Episode 23 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 23 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

”یار! بڑی زبردست سیٹنگ کی ہے تم نے تو۔“ وہ اور نور اکٹھی ہی گھر میں داخل ہوئی تھیں ،اسے آج کیلئے کچھ شاپنگ کرنا تھی ،صبح ہی اس نے فون پر نور کو ساتھ چلنے کا کہا تھا ،وہ ہنسی خوشی راضی ہو گئی تھی ،تہمینہ آنٹی نے اس کے نہ نہ کرنے کے باوجود ڈھیروں سامان ڈرائیور کے ہاتھ بھیج دیا تھا ،وہ دونوں ابھی شاپنگ سے لوٹی تھیں ،نور اطراف میں نظریں دوڑاتے ہوئے سراہ رہی تھی۔

”کہاں سیٹنگ کی ہے ابھی تو بس ضرورت کی ہی تھوڑی سی اشیاء خریدی ہیں ،تم تو شرمندہ کر رہی ہو۔“ ماما ان دونوں کیلئے چائے بنا لائی تھیں۔
”آ… اچھا… تم شرمندہ بھی ہوتی ہو؟ نئی اطلاع ہے میرے لئے۔“ وہ دیدے مٹکا کے بولی۔
”مرو… تم تو۔“ اس نے پاس دھرا کشن اسے کھینچ مارا۔
”ہیلو… ایوری باڈی ،کیا ہو رہا ہے ،ارے واہ یہاں تو چائے کا دور چل رہا ہے ،آنٹی میرے لئے بھی اسٹرونگ سی چائے۔

(جاری ہے)

“ اسی وقت رواحہ اندر داخل ہوا تھا اور اندر کا ماحول دیکھ کر اس کا موڈ خوشگوار ہو گیا تھا۔
”کیوں؟ تمہارے آفس میں کیا چائے نہیں ملتی جو یہاں بھاگے چلے آئے ہو ،چائے نوش فرمائے۔ ندرت کے کچھ کہنے سے پہلے ہی نور بول اٹھی تھی۔
”میں آفس کام کرنے جاتا ہوں ،چائے پینے نہیں۔“ جواباً وہ اسے گھورتے ہوئے بولا تھا۔
”دیکھ لینا ،چائے کا یہ کپ تمہیں بہت مہنگا پڑے گا۔
“ نور نے اسے خبر دار کیا تھا۔
”کیوں؟ مہنگا کیوں پڑے گا۔“ وہ مشکوک ہوا۔
”بھئی سیدھا سا مطلب ہے ،چائے کے بدلے میں آپ کو آئسکریم کھلانی پڑے گی۔“ علیشا نے مسکراہٹ دباتے ہوئے بڑا سادہ سا انداز اختیار کیا تھا۔
”آئسکریم نہیں بیوقوف ،ڈنر لیں گے ہم وہ بھی اپنے پسندیدہ ہوٹل میں۔“ نور نے اسے کہنی مارتے ہوئے بڑی پرزور تردید کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی فرمائش بھی بیان کر دی تھی۔
”جاؤ جاؤ اتنا فالتو ٹائم نہیں ہے میرے پاس۔“ ندرت کے ہاتھ سے چائے کا کپ پکڑتے ہوئے اس نے ناک پر سے مکھی اڑائی تھی۔
”اور سناؤ بیٹا! تہمینہ اور قاسم بھائی کیسے ہیں۔“ ندرت نے اس کے پاس ہی بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا ،رواحہ کو دیکھتے ہی ان کے ذہن میں ہادی کا کہا گیا جملہ گوجنے لگا تھا۔
”ماما! اگر علیشا کے معاملے میں آپ نے اتنی جلد بازی نہ دکھائی ہوتی تو رواحہ ہر لحاظ سے پرفیکٹ لڑکا ہے ،مجھے ذاتی طور پر وہ بے حد پسند ہے۔
“ تب وہ اسے ڈپٹ کر خاموشی کروا دیتی تھیں لیکن اب ان کا دل چاہتا کاش کہ ہادی کی خواہش پوری ہو جائے۔
”جی آنٹی! سب ٹھیک ہیں ،بڑی ماما نے سنڈے کو آپ کو لنچ پر انوائیٹ کیا ہے۔“ رواحہ کی آواز انہیں حال کی دنیا میں کھینچی لائی تھی۔
”اور تم اب بتا رہے ہو۔“ نور نے خشمگیں نظروں سے اسے دیکھا۔
”شکر کرو کہ یاد آ گیا اور چلو اٹھو یہیں ڈیرے ڈالنے کا ارادہ ہے کیا ،بڑی ماما نے کہا تھا واپسی پر نور کو لیتے آنا۔
“ وہ الٹا اسی کے سر ہو گیا۔
”اتنی جلدی ،ڈنر سے پہلے تو ہرگز نہیں جانے دوں گی میں۔“ علیشا فوراً بول اٹھی تھی۔
”نہیں علیشا! پھر سہی ،یو نو کہ لاسٹ ڈیٹس چل رہی ہیں ان دنوں میں کام کا برڈن بہت زیادہ ہے۔“ اس کی ریزن معقول تھی ،ناچار اسے ماننا پڑی۔
”بس اب گھر داری کرنی ہے ،کتابوں کی سلیکشن کرو میں ایک دو دنوں میں تمہیں فارم لا دوں گا۔
“ جانے سے پہلے وہ اسے ٹوکنا نہیں بھولا تھا۔
”مگر میں۔“ اس نے کچھ کہنا چاہا۔
”کوئی اگر مگر نہیں چلے گی ،جو میں نے کہہ دیا وہی ہی ہو گا بس۔“ وہ اس کا جملہ کاٹتا ہوا فیصلہ کن لہجے میں بولا تھا۔
”اچھی زبردستی ہے۔“ وہ جزبز ہوئی۔
”ہاں ہے۔“ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اس نے دھونس بھرے انداز میں کہا تھا۔
کچھ تو ایسا ضرور تھا اس کی آنکھوں میں ،جو اسے سٹپٹا کے پلکیں جھپکانے پہ مجبور ہو گیا تھا ،اس کے لبوں کے گوشوں میں مدھم مسکان ابھری تھی۔
”آج تو بہت تھکاوٹ ہو گئی ماما۔“ انہیں سی آف کرکے وہ دھپ سے صوفے پہ نیم دراز ہوتے ہوئے بولی۔
”یہ ثاقب سبحانی کیسا لڑکا ہے علیشا!“ ماما کے غیر متوقع سوال پہ وہ چونک کے اٹھی تھی۔
”اچھا لڑکا ہے ،کیوں؟“ اس نے متعجب ہو کر جواب دینے کے ساتھ ہی سوال داغ دیا تھا۔
”آج اس کی والدہ اور آپا آئی تھیں ،تمہارے لئے ثاقب سبحانی کا پرپوزل لے کر۔“ ان کا لہجہ تو بہت عام سا تھا لیکن نگاہوں میں کچھ خاص ضرور تھا ،جس نے علیشا کو ٹھٹھکا دیا تھا۔
”ایسی کوئی بات نہیں ہے ماما! ہم ساتھ کام ضرور کرتے رہے ہیں لیکن میں نے کبھی اس کے متعلق اس انداز میں نہیں سوچا۔“ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔
”ٹھیک ہے سوچ لو ،پھر جواب دے دینا۔
“ وہ رسان سے کہتی ہوئی اٹھ گئی تھیں۔
”تو وہ میرا وہم نہیں تھا ،یقینا ثاقب سبحانی کے دل میں کوئی جذبہ ضرور تھا۔“ اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔
اب اسے آفس کے وہ لمحات یاد آ رہے تھے جب ثاقب سبحانی بار بار بے قابو نظروں سے دیکھتا تھا ،کبھی اس کے ڈیسک ٹاپ پر کوئی نظم لکھ دینا اور عمران حیدر کا اسے چھیڑنا ،لیکن جو بھی تھا ثاقب سبحانی نے کبھی اس کے احترام اور تقدس میں کمی نہیں آنے دی تھی کبھی کوئی ایسی قابل گرفت حرکت بھی نہیں کی تھی۔
”لیکن… لیکن یہ میرا دل… ایسے کیوں لگ رہا ہے کہ رواحہ کیلئے میرے دل میں الگ جذبات کیوں آ رہے ہیں… کہیں میں رواحہ سے…؟“ اس کا دل اسے ایک نئی راہ دکھا رہا تھا اور یہ سب اسے کتنا اچھا لگ رہا تھا ،اس نے خود کو ڈپٹنے کی بہت کوشش کی لیکن بے سود۔
”رواحہ… رواحہ… رواحہ۔“ اس کا دل بس ایک ہی راگ الاپ رہا تھا ،اپنی ہی سوچوں سے گھبرا کر وہ فوراً ہی وہاں سے اٹھ گئی تھی۔
###
سب کچھ اتنی جلدی جلدی اچھا ہو جائے گا اسے تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا ،ابھی صبح ہی تو رواحہ اسے پراسپیکٹس اور فارم دینے آیا تھا۔
”اسے اچھی طرح دیکھ لینا اور فل کر دینا ،میں دوپہر میں آؤں گا تو لے جاؤں گا اور جمع کروا دوں گا اور ہاں اچھا سا لنچ بھی تیار رکھنا فی الحال جلدی میں ہوں ،آفس کا ٹائم ہو رہا ہے۔“
اور یہ تو اس نے بھی مشاہدہ کر لیا تھا کہ وہ وقت کا کتنا پابند ہے اسی لئے اس نے رکنے پر اصرار نہیں کیا تھا ،وہ پراسپیکٹس اور فارم چھوڑ چھاڑ لنچ کی تیاریوں میں لگ گئی تھی کریلے گوشت اور کوفتے اس کی دو ہی پسندیدہ ڈشز تھیں ،وہ جلدی سے ہاتھ چلانے لگی۔
کچن سے فارغ ہو کے اس نے باتھ لے کر ہلکا آسمانی جار جیت کا سوٹ پہنا ،اندر کا موسم خوشگوار ہو تو ہر چیز ویسے ہی خوبصورت لگتی ہے وہ فارم اور پراسپیکٹس لئے ماما کے پاس لاؤنج میں آ گئی۔
”میں دیکھتی ہوں ماما۔“ مین ڈور پہ بیل ہوئی تو دل کی دھڑکنیں سنبھالتی کھڑی ہو گئی ،اپنی سادہ سی تیاری اسے زیادہ لگ رہی تھی۔
”پھپھو… آپ۔
“ سامنے پھپھو کو کھڑا دیکھ کے وہ خوشی سے نہال ہو گئی تھی۔
”آہم… جناب میں بھی ہوں۔“ شارق ان کے عقب میں نکل کر آیا تھا ،لہجہ شوخی سے بھرپور تھا ،وہ تو یوں پوز کر رہا تھا گویا ان کے درمیان کبھی تلخ ایام آئے ہی نہیں تھے ،وہ نظر انداز کر گئی۔
”آیئے… اندر آیئے۔“ وہ انہیں اپنی معیت میں لئے اندر آ گئی۔
”ارے فضیلہ تم!“ ندرت بھی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھیں۔
وہ انہیں وہیں چھوڑ کر کچن میں آ گئی ،وہ اپنے کسی رویے سے شارق پہ کچھ ظاہر کرنا چاہتی تھی ،اسے یاد تھا جب وہ رابعہ اور عاتکہ کے ساتھ معرکہ کرکے آئی تھی تو اگلے ہی دن اسے عاتکہ کا فون آ گیا تھا۔
”تم فساد کی جڑ ہو ،لیکن تم جتنی مرضی کوشش کر لو شارق اب تمہارا نہیں ہو سکتا۔“ پتہ نہیں اسے کس چیز کا اشتعال تھا ،شاید اپنی بے عزتی کا یا پھر شارق کے عاق ہونے کا۔
”اوہ… تمہارا خیال ہے کہ شارق کو میں نے جائیداد سے عاق کروایا ہے ،ویری فنی۔“ وہ دل کھول کر ہنسی ،پھر سنجیدہ ہوئی تو لہجے میں زہر کی تلخی رچی ہوئی تھی۔
”ایک بات یاد رکھنا عاتکہ ،میں تمہاری طرح جھوٹا نہیں کھاتی اور دوسری بات تھوک کر چاٹنے کی عادت نہیں ہے مجھے۔“ اور ساتھ ہی اس نے لائن ڈس کنکٹ کر دی تھی۔
”اور اب فضیلہ پھپھو اور شارق کا یہاں آنا ،وہ سمجھ تو گئی تھی ،لیکن پھپھو کے احترام کی وجہ سے وہ شارق کے منہ نہیں لگنا چاہتی تھی ،جو بھی تھا پھپھو کا رویہ کبھی بھی نہیں بدلا تھا۔
”لگتا ہے تمہیں آج میرے آنے کی خبر ہو گئی تھی۔“ وہ اس کے پیچھے ہی چلا آیا تھا ،وہ کوئی بھی جواب دیئے بغیر فریج میں سے دودھ کا ڈبہ نکالنے لگی۔
”چھوڑو یار! ایسی بھی کیا ناراضی ،میں جانتا ہوں تم آج بھی وہی علیشا ہو جو مجھ سے بے پناہ پیار کرتی ہے ،آخر ہمارا ساتھ بچپن سے ہے ،تمہارا اعتماد قائم رکھا ہے میں نے دیکھو تو تمہارے پاس ہی لوٹ آیا ہوں وہ کیا کہا ہے پروین شاکر نے۔
وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی
”سوری ،میرا ظرف پروین شاکر جتنا بلند نہیں ہے۔“ اس کا ضبط جواب دینے لگا تھا ،اس نے بے حد سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا تھا ،لیکن شارق کے عقب سے اسے واپس پلٹتا ہوا رواحہ دکھائی دیا تھا ،اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔
وہ شارق کو چھوڑ چھاڑ رواحہ کے پیچھے لپکی تھی ،لیکن وہ رکے بغیر باہر نکل گیا تھا اور آناً فاناً گاڑی بھگا لے گیا ،اس کی پکار لبوں میں ہی دم توڑ گئی تھی دل پہ بھاری بوجھ سا محسوس ہو رہا تھا پتہ نہیں وہ شارق کی کتنی بکواس سن پایا تھا۔
”یہ وہی لڑکا تھا ناں جو…“ وہ واپس کچن میں آئی تو شارق کے ماتھے پر بل پڑے ہوئے تھے۔
”جی رواحہ وہی ہے جس نے بھرے بازار میں مجھ پر کیچڑ اچھالنے پر تمہاری دھلائی کی تھی۔“ اس نے ہرگز کوئی لحاظ نہیں کیا تھا ،اس کی آنکھوں سے شرارے لپک رہے تھے۔
”چھوڑو تم پرانی باتوں کو۔“ وہ کھسیانا ہو گیا۔
”وہ باتیں اتنی بھی پرانی نہیں ہیں مسٹر شارق فیاض احمد اور تم کیا امید لے کر اب یہاں تک آئے ہو کہ میں تمہاری خاطر دیدہ دل فرش راہ کئے بیٹھی ہوں گی ،مجھ تک آنے سے پہلے تمہیں ایک دفعہ اپنے تمام الفاظ پر غور کرنا چاہئے تھا جو تم نے میری شان میں صادر کئے تھے۔
“ رواحہ کے چلے جانے کے سبب اس کا سارا موڈ غارت ہو گیا تھا ،وہ جو خاموش رہنے کا ارادہ کر چکی تھی ایک دم ہی پھٹ پڑی۔
”آئم سوری علیشا! میں شرمندہ ہوں۔“ وہ ہر طرح سے اسے منا لینا چاہتا تھا۔
”بہتر ہوتا کہ یہ سوری تم عاتکہ سے جا کر کرتے شاید وہاں کچھ کام آ جاتی ،ہونہہ آج عاتکہ نے دھتکارا ہے تو تمہیں میں یاد آ گئی اور جب اس کی بانہوں میں جھولتے تھے تب تک تو میں تمہیں ایک بدکردار بے حیا اور فاحشہ عورت لگی تھی جو مردوں کے دل لبھاتی ہے تمہیں اگر عقل ہوتی تو خود سوچتے اتنے عرصے سے تمہارا تو دل لبھا نہ سکی ،تمہارے ساتھ کتنے شرمناک سین ری ایٹ کر چکی تھی جو تم نے اتنے رقیق الزام مجھ پہ لگائے بولو… جواب دو… میں اتنا عرصہ گھر سے باہر ٹھوکریں کھاتی پھری کبھی میرا احساس آیا تمہیں نہیں؟ نہیں آیا ناں‘ پھر تم نے کیسے سوچ لیا کہ میں تمہیں معاف کر دوں گی؟ بات اگر غلط فہمی کی ہوتی تو شاید میں دل وسیع کر بھی لیتی لیکن بات تو یہاں کردار پہ آ گئی ہے ،میں نہ تو کچھ بھول سکتی ہوں اور نہ ہی معاف کر سکتی ہوں اور نہ ہی تم سے کوئی رابطہ رکھنا چاہتی ہوں تمہارا وجود ،تمہارا خیال ،تمہارا احساس میرے نزدیک ہر چیز صفر ہے ،تمہارے لئے میرے پاس صرف ریجکشن ہے اور کچھ نہیں اور آئندہ میرے سامنے آنے کی غلطی نہ کرنا ،ورنہ میں ہرگز کوئی لحاظ نہیں کروں گی۔
“ وہ انگاروں سے بھرا طشت اس پہ انڈلیتی تن فن کرتی باہر نکل گئی تھی اور شارق کیلئے پیچھے صرف پچھتاوے چھوڑ گئی تھی ،ساری زندگی کیلئے۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum