Episode 16 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 16 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

”علیشا! آفس سے تمہارے کولیلز آئے ہیں۔“ شام کے سائے پھیل رہے تھے ،پرندوں کے ڈار کے ڈار رزق کی تلاش سے فارغ ہو کر اب اپنے آشیانوں کی طرف رواں دواں تھے ،سرمئی آسمان کے کنارے سورج کی نارجی شعاعوں نے گھیر رکھے تھے ،وہ آسمان پہ نگاہیں جمائے کسی نادیدہ نقطے کو کھوج رہی تھی ،جب نور نے اسے آکر اطلاع دی ،وہ گہرے خیال سے چونکتے ہوئے خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھے گئی۔

”میرے خدا! میری اس دوست کو پہلے جیسا کر دے۔“ نور کے لبوں سے بے ساختہ اس کیلئے دعا نکلی تھی۔
علیشا کو اس حالت میں دیکھ کر اس کا دل دکھ سے بھر گیا تھا اور فی الوقت اس نے اسے کچھ بھی سمجھانے کا ارادہ موقوف کر دیا تھا کیونکہ آفس سے اس کے کولیکز آئے بیٹھے تھے اور وہ بات کو طول دینا نہیں چاہتی تھی۔

(جاری ہے)

”علیشا! تمہارے کولیگز آئے ہیں ،وہ تمہیں بلا رہے ہیں۔
“ نور نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی بات کو دہرایا تھا۔
”اوکے میں آ رہی ہوں۔“ وہ کھڑی کے بولی۔
”ٹھیک ہے۔“ اس کے جواب پہ نور نے بے ساختہ دل میں شکر ادا کیا تھا ،ورنہ جس طرح وہ ہر چیز سے کٹ گئی تھی نور کو ڈر تھا وہ کہیں ملنے سے بھی انکار نہ کر دے۔
وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو سامنے صوفے پر عمران حیدر اور ثاقب سبحانی کو بیٹھے ہوئے پایا ،اسے اندر آتا دیکھ کر وہ دونوں احتراماً کھڑے ہو گئے تھے۔
”السلام علیکم!“ انہوں نے سلام میں پہل کی تو وہ دل میں شرمندہ ہو گئی ،چونکہ وہ داخل ہوئی تھی تو سلام میں پہل کرنا اس کا حق بنتا تھا۔
”وعلیکم السلام!“ جواباً ان پر سلامتی بھیجتی وہ سامنے والے صوفے پہ ٹک گئی۔
بڑے مصروف ہو گئے ہو تم
 اب تو دل دکھانے بھی نہیں آتے
عمران حیدر نے واپس بیٹھتے ہوئے بے ساختہ شعر پڑھا تھا۔
”اب ایسی بھی بات نہیں۔“ وہ جبراً پھیکے سے انداز میں مسکرا پائی۔
ثاقب سبحانی کی نظریں اس کے اداس اور ملول چہرے پہ ٹک سی گئی تھیں۔
کتنے دنوں بعد آج وہ اس چہرے کو دیکھ رہا تھا اور یہ دن اس نے کیسے گزارے تھے یہ وہی جانتا تھا ،عمران حیدر شاید اس کی بے قرار نظروں کا مفہوم سمجھ گیا تھا جو دن میں کئی کئی بار اس کی خالی سیٹ کی طرف متلاشی انداز میں اٹھتی تھیں اور ہر دفعہ بے قراری کے ساتھ مایوس ہو کر پلٹ آئی تھیں۔
”کیسی طبیعت ہے علیشا جی!“ عمران حیدر نے ہی بات کا آغاز کیا تھا ،کیونکہ ثاقب سبحانی تو فی الحال بولنے کے قابل نہ تھا۔
”ٹھیک ہوں ،آپ کیسے ہیں؟“ خالی الذہنی کے عالم میں بھی اس نے ثاقب سبحانی کی نظروں کا ارتکاز محسوس کیا تھا اور ساتھ ہی ذہن کو جھٹکنے کی بھی کوشش کی تھی۔
”اللہ کا شکر ہے ،ایکچوئیلی سر رواحہ سے آپ کی بیماری کا پتہ چلا تھا تو ہم کافی دنوں سے آنا چاہ رہے تھے لیکن ہر روز ہم یہ سوچتے کہ شاید آج آپ آ ہی جائیں ،لیکن ہر روز ہی آپ کی خالی سیٹ ہمارا منہ چڑا رہی ہوتی ،پھر آج ہمت کرکے ہم آ ہی گئے۔
“ اس نے تفصیلاً اسے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ پاس بیٹھے ثاقب سبحانی کو ٹہوکا بھی دیا تھا۔
”جی بالکل صحیح کہہ رہا ہے عمران آپ کی جگہ بالکل خالی ہے اور آپ کے بغیر بالکل اچھی نہیں لگتی۔“ عمران حیدر کے ٹہوکے پر وہ گڑبڑا کے سیدھا ہوا اور گفتگو میں حصہ لیا تھا۔
”تو کیا ابھی تک سر رواحہ نے اس سیٹ پہ کسی کو اپائنٹ نہیں کیا؟“ اسے سچ مچ حیرت ہوئی تھی۔
کیونکہ اتنے دن تک کسی سیٹ کا خالی رہنا یہ آفس کے رولز کے خلاف تھا جبکہ اس کی معقول وجہ بھی موجود ہو ،کیونکہ اس نے نور کو واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ وہ اب آفس نہیں جانا چاہتی اور یہ بات یقینا نور کے ذریعے رواحہ تک پہنچ چکی ہو گی ،پھر بھی اس کی سیٹ کا خالی رہنا چہ معنی دارد؟
”آپ کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا علیشا جی!“ عمران حیدر نے اس کی بات کے جواب میں نفی میں سر ہلاتے ہوئے ثاقب سحانی کے منہ کی بات چھین لی تھی۔
”کیوں نہیں لے سکتا ،میں تو شاید اس سیٹ کی اہل بھی نہیں ہوں ،ثاقب صاحب کو مجھ سے اچھے اسسٹنٹ کی ضرورت ہے۔“ وہ ثاقب سبحانی کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولی۔
”مجھے تو بس آپ کی ضرورت ہے۔“ اس کا لہجہ حسرت و یاس کی گہری تڑپ لئے ہوئے تھا ،علیشا نے ٹھٹک کر اسے دیکھا۔
”میرا مطلب ہے کہ آپ جیسا قابل اسسٹنٹ تو مجھے آج تک نہیں ملا ،بس آپ جلدی سے واپس آ جایئے کیونکہ پورا آفس آپ کو مس کر رہا ہے۔
“ اسے شاید اپنے الفاظ و انداز کی گہرائی کا اندازہ ہو گیا تھا اسی لئے بات کی وضاحت کرنا چاہی تھی۔
”ثاقب صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں علیشا جی ،مس عظمیٰ گیلانی بھی آپ کا بہت پوچھ رہی تھیں۔“ عمران حیدر نے بھی اس کی تائید کی تھی۔
”میں کوشش کروں گی کہ جلد آ سکوں۔“ وہ جو واضح طور پر کہنا چاہ رہی تھی کہ ”میں آفس چھوڑ چکی ہوں“ ان کے اتنے خلوص پر چاہنے کے باوجود کہہ نہ سکی۔
”اوکے علیشا! اب اجازت دیجئے آپ کی صحت کیلئے دعا گو اور واپسی کے منتظر رہیں گے۔“ عمران حیدر کھڑا ہوا تو طوعاً کرھاً ثاقب کو بھی اٹھنا پڑا۔
ورنہ آنکھیں تو ابھی بھی اس کی دید کی پیاسی تھیں دل بھر کر اس کے دیدار سے ابھی سیراب ہونا چاہتا تھا ،وصل کا یہ مختصر سا دورانیہ اس کی کسک کو مزید بڑھا گیا تھا۔
”بیٹھے نا آپ لوگ کھانا کھا کر جایئے گا۔
“ وہ بھی ان کے ساتھ ہی اٹھتے ہوئے بولی ،گھر آئے مہمان کے ساتھ اتنی مروت نبھانا تو اس کا حق بنتا تھا۔
”نہیں علیشا جی! آپ کا بہت وقت لے لیا ،اب آفس میں ملاقات ہو گی آپ سے۔“ وہ الوداعی کلمات کہنے لگا۔
”انشاء اللہ!“ ثاقب سبحانی کے دل سے آواز نکلی تھی۔
”تھینک یو سو مچ آپ دونوں کا آنا مجھے بہت اچھا لگا اور مس عظمیٰ کو بھی میری طرف سے سلام کہئے گا۔
”ضرور۔“ وہ دونوں باہر نکل گئے ،وہ بھی طویل سانس کھینچتی واپس اسی جگہ پر بیٹھ گئی۔
”تو کیا مجھے خود رواحہ سے بات کر لینی چاہئے۔“ سوچوں میں گھرتے ہوئے اس نے خود سے سوال کیا تھا۔
”علیشا بی بی! تم نے حرکت بھی تو غلط کی ہے ناں ،رولز ہمیشہ رولز ہوتے ہیں ،یہ بات جب تمہیں اس نے پہلے دن ہی سمجھا دی تھی تو پھر کیا تمہارا صرف نور کو کہہ دینا کافی تھا؟ کہ میں آفس چھوڑ چکی ہوں ،تمہیں چاہئے تھا کہ باقاعدہ ریزائن دیتی ،وہ تمہارے باپ کا آفس تو نہیں کہ جب چاہا چلی گئی جب چاہا چھوڑ دیا۔
“ اس کے ضمیر نے اسے بری طرح لتاڑا تھا۔
”نہیں… میں بات کروں گی خود ان سے پھر خود جا کر ریزائن دے کر آؤں گی ،میرے مسائل اپنی جگہ لیکن مجھے آفس کے قانون توڑنے کا کوئی حق نہیں۔“ اس نے اپنے ضمیر کو تسلی بخش جواب دیا تھا۔
###
بڑی ماما اور نور کسی عزیزہ کی عیادت کیلئے نکلی تھیں ،بڑے پاپا آفس سے نہیں لوٹے تھے ،ویسے تو آج کل وہ بھی آفس سے لیٹ ہی واپس آ رہا تھا لیکن آج طبیعت کچھ ناساز تھی تو بڑے پاپا نے اسے زبردستی گھر بھیج دیا تھا وہ شاور لینے کے بعد نیچے آ رہا تھا کہ اگر علیشا نظر آئے تو اسے چائے کیلئے کہے ،اپنے کمرے سے نکل کر وہ جونہی لاؤنج کی سیڑھیاں اترنے لگا تو اس کی نظر سیڑھیوں کے درمیان میں بیٹھی علیشا پر پڑی۔
وہ ٹھٹک کر ایک لمحے کیلئے رک سا گیا ،پھر اگلے لمحے وہ اسے مخاطب کرنے کے ارادے سے نیچے اترنے لگا۔
”آئم سوری ،میں نے بہت تنگ کیا آپ کو۔“ علیشا کی آواز سن کر ایک دفعہ پھر اسے اپنی جگہ رک جانا پڑا تھا۔
”لیکن آپ یقین جانئے میرا مقصد آپ کا دل دکھانا یا نیچا دکھانا نہیں تھا۔ میں صرف انٹرٹینمنٹ کی خاطر آپ سے ہنسی مذاق کرتی تھی لیکن… لیکن مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔
میں ایسا کوئی حق نہیں رکھتی تھی۔“ اس کے لہجے میں نمی گھل رہی تھی۔
رواحہ کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔
تو کیا اسے گزشتہ واقعات یاد تھے؟ کیا وہ جان بوجھ کر اس سے اجنبی بنی رہی تھی؟ کہاں تھا اسے سامنے دیکھ کر بھی وہ اجنبی رہتی تھی اور کہاں وہ صرف اسے اس کی آہٹ سے پہچان گئی تھی۔ کتنی دفعہ رواحہ کا دل چاہا تھا کہ وہ اس سے گزشتہ حالات و واقعات کے بارے میں پوچھے۔
کیا کراچی میں اپنی پہلی آمد کے واقعات اسے یاد ہیں؟ لیکن ہر دفعہ اس کی آنکھوں میں اتنی اجنبیت اور سرد مہری ہوتی کہ وہ چاہنے کے باوجود بھی یہ سوال کبھی زبان پہ نہ لا سکا۔ لیکن نہیں آج اس کا اندازہ بتا رہا تھا کہ وہ کچھ بھی بھولی نہیں ہے۔ اسے سب کچھ یاد ہے اور وہ بھول بھی کیسے سکتی تھی جبکہ اس نے خود یہ دعویٰ کیا تھا کہ
”تمہیں تو میں کبھی بھول ہی نہیں سکتی رواحہ احمد تمہیں میں نے بہت تنگ کیا ہے بہت ستایا ہے تم مجھے ہمیشہ یاد رہو گے۔
“ پھر وہ اسے کیونکہ بھلا سکتی تھی۔
درمیانی سیڑھیاں وہ دو دو کرکے پھلانگ کر اس تک پہنچا تھا اور اس سے اگلی سیڑھی پہ گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
”تو کیا علیشا فرحان تمہیں پرانی باتیں یاد ہیں؟“
”وہ اتنی بھی پرانی نہیں ہیں۔“ وہ نگاہیں جھکاتے ہوئے بولی تھی۔
”تو پھر… پھر مجھے بتاؤ کہ وہ کون سی چیزہے جس نے اتنے کم وقت میں تمہیں اس حال تک پہنچا دیا۔
”کہاں گئی وہ زندہ دل ،شوخ و شریر علیشان فرحان؟ آئم وانٹ ٹو نو علیشا۔“ وہ اسے بازو سے جھنجھوڑتے ہوئے دریافت کر رہا تھا۔
سوال اتنا مشکل نہیں تھا جتنا تکلیف دہ تھا۔ وہ اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے بے قراری سے کھڑی ہو گئی تھی۔
”تم آج مجھے بتائے بغیر نہیں جا سکتی علیشا۔“ وہ بھی اس کے ساتھ ہی کھڑا ہو گیا تھا۔
”کیا کریں گے سن کر آپ؟ یہ کسی فلم کی لو اسٹوری نہیں جو میں بڑی آسانی سے آپ کو سنا دوں۔
یہ میری زندگی کا تکلیف ترین موضوع ہے۔“ وہ چیخ کر کہنا چاہتی تھی لیکن وہ چلا نہیں سکی۔ حلق میں پھندا اٹک گیا تھا اور آنسو پلکوں کی باڑھ توڑ کر صبیح گالوں پہ لڑھک آئے تھے۔ رواحہ کے دل کو بہت تکلیف ہوئی تھی۔
”میں سمجھ سکتا ہوں علیشا لیکن ان سوچوں کو اگر تم ہمیشہ کیلئے دماغ میں رکھو گی تو ایک دن پاگل ہو جاؤ گی۔ انہیں باہر نکال دو جو کچھ بھی تمہارے دماغ میں ہے۔
ایک دفعہ کھل کر آنسو بہا لو۔ کھڑے پانی میں بھی بدبو پیدا ہو جاتی ہے۔ ہر چیز رواں دواں ہی اچھی لگتی ہے۔ تسلسل ہی زندگی ہے۔ ادھر آؤ بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔“ اس نے بات کے اختتام میں لاؤنج میں پڑے صوفوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ چپ چاپ خاموشی سے سیڑھیوں اتر کر سامنے دھیرے صوفے پہ بیٹھ گئی۔ رواحہ کیلئے اس کا ردعمل حوصلہ افزاء تھا۔
اس نے پانی کا گلاس بھر کر اس کی طرف بڑھایا تھا۔
”پانی پی لو۔“ علیشا نے گلاس تھاما اور پینے لگ گئی۔
”آپ جانتے ہیں اس دن شادی کے فنکشن میں وہ کون تھا؟“ اس نے بہت چاہا تھا کہ وہ خود پر کنٹرول کر لے لیکن کر نہیں پائی تھی آواز رندھ گئی تھی اور آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔
”نہیں۔“ رواحہ کس ساری حسیات الرٹ ہو گئی تھیں۔
اس نے علیشا کو دیکھا ہونٹ کاٹتے ہوئے وہ کچھ کہنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی لیکن لگ رہا تھا اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی۔
رواحہ کو بہت ترس آیا تھا اس نے سمے اس پر۔
”وہ … وہ شارق تھا۔ میرا فیانسی…“ وہ بول تو گئی تھی لیکن پھر ضبط نہ کر سکی تھی۔
دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھپاتے ہوئے وہ شدت سے رو پڑی تھی جبکہ رواحہ کو زمین و آسمان اپنی نگاہوں میں گھومتے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum