Episode 24 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 24 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

ساری رات وہ بے چینی سے کروٹیں بدلتی رہی تھی ،ذرا سی آنکھ لگتی بھی تو الٹے سیدھے وہم اسے پریشان کرنے لگتے ،پتہ نہیں وہ رواحہ کیلئے اتنا ٹچی کیوں ہو رہی تھی ،حالانکہ بات تو اتنی بڑی نہیں تھی ،سوتے جاگتے اس نے ساری رات کاٹی تھی۔
صبح ہوتے ہی اس نے الٹا سیدھا فارم فل کیا ماما کے ساتھ مل کے گھر کے کام نبٹائے اور لنچ ٹائم سے پہلے ہی فارم اور پراسپیکٹس اٹھا کے کھڑی ہوگئی۔
”ماما! میں ذرا نور کی طرف جا رہی ہوں ،رواحہ کو فارم دینا ہے وہ جمع کروا دے ،کہیں ڈیٹ نکل ہی نہ جائے۔“ کوئی نہ کوئی بہانہ تو تراشناہی تھا اور ویسے بھی اس کے پاس ایک معقول عذر موجود تھا۔
”ٹھیک ہے ذرا دھیان سے جانا۔“ ماما نے کہا تو وہ سر ہلاتی خدا حافظ کہہ کر نکل آئی۔
وہ سارا راستہ دعائیں کرتی آئی تھی کہ رواحہ گھر پہ ہی مل جائے اور شاید اس کی دعا قبول بھی ہو گئی تھی کیونکہ رواحہ کی گاڑی اسے پورچ میں نظر آ گئی تھی۔

(جاری ہے)

”کیسی ہو پروین؟“ لان میں ہی اسے پروین مل گئی تھی ،جو وہاں سے چائے اور لوازمات سمیٹ رہی تھی ،شاید کچھ دیر پہلے کوئی گیسٹ وغیرہ آئے تھے۔
”ٹھیک ہوں علیشا بی بی آپ کیسی ہیں؟ آپ کے بغیر گھر بڑا ہی سونا لگتا ہے جی میں تو کہتی ہوں آپ تو اپنی ماما کو لے کر یہاں ہی آ جائیں رونق ہو جائے گی۔“ پروین اسے دیکھ کر خوش ہو گئی تھی اور حسب عادت اسٹارٹ بھی ہو گئی تھی۔
”تم بھی بس بہت بولتی ہو ،نور کہاں ہے۔“ وہ اس کی بات پہ مسکرانے لگی۔
”نور بی بی تو پارلر گئی ہوئی ہیں جی ،آپ کو نہیں پتہ آج کل گھر میں رواحہ صاحب اور نور بی بی کی شادی کی باتیں چل رہی ہیں ،بڑا مزہ آئے گا سچی۔“ وہ بہت جوش سے بتا رہی تھی جبکہ علیشا کا دماغ دھک سے اڑ گیا تھا۔
”رواحہ اور نور…؟“ اسے دل کی دھڑکرن بند ہوتی محسوس ہوئی۔
”تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی پروین۔“ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا تھا۔
”لیں جی اس میں کہاں غلط فہمی ،میں نے خود اپنے کانوں سے سنا ہے اور آپ ادھر کیوں کھڑی ہو گئیں اندر آئیں ناں ،وہ مسز نیازی بھی آئی ہوئی ہیں ،بڑی بی بی کو پتہ چل گیا تو مجھے ڈانٹ پڑے گی آ جائیں۔“ وہ جلدی جلدی برتن سمیٹ کر ٹرالی میں رکھنے لگی۔
علیشا مردہ قدموں سے چلتی ہوئی اندر کی طرف بڑھ گئی ،اب گھر آ گئی تھی تو ملے بغیر ہی چلے جانا تو یقینا معیوب بات تھی ،تہمینہ آنٹی سے ملنے کی غرض سے وہ ڈرائینگ روم کی طرف چلی آئی۔
”مسز قاسم ،میں تو شروع ہی سے آپ سے کہتی آئی تھی کہ رواحہ کی شادی نور سے ہو جائے گھر کی بات گھر میں رہ جائے گی ،آپ کہاں دونوں کے رشتے تلاشتی پھریں گی۔
“ یہ غالباً مسز نیازی تھیں ،جو تہمینہ آنٹی کے اس فیصلے کو سراہ رہی تھیں۔
”میرے خدا۔“ اسے لگا اس کا دل پھٹ جائے گا۔
وہ تمام اخلاقیات کو بھلائے بھاگتی ہوئی وہاں سے نکلی تھی ،مزید سننے کا اس میں حوصلہ نہیں تھا ،پروین ہکا بکا اسے واپس جاتا دیکھ رہی تھی ،آنسو تھے کہ ایک تواتر سے بہے چلے جا رہے تھے ،اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کون سا راستہ ہے وہ کس طرف بھاگ رہی ہے۔
جیسے تیسے کرکے وہ گھر تک پہنچی تھی ،ڈپلی کیٹ چابی سے وہ دروازہ کھول کے اندر داخل ہوئی تھی ،ماما غالباً ظہر کی نماز ادا کر رہی تھیں ،اس نے شکر کیا کہ ان سے سامنا نہیں ہوا ،ورنہ وہ ایسے الجھے بکھرے حلیے کی کیا وجہ بیان کرتی۔
”رواحہ اور نور… نور اور رواحہ۔“ ایسا تو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
اسے بس اتنا علم تھا کہ رواحہ ،نور کاچچا زاد کزن تھا ،ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں رواحہ کے ماما پاپا اور ایک بہن کی وفات ہو گئی تھی تب سے تہمینہ آنٹی اور قاسم انکل نے ہی اسے اپنا بیٹا بنا لیا تھا ،اس سے زیادہ اس نے کبھی پوچھا ہی نہیں اور نہ ہی اس کی ضرورت تھی۔
اب اسے وہ باتیں یاد آ رہی تھی جن کی طرف پہلے کبھی اس کا دھیان نہیں گیا تھا ،رواحہ اور نور کا لڑنا جھگڑنا ایک دوسرے کیلئے پریشان ہونا ،چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنا ،برتھ ڈے پر وش کارڈ اور گفٹ دینا اور ڈھیر ساری ایسی باتیں۔
”علیشا! آ گئی تم ،چلو اچھا ہوا مل کے کھانا کھاتے ہیں۔“ ماما نماز پڑھ کے آئیں تو اسے لاؤنج میں بیٹھا دیکھ کر وہ مطمئن ہو گئی تھیں۔
”ماما! آپ ثاقب سبحانی کے گھر والوں کے ہاں کہلوا دیجئے ،وہ یقینا ایک اچھا لڑکا ہے۔‘ اس نے چند لمحوں میں ہی فیصلہ کر لیا تھا۔
”میں اب کچھ دیر آرام کروں گی۔“ وہ ان کی سوالیہ نظروں سے نگاہیں چراتی کھڑی ہوگئی تھی ،جس سوال کا جواب خود اس کے پاس نہیں تھا وہ ان کو کیسے دیتی…؟
###
”تم… تم سمجھتی کیا ہو خود کو؟“ دھاڑ سے دروازہ کھلا تھا اور رواحہ جارحانہ تیور لئے اندر داخل ہوتا دیکھ کر اس کا چہرہ ایک لمحے کیلئے فق ہوا تھا ،لیکن پھر وہ سنبھل گئی تھی۔
تہمینہ آنٹی اور قاسم انکل کے جتنے اس پر احسان تھے وہ ہرگز انہیں اپنی وجہ سے کوئی دکھ نہیں پہنچانا چاہتی تھی۔
”یہ ثاقب سبحانی والا کیا معاملہ ہے۔“ وہ اس کے سر پہ کھڑا پوچھ رہا تھا۔
”معاملہ کیا ہے ماما نے آپ کو بتایا ہوگا اس کا پرپوزل آیا تھا اور مجھے کوئی اعتراض نہیں۔“ وہ بظاہر نارمل نظر آنے کی کوشش کر رہی تھی ،لیکن اندر ہی اندر اسے رواحہ کے انداز ہولائے دے رہے تھے۔
”لیکن مجھے اعتراض ہے۔“ وہ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا۔
وہ اس کی بات نظر انداز کرکے دوبارہ اپنے کپڑوں کو وارڈ روب میں سیٹ کرنے لگی۔
”میری بکواس تمہیں سمجھ میں آ رہی ہے کہ نہیں۔“ وہ سخت برہم لہجے میں کہتا ہوا اس کا رخ اپنی طرف موڑ گیا۔
”لا یعنی باتوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔“ وہ ہونٹ چباتے ہوئے نگاہیں جھکا گئی۔
”میرے علم کے مطابق تو کل تک تمہیں ثاقب سبحانی سے کوئی وابستگی نہیں تھی یہ یکا یک تمہارے اندر اتنی پسندیدگی کہاں سے امڈ آئی۔“ وہ ٹٹولتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
”شادی کیلئے محبت کا ہونا ضروری تو نہیں ،وہ ایک اچھا انسان ہے ،ویسے بھی آپ اور نور اب اپنی شادی کی تیاری کریں ،آپ کا یہاں آنا اب مناسب نہیں ،آپ کو نور کے جذبات کا احساس کرنا چاہئے۔
“ اس نے ڈھکے چھپے الفاظ میں انگلیاں مروڑتے ہوئے نہایت رک رک کر اس سے کہا تھا۔
”کیا… آ… آ… میں اور نور…؟ دماغ درست ہے تمہارا۔“ وہ اچھل ہی تو پڑا۔
”ہاں ٹھیک ہی تو ہے میں اس دن آپ کے گھر آئی تو مجھے پروین نے بتایا تھا ،پھر مسز نیازی بھی تو یہی کہہ رہی تھیں اور ویسے بھی اس میں برائی کیا ہے بلکہ مجھے تو بہت…“
”بکواس بند کرو اپنی۔
“ اس نے دہاڑتے ہوئے اس کی بات درمیان میں ہی کاٹ دی تھی ،وہ سہم کر خاموش ہو گئی۔
”تم سے ایسی ہی کوئی فضول سی توقع تھی مجھے جانتی ہو میرا اور نور کا رشتہ کیا ہے؟ نور میری رضاعی بہن ہے۔“ اس نے بم ہی تو پھوڑا تھا اس کی سماعت پر۔
”لل لیکن… میں نے… اس دن… خود سنا تھا۔“ مارے حیرت کے الفاظ اس کا ساتھ چھوڑے جا رہے تھے۔
”تم اگر تھوڑی سی عقل استعمال کر لیتی یا پھر مسز نیازی کی پوری گفتگو سن لیتی یا کم از کم بڑی ماما کا جواب ہی سن لیتی تو شاید کوئی سیدھی بات تمہارے دماغ میں آ ہی جاتی۔
“ وہ سخت متاسف لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”آئم سوری… رواحہ… میں پتہ نہیں اس وقت مجھے کیا ہو گیا تھا۔“ ندامت کا گہرا احساس اسے اپنے حصار میں جکڑ رہا تھا ،جتنا سوچ رہی تھی اتنا ہی شرمندگی بڑھتی جا رہی تھی۔
”وہ تو شکر ہے ندرت آنٹی نے مجھے فون کرکے ثاقب سبحانی کے متعلق استفسار کیا تھا ورنہ میں تو بے موت مارا جاتا۔“ وہ اس کی کم عقلی پر سوائے ماتم کے اور کیا کر سکتا تھا۔
”آئم سوری اگین۔“ وہ جی بھر کے شرمندہ ہو رہی تھی ،ابھی تو شکر ہوا کہ نور کو اس کی بھنک نہیں پڑی تھی ،ورنہ وہ کس منہ سے اس کا سامنا کرتی۔
”اس سوری ووری کو چھوڑو ،آج شام میں بڑے پاپا اور بڑی ماما آ رہی ہیں میرا پرپوزل لے کر بولو منظور ہے۔“ وہ یکدم پینترا بدل کے بولا تھا ،علیشا کے رخساروں پر سرخی چھا گئی۔
”ایسے کیسے جواب دے سکتی ہوں ،سوچ سمجھ کے بتاؤں گی۔
“ وہ رخ موڑ گئی جبکہ دل پوری قوت سے دھڑک رہا تھا ،ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ سب کچھ پہلے جیسا ہو گیا ہے۔
”تمہاری سوچ کی تو ایسی کی تیسی۔“ وہ تلملا کے اس کے سامنے آیا تھا۔
”جلدی سے ہاں کہہ دو ورنہ میں شام میں مولوی صاحب کو ساتھ لے آؤں گا پھر نکاح پڑھوا کے ہی اٹھوں گا تاکہ پھر سے کوئی رقیب رو سیاہ نہ درمیان میں ٹپک پڑے۔
“ وہ اسے دھمکانے لگا۔
”یہ کیا کہہ رہے ہیں۔“ وہ ساری چوکڑی بھول کے بری طرح بوکھلا گئی۔
”میں بھلا کیوں انکار کروں گی اتنے اچھے تو ہیں آپ۔“ بوکھلاہٹ میں اس کے منہ سے پھسل تو گیا تھا جبکہ اس کا احساس ہوتے ہی اس نے زبان دانتوں تلے دبا لی تھی۔
”اچھا تو میں ہوں اس کا تو مجھے پکا پتہ ہے ،یہ بتاؤ تمہیں کتنا اچھا لگتا ہوں۔
“ اس کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں اور لہجہ لو دے رہا تھا۔
”بہت… بہت زیادہ۔“ لرزتی پلکیں اور حیا آلود لہجہ سیدھا اس کے دل میں اتر گیا تھا۔
”مجھ پر اعتماد کرنے کا بہت شکریہ ،اسے میری طرف سے انگیج منٹ رنگ سمجھنا کیونکہ میں اب ان چکروں میں پڑنے کی بجائے ڈائریکٹ رخصتی ہی کرواؤں گا۔“ اس نے اپنی جینز کی پاکٹ سے ایک خوبصورت ڈائمنڈ رنگ نکالی اور اس کی انگلی میں پہنا دی۔
علیشا کے دل میں ڈھیروں اطمینان اتر آیا ،شام کا اداس رستہ اسے الوداع کہہ چکا تھا اب ہر طرف نوخیز سحر کا اجالا پھیل رہا تھا۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum