Episode 21 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 21 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

”ہرگز نہیں ،قیامت تک ایسا نہیں ہو سکتا ،تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم میری اتنی چھوٹی بچی کیلئے ایسے بڈھے کھڑوس کے رشتے کی بات کرو۔“ ندرت تو سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ گئی تھیں۔
رابعہ کو ایسے صفا چٹ انکار کی ہرگز توقع نہیں تھی ،بڑی بی کو تو وہ کسی خاطر میں نہیں لائی تھی ،علیشا زیادہ تر گم صم رہتی تھی ،اس کی طرف سے بھی اسے کوئی دھڑکا نہیں تھا البتہ ہادی کا ایک کانٹا تھا اور اب تو وہ بھی یہاں نہیں تھا اس کے پاس بہترین موقع تھا ،ندرت کی طرف سے اگر کوئی احتجاج ہوتا تو وہ شیراز کے ذریعے دباؤ ڈال کے چٹکیوں میں اپنی بات منوا سکتی تھی۔
لیکن احتجاج تو درکناار انہوں نے تو قطعی انکار کر ڈالا تھا ،ایک تو بڑی بی کی جرأت اور دوسرا اپنی تذلیل وہ تو غصے سے کانپ اٹھی۔

(جاری ہے)

”ارے شکر کریں جو ابھی رشتہ مل رہا ہے ورنہ جس لڑکی کی منگنی ٹوٹ گئی ہو ،اسے کون پوچھتا ہے ،میں پوچھتی ہوں اتنا نخرہ کس بات پر ہے اور پھر کیا کمی ہے نصیر میمن میں ،کروڑوں کا بزنس ہے اپنی جائیداد ہے ،ساری زندگی بٹھا کے عیش کرائے گا۔
“ نہایت بدتمیزی سے وہ جاہل عورتوں کی طرح ہاتھ نچا نچا کے بولی تھی۔
”منگنی ٹوٹی ہے تو کیا ہوا ہے ،ہزاروں لڑکیوں کی منگنیاں ٹوٹتی ہیں اور اس سے اچھی جگہ شادیاں ہو جاتی ہیں۔“ ندرت کو اس کے انداز پہ غصہ تو بہت آیا تھا ،لیکن خود پر ضبط کرتے ہوئے وہ رسان سے بولی تھیں۔
”تو نصیر میمن بھی تو شارق سے اچھا ہی ہے ناں ،جتنا پیسہ اس کے پاس ہے ناں شارق کی سات نسلوں کے پاس بھی نہ ہوگا ،علیشا مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز ہے میں اس کیلئے برا تھوڑی سوچوں گی ،نصیر بے حد اچھا لڑکا ہے ،کوئی بری عادت نہیں نہ سسرال کا جھنجھٹ ،اپنی علیشا تو راج کرے گی۔
“ ندرت کے تیور دیکھ کر اس نے فوراً سے پیشتر پینترا بدلا تھا۔
اور اس کا ”لڑکا“ کہنے پر ندرت خون کے گھونٹ پی کے رہ گئی تھیں۔
”اگر وہ اتنا ہی ”اچھا لڑکا “ ہے تو تم عاتکہ کیلئے کیوں نہیں دیکھ لیتی۔“ وہ اس کی چاپلوسی سے قطعاً متاثر نہیں ہوئی تھیں۔
رابعہ کیلئے یہ وار بڑا کاری تھا ،آج تو بڑی بی دھماکے کرنے پہ تلی ہوئی تھیں۔
”ہم نے تو ہمیشہ انہیں بڑا بھائی سمجھا ہے اور وہ بھی ہمیں اپنی چھوٹی بہنیں سمجھتے ہیں ،ورنہ میرے ئے تو عاتکہ اور علیشا برابر ہیں۔“ لاکھوں روپے کے لالچ میں وہ بھی سہہ گئی تھی۔
”بہرحال جو بھی ہے مجھے یہ رشتہ ہرگز منظور نہیں۔“ وہ مزید بحث میں نہیں پڑنا چاہتی تھیں ،جانتی تھیں باتوں میں وہ کبھی بھی اپنی بہو کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتیں۔
”دیکھا… دیکھا شیراز! آپ نے یہ اہمیت ہے میری اس گھر میں۔“ وہ غصے سے تلملاتے ہوئے اپنے شوہر کی جانب پلٹی ،اس کی برداشت کی حدیں بس یہاں تک ہی تھیں۔
”جس لڑکی کو آپ نے بیٹی بنا کے پالا ،پڑھایا لکھایا ،آج اس پہ اتنا حق بھی نہیں کہ اس کیلئے اچھا سوچ بھی سکیں ،سچ تو یہ ہے کہ آپ کی اماں نے آپ کو نہ بڑا سمجھا نہ بنایا ،آپ تو ان کیلئے بس پیسہ کمانے والی مشین ہیں ،ان کی اصل اولاد تو صرف علیشا اور ہادی ہیں۔
“ اس نے سلگتے ہوئے شیراز پر ہمیشہ کی طرح نفسیاتی حربہ استعمال کیا تھا اور ہمیشہ کی طرح ہی وہ بدھو اس کی باتوں میں آ گیا تھا۔
”سچ تو یہی ہے ماما! آپ نے کبھی مجھے اپنا بیٹا سمجھا ہی نہیں۔“ وہ نتھنے پھلاتے ہوئے کھڑا ہو گیا تھا۔
”بیوی کے کانوں سے سننے سے بہتر ہے کہ اپنی آنکھوں سے دیکھو۔“ ندرت نے پہلی دفعہ شادی کے بعد اسے جملہ کہا تھا۔
”ہاں… ہاں آپ تو یہی کہتی ہیں کہ میں ہی شیراز کو سکھاتی پڑھاتی ہوں ،ارے یہ بچے تو نہیں ان کے ساتھ جو بھی زیادتیاں ہوتی ہیں وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔“ اسے کون سا کسی کا ڈر تھا یا لحاظ جو وہ دبک کر بات کرتی۔
وہ دونوں بکتے جھکتے چلے گئے تو ندرت اپنے بیڈ پر ڈھے سی گئیں ،سچ تو یہ تھا کہ انہوں نے بظاہر تو رابعہ کے سامنے بڑی ہمت اور بہادری دکھائی تھی لیکن اندر سے وہ اتنی مضبوط نہیں تھیں ،وہ رابعہ جیسی شاطر لڑکی سے مقابلہ ہرگز نہیں کر سکتی تھی ،انہیں علیشا کی طرف سے دھڑکا لگ گیا تھا۔
ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کوئی جادو کی چھڑی گھما کے علیشا کو کہیں غائب کر دیں نہ تو وہ اکیلی اتنی جلدی کہیں شادی کر سکتی تھیں اور نہ کوئی اچھا رشتہ تھا ان کے پاس۔
”تہمینہ!“ روشنی کی ایک کرن اندھیرے میں ٹمٹمائی تھی۔
”ہاں تہمینہ اس مشکل وقت میں ضرور میری مدد کرے گی۔“ ان کے دل کو اطمینان سا ہوا تھا۔
جب تہمینہ کو انہوں نے ساری بات بتائی تو ان کی توقع کے مطابق وہ فوراً مان گئی تھیں اصل مسئلہ تو تھا علیشا کا ،وہ کسی صورت بھی انہیں اکیلا چھوڑ کے جانے کے حق میں نہیں تھی۔
وہ ماں تھی اس کی ،کسی نہ کسی طرح اسے قائل کرکے ہی دم لیا تھا ،جس دن اسے کراچی آنا تھا وہ بے حد اداس تھی ،بار بار ماما کے گلے لگ کے رونے لگ جاتی ،انہوں نے اتنے واسطے نہ دیئے ہوتے تو وہ ہرگز انہیں چھوڑ کے نہ جاتی اور پھر ہادی کا بھی یہی اصرار تھا ،ناچار اسے ماننا پڑا۔
ماما چوروں کی طرح اسے اسٹیشن تک چھوڑنے آئی تھیں ،ایئر لائن کی ٹکٹ کیلئے ان کے پاس پیسے نہیں تھے ،جو کچھ جمع جتھا تھا وہ ہادی پر لگا چکی تھیں اب تو وہ بمشکل ٹرین کا ٹکٹ ہی خرید پائی تھیں اور یوں وہ اس شہر اور اس کی فضاؤں کو چھوڑ آئی تھیں ،جہاں کے ایک ایک لمحے سے اس کی یادیں جڑی تھیں۔
کبھی موسموں کے سراب میں کبھی بام و در کے عذاب میں
 وہاں عمر میں نے گزار دی جہاں سانس لینا محال تھا
 تیرے بعد کوئی ہیں ملا جو یہ حال دیکھ کے پوچھتا
 مجھے کس کی آگ جھلسا گئی میرے دل کو کس کا ملال تھا
###
”بس یہی تی میری داستان۔“ بہت سارو چکنے کے بعد اب اس کے دل کو قرار سا آ گیا تھا۔
ایسا لگ ہا تھا وہ لاوا جو کتنے عرصے سے اس کے اندر پک رہا تھا آج باہر ابل پڑا ہے ،وہ زہر جس نے اس کے وجود کونڈھال کر دیا تھا آج اس نے اگل دیا تھا۔
”میں یہ تو نہیں کہتا علیشا! کہ یہ معمولی یا عام سی بات ہے بے شک یہ سانحہ بہت بڑا ہے ،جس نے تمہاری زندگی کو بدل کے رکھ دیا ،لیکن زندگی بھی تو اسی چیز کا نام ہے ،زندگی تسلسل کا نام ہے ،حادثات و واقعات کا نام ہے ،نشیب و فراز کا نام ہے اور ایک بات یاد رکھو ،وقت کبھی بھی ایک سا نہیں رہتا ،اگر آج بازی مقابل کے تو کل کو ہمارے ہاتھ میں ہو گی ،تمہاری سب سے بڑی غلطی تمہاری نا امیدی ہے۔
“ وہ بہت رسان سے اسے سمجھا رہا تھا ،علیشا متحیر نگاہوں سے اسے تک رہی تھی۔
رابعہ بھابھی غلط تھیں ،شیراز بھائی غلط تھے ،عاتکہ غلط تھی ،شارق غلط تھا۔
لیکن… تم غلط ہو… یہ کسی نے اس سے نہیں کہا تھا۔
”میں جانتا ہوں تمہارے ذہن میں اس وقت بہت سے سوال ابھر رہے ہیں۔“ وہ اس کی آنکھوں میں لکھی تحریر پڑھ چکا تھا۔
”لیکن علیشا! تم خود سوچو ،تمہارا بھائی بدل گیا تھا ،تمہارا خدا تو نہیں بدلا تھا ،جو تم نے اس سے اچھی امید رکھنا ہی چھوڑ دی ،بندے بدل جاتے ہیں لیکن خدا نہیں بدلتا ،اس سے کبھی مایوس مت ہو ،اس ذات سے ہمیشہ اچھی امید رکھو ،جس نے تمہیں یہاں تک پہنچایا وہ آگے بھی بے یارو مددگار نہیں چھوڑے گا۔
“ اس کی باتیں سو فیصد سچ تھیں ،علیشا نے ندامت سے نگاہیں جھکا لیں۔
”کتنا صحیح تجزیہ کیا تھا اس نے ،وہ کتنی گناہ گار تھی ایک ذرا سی آزمائش پہ پورا نہ اتر سکی ،وہ بھی تو انسان ہی ہوتے ہیں جو آزمائش کی بھٹی سے گزر کر کندن بن جاتے ہیں ،وہ تو کوئلہ کی کوئلہ ہی رہی۔“ آج پہلی بار اس کی آنکھوں سے ندامت کے آنسو بہے تھے۔
”جو چیز ہمارے رب نے ہمارے مقدر میں درج ہی نہیں وہ ہمیں کبھی نہیں مل سکتی ،چاہے ہم تاحیات اس کے پیچھے بھاگے رہیں ،شارق کبھی بھی تمہارا نہیں تھا ،عاتکہ نہ ہوتی تو اس کی جگہ کوئی اور ہوتی ،اگر کوئی شخص ہمیں ٹھوکر لگنے سے پہلے ہی سنبھالا دے دے تو ،کیا ہم اس سے اس بات پہ جھگڑا کریں گے کہ اس نے ہمیں لڑکھڑا کر گرنے کیوں نہیں دیا یا اس کے احسان مند ہوں گے؟ ٹھیک اسی طرح علیشا! شارق وہ ٹھوکر تھی جس سے تمہارے رب نے تمہیں قبل از وقت ہی بچا لیا ،تھام لیا ،سوچو جواباً تم نے کیا کیا؟ اس کا احسان مانا یا اس کی ناشکری کی؟ اس کا فرمان ہے کہ اسے شکر گزار بندے پسند ہیں نا شکرے نہیں ،ابھی بھی وقت ہے علیشا! اس سے معافی مانگ لو ،سچی توبہ کر لو اور اس کی رضا میں راضی ہو جاؤ۔
“ اپنی باتوں کا خاطر خواہ اثر اس کے چہرے پہ نظر آ رہا تھا ،رواحہ کو دل کے ایک کونے میں اطمینان محسوس ہوا۔
”اس دن شادی میں مجھے شارق اور عاتکہ کا رویہ اتنا برا نہیں لگا جتنی تمہاری خاموشی چبھی تھی درگزر اچھی عادت ہے ،لیکن جہاں تم طاقت رکھ سکو ،ظالم کو سبق سکھلانے کیلئے منہ توڑ جواب بھی دو ،تاکہ آئندہ وہ کسی بھی بے گناہ پر الزام لگانے سے پہلے کم از کم سو دفعہ تو ضرور سوچے ،اگر اس دن تم ایک زور دار طمانچہ اس عاتکہ کے منہ پہ رسید کرتی تو میں تمہیں انعام میں دس ہزار روپے دیتا۔
“ انتہائی سنجیدہ گفتگو کے اختتام پر ایسے شگوفے نے علیشا کے لبوں پہ بے ساختہ تبسم کو بکھیر دیا تھا۔
”چلیں آئندہ اگر ایسا موقع ہاتھ آیا تو میں ایک نہیں بلکہ دو طمانچے لگاؤں گی اسے۔“ اس کی باتوں میں کچھ تو ایسا اثر ضرور تھا جو ایک عرصے بعد اس کا موڈ خوشگوار ہوا تھا۔
”لیکن تم اب ہرگز امید نہ رکھنا کہ میں تمہیں بیس ہزار نکال کر پکڑا دو ں گا۔
“ اس نے مصنوعی آنکھیں نکالتے ہوئے صاف ہری جھنڈی دکھائی تھی۔
”اوں ہوں ابھی خود ہی تو آپ نے کہا ہے کہ اچھی امید کبھی نہیں ٹوٹنی چاہئے۔“ آنکھوں میں بے پناہ شرارت لئے وہ اس سمے اسے پہلی والی علیشا فرحان لگی تھی۔
”باپ رہے۔“ اس کا ہاتھ بے ساختہ اپنے سر پہ پہنچ گیا تھا۔
وہ اس کی بے بسی پہ کھلکھلا اٹھی ،ایک طویل عرصے بعد اسے اپنے روپ میں واپس آتا دیکھ کر رواحہ کا دل خوشی سے لبریز ہو گیا تھا۔
وہ جان گیا تھا اس کی محنت اکارت نہیں گئی بلکہ رنگ لے آئی ہے ،تشکر بھری سانس خارج کرتے ہوئے اس کے دل نے چپکے سے اس کی خوشی کے دوام کی دعا مانگی تھی ،جس کا اسے یقین تھا کہ یہ دعا رائیگاں نہیں جائے گی۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum