے جانا پڑا ،مجھے بتاؤ علیشا ،تم اپنی پڑھائی چھوڑ کے کیوں جاب کرکے اپنا وقت ضائع کر رہی ہو میں جاننا چاہتا ہوں۔“ وہ اس کی نم آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گہرے لہجے میں بول رہا تھا۔
”کیوں جاننا چاہتے ہیں آپ۔
“ اس کے مطالبات سن کر وہ پھٹ پڑی۔
اسے اپنا دماغ چٹختا ہوا محسوس ہو رہا تھا ،پرانے زخم دھڑا دھڑ ادھڑنے لگے ہیں ،اس کا وجود برزخ میں اتر رہا تھا وہ کیوں نہ چلاتی۔
”میں تمہارے دکھوں کا مداوا کرنا چاہتا ہوں علیشا! اور میں خود نہیں جانتا میں ،ایسا کیوں کرنا چاہتا ہوں ،بس مجھے تمہاری یہ حالت تکلیف دیتی ہے۔“ اس کے لہجے میں سچائی کا عکس تھا۔
”میرا تو اپنی ذات پہ اعتبار نہیں رہا ،میں تو کسی سے نظر ملا کے بات نہیں کر سکتی ،اپنی داستان کسے سنا سکتی ہوں۔“ اس کا بھیگا لہجہ درد کی گہری تڑپ لئے ہوئے تھا ،رواحہ کے دل پہ گھونسہ پڑا تھا ،کہاں وہ ہر وقت مسکراتی ،کھلکھلاتی علیشا فرحان اور کہاں یہ غم و بے بسی کی تصویر بنی علیشا فرحان۔
”تم بزدل نہیں ہو علیشا! بی بریو حالات سے ڈرنا نہیں لڑنا سیکھو ،پھر دیکھنا کسی میں جرأت نہیں ہو گی کہ تم پر انگلی اٹھا سکے۔
“ وہ اس کا حوصلہ بلند کرنا چاہتا تھا ،تاکہ وہ خود پر اور دوسروں پر اعتبار کرنا سیکھے۔
”مت سکھائیں مجھے یہ بہادری کے سبق ،نہیں ہوں میں بہادر۔“ وہ چلا اٹھی ،کئی تکلیف دہ منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گئے تھے۔
”اوکے اوکے ٹیک اٹ ایزی۔“ وہ ایکدم ٹھنڈا پڑ گیا اور لہجے کو بڑا سادہ اور سرسری سا رکھتے ہوئے پوچھنے لگا۔
”تم بس مجھے یہ بتاؤ کہ اس دن شادی کے فنکشن میں وہ لڑکا اور لڑکی کون تھا؟“
یہ سوال نہیں تھا سنسناتا ہوا تیر تھا جو سیدھا علیشا فرحان کے دل میں پیوست ہو گیا تھا اس نے لب بھینچ کر ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھا اور اگلے ہی لمحے بھاگتی ہوئی اندر چلی گئی تھی ،رواحہ احمد جہاں کا تہاں ساکت رہ گیا۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum