Episode 25 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 25 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

تیری یاد شاخِ گلاب
”ہائے دادو! میں بہت اداس ہو جاؤں گا آپ کے بغیر۔“ رضی باقاعدہ دادو سے لپٹ گیا۔ لگاوٹ کا یہ مظاہرہ مجھے ایک آنکھ نہیں بھایا تھا۔
”خبیث انسان! کل کیسے بھنگڑے ڈال رہا تھا اور آج دیکھو جذبات کے مظاہرے۔“
میں دانت کچکچا کے رہ گئی۔
”اے میاں! خوب سمجھتی ہوں تمہیں ،دل میں تو لڈو پھوٹ رہے ہوں گے کہ چلو اب کچھ دن تو آرام سے کٹیں گے۔
“ دادو نے تو میرے منہ کی بات چھین لی تھی۔
”ہرگز نہیں دادو! یہ دل آپ کی محبت سے لبریز ہے۔“
رضی نے ایک اور ڈائیلاگ جھاڑا۔
”یہ دونوں تو مسخرے ہیں پورے امی جان!“ طلعت مسکراتے ہوئے بولیں۔ تو دادو بھی مسکرا دیں۔
”پھر تو انہیں سرکس میں ہونا چاہئے یہ یہاں کیا کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

“ عفرا کی زبان میں کھجلی ہوئی۔

”یہ آل ریڈی سرکس میں ہی ہیں عفرا!“ میں کیوں پیچھے رہتی۔
”حد ادب لڑکیو!“ رضی کے ساتھ ساتھ فرغام بھی میدان میں کودا۔
”عفرا! میں نے تمہیں کہا تھا ایک مرتبہ اپنی دادو کا سامان پھر چیک کر لو اگر مزید کچھ چاہئے ہو تو وہ بھی پوچھ کے رکھ دو۔“ شمیم نے اندر آتے ہی کہا۔
”جی ماما! میں نے چیک کر لیا تھا۔“ عفرا نے فوراً کہا۔
”زونیہ! پلین میں اپنی دادو کا خیال رکھنا۔ مجھے فکر ہی رہے گی میں تو کہہ رہی تھی کہ رضی یا فرغام میں سے کوئی تمہاری دادو کے ساتھ چلتا لیکن تم نے ہی منع کر دیا کہ میں جو ہوں پھر ان کی کیا ضرورت ہے۔
ایک تو مجھے تمہاری بھی فکر رہتی ہے۔ اب تین ،چار گھنٹوں تک یہاں سے وہاں مارچ پاسٹ کرتی رہو گی۔ درمیان میں جوس وغیرہ بھی لے لیا کرو یہ نہ ہو چکرا کے وہیں کہیں ڈھیر ہو جاؤ۔“
شمیم چچی جب بولنے پہ آتی تھیں تو کم ہی کسی کی سنتی تھیں۔ ان کے بولنے کی تو مجھے اتنی فکر نہیں تھی البتہ رضی اور فرغام کی خونخوار نگاہوں نے مجھے ضرور خبردار کا سگنل دے دیا تھا انہیں ہرگز علم نہیں تھا کہ ان کے اتنے اچھے چانس پر میں نے لات ماری ہے۔
”انہوں نے کیا خاک خیال رکھنا ہے انہیں تو خود اپنی خبر نہیں ہوتی۔ مجھے تو لگتا ہے آج کل میں ایئر لائن والے بس انہیں ٹکا سا جواب دینے ہی والے ہیں کہ جاؤ بی بی! ہماری قوت برداشت جواب دے گئی ہے پتہ نہیں اسی سڑی ہوئی شکل کو انہوں نے بطور ایئر ہوسٹس اپائنٹ کر کیسے لیا۔“
رضی کا تلملایا ہوا لہجہ مجھے مزا دے گیا۔ اسے اگر پہلے علم ہو جاتا کہ اس کے اور دوبئی کی آزاد فضاؤں کے درمیان رکاوٹ میں نے حائل کی ہے تو یقینا وہ اب تک مجھے کچا ہی چبا چکا ہوتا۔
لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ،کیونکہ آج ہی دادو کی فلائٹ تھی چند گھنٹوں بعد۔
”ہاں ہاں آ جانا تم۔ تمہارے پاس ہی رکیں گی۔ نہیں رضی نہیں آئے گا زونیہ کی ڈیوٹی اسی فلائٹ میں ہے وہ ساتھ ہی ہو گی۔
نہیں یار! ہماری بیٹی اب بڑی ہو گئی ہے۔“ عامر چچا نے قہقہہ لگایا۔ سیل فون کان سے لگائے وہ ادھر ہی آ رہے تھے۔
”اوکے ٹھیک ہے پھر اللہ حافظ!“ سیل آف کرکے انہوں نے سینٹرل ٹیبل پہ رکھا اور دادو کے پاس ہی صوفے پہ بیٹھ گئے۔
”سمعان کا فون تھا امی جان! آپ کے آنے کا پوچھ رہا تھا۔ ”عامر چچا دادو کو بتا رہے تھے جبکہ میں نے معنی خیز نظروں سے عفرا کو دیکھا وہ خواہ مخواہ ہی جھینپ گئی۔
”چلو بیٹا! تیاری پکڑو۔ ٹائم ہونے والا ہے۔“ عامر چچا نے کلائی پہ بندھی گھڑی پہ وقت دیکھتے ہوئے کہا۔ میں اپنا ہینڈ بیگ لینے کیلئے کمرے میں آئی تو عفرا بھی میرے پیچھے چلی آئی۔
”ہاں عفرا! اگر کوئی میسج وغیرہ دینا ہو اپنے اس کو تو دے دو دادو کو ریسیو کرنے وہی آئے گا۔“ میں نے ہینڈ بیگ میں اپنی چیزوں کی تسلی کرتے ہوئے عفرا کو مخاطب کیا۔ جو متذبذب سی مجھے دیکھ رہی تھی۔
”تمہارا کل والا میسج یاد ہے مجھے اگر کچھ اور کہنا ہو تو بتا دو۔“ میں نے شولڈر بیگ کا اسٹریپ کندھے پہ جمایا ایک نظر آئینے میں اپنا سرسری سا جائزہ لیا اور عفرا کی طرف مڑ گئی۔
”وہ… زون!“ تمہیں تو پتہ ہے سمعان کو کون سی اتنی عقل ہے جو دادو…“
”ظاہری بات ہے بھئی! کم عقل ہے تو تمہیں پسند کیا ہے ورنہ اتنے ہوش مند انسان سے مجھے اتنی بے وقوفی کی توقع ہرگز نہیں تھی۔“
میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا تو وہ دریدہ نظروں سے مجھے گھور کے رہ گئی۔ ظاہر ہے اس وقت کچھ کہہ کے وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھی۔
”تم خود دادو سے بات کر لینا پلیز… تم تو ویسے بھی دادو کی چہیتی ہو۔ تمہاری تو وہ ہر بات مان لیتی ہیں زون! پلیز۔“ وہ ملجی لہجے میں بولی۔
”تمہاری عقل تو سلامت ہے عفرا! میں اب کس وقت دادو سے بات کروں گی۔“ مجھے کرنٹ لگا تھا۔
دادو سے اس موضوع پر بات کرنے کا مطلب تھا اپنے پاؤں پہ خود کلہاڑی مارنا اور مجھے اپنے پاؤں فی الحال بہت عزیز تھے۔
”زونیہ! پلیز دس منٹ لگیں گے۔ تم تو اتنے سلیقے سے بات کرتی ہو۔“
”ہاں سلیقہ تو ختم ہے مجھ پر۔“
میں چڑ کے بولی تو عفرا مسکرا دی۔ اسے گھورتے ہوئے میں باہر نکل گئی جہاں عامر چچا آوازیں دے رہے تھے۔
”تم نے اپنی بدبختی کو خود آواز دی ہے لڑکی!“ میں ماما سے دعا لینے کے بعد پلٹی تو رضی اور قرغام کو خوفناک تیوروں سے اپنی جانب گھورتے ہوئے پایا۔
”واپسی پہ خود کو تیار رکھنا ہم تمہیں مہلت دینے والے نہیں۔“ فرغام نے مجھے دھمکایا۔
”کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔“
میں اس کی بات کو چٹکی میں اڑاتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ گئی تو وہ ہوا میں مکا لہرا کے رہ گیا۔
دادو کی ایک ہی بہن تھیں زرتاج جو کہ ہندوستان میں رہتی تھیں۔ دونوں بہنوں کا ٹیلیفون پہ تو رابطہ رہتا تھا لیکن آنا جانا کم ہی ہوتا تھا۔
کیونکہ دونوں ممالک کے کشیدہ حالات کی بناء پر پاکستان سے انڈیا جانا کوئی اتنا آسان بھی نہ تھا۔ اس کیلئے دادو کو پہلے دوبئی جانا پڑتا تھا اور پھر دوبئی سے انڈیا ،دوبئی میں ان کی اکلوتی پھپھو حفصہ رہتی تھیں۔ اس مرتبہ حفصہ پھپھو کو دادو کے ساتھ انڈیا جانا تھا۔ لہٰذا دادو کو پہلے چند دن حفصہ پھپھو کے ہاں قیام کرنا تھا اور پھر وہاں سے انڈیا روانہ ہونا تھا۔
اس مرتبہ دادو کا ٹور ذرا طویل تھا۔ اسی لئے وہ سب اداس ہو گئے تھے کیونکہ دادو کے دم سے ہی اس گھر میں رونق تھی۔
###
”دیکھیں نا دادو! عفرا کا انجینئرنگ کا تھرڈ ایئر ہے ایک ،دو سالوں میں وہ فارغ ہو جائے گی تب تک سرفراز انکل اپنا بزنس وہاں سے وائنڈ اپ کرکے سہولت سے پاکستان میں ایڈجسٹ ہو سکتے ہیں اور ویسے بھی ان کی کون سی لمبی ،چوڑی فیملی ہے دو بیٹے ہی تو ہیں۔
آپ جا تو رہی ہیں اس بارے میں حفصہ پھپھو اور سرفراز انکل سے حتمی بات کیجئے گا۔“ دادو کو ان کی مطلوبہ سیٹ پر بٹھا کے میں ان کے ساتھ والی سیٹ پہ ہی بیٹھ گئی تھی جو فی الحال خالی تھی جہاز میں ابھی اکا دکا لوگ ہی نظر آ رہے تھے۔ وہ بھی سکیورٹی سے متعلق مسافر تو زیادہ تر ڈیپارچر لاؤنج میں تھے میں دادو کو پہلے ہی لے آئی تھی۔
سمعان کی پسند سے اس کی اور عفرا کی منگنی ہو چکی تھی جبکہ عفرا بیاہ کر دوبئی ہرگز نہیں جانا چاہ رہی تھی۔
سرفراز انکل نے کہا تو تھا کہ وہ پاکستان شفٹ ہونا چاہ رہے ہیں۔ لیکن اس بات کے فی الحال تو کوئی اثرات نظر نہیں آ رہے تھے اور یہی بات عفرا کو ہولائے دے رہی تھی۔ کیونکہ اس کا فائنل کمپلیٹ ہوتے ہی سمعان کا شادی کا ارادہ تھا وہ صبر کرنے والوں میں سے ہرگز نہیں تھا۔ اس کا تو فائنل تک رک جانا ہی معجزے سے کم نہیں تھا۔
”ان سے تو میں بات کر ہی لوں گی۔
لیکن ایک بات میں کہے دیتی ہوں عفرا کی شادی تم سے پہلے ہرگز نہیں ہو گی۔ تم بڑی ہو پہلا نمبر تمہارا ہے پہلے تم پھر عفرا۔“ وہ دو ٹوک لہجے میں بولیں۔
”افوہ! یہ کیا فضول بات ہوئی۔“ یہ وہ واحد موضوع تھا جس پہ میں بری طرح جھنجھلا جاتی تھی۔
”فضول بات نہیں اصول کی بات ہے۔“ ان کا اطمینان جوں کا توں برقرار تھا۔
”کوئی اصولی بات نہیں ہے۔
بس عفرا کا مناسب رشتہ موجود ہے تو مناسب وقت پہ اس کی شادی کر دیں۔ خواہ مخواہ بٹھائے رکھنا کہاں کی عقملندی ہے۔“
اب مسافر آنا شروع ہو گئے تھے اور میں جلد از جلد اس ٹاپک کو کلوز کرکے اٹھ جانا چاہتی تھی۔
”یہ بھی خوب کہی تم نے ،تمہیں خوا مخواہ بٹھائے رکھنا دانشمندی کی علامت ہے اور اسے بٹھانا جہالت ہے۔ کیا تمہارے لئے مناسب وقت نہیں ہے یا مناسب رشتہ نہیں ہے۔
بس بہت ہو گئی من مانی تمہاری ،ہم نے تم سے قلعے فتح نہیں کروانے جو بٹھائے رکھیں۔“ دادو تو اردگرد کی پروا کئے بغیر بول رہی تھیں جبکہ میری جھنجھلاہٹ اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔
”مجھے نہیں کرنی ابھی شادی وادی۔ نرا جھنجھٹ ہے۔ فضول میں شوہر جیسی مخلوق کی خدمت گزاری اور جی حضوری مجھ سے نہیں ہوتی۔ خوا مخواہ آگے پیچھے پھروان کے۔“
میں جھلاہٹ میں اپنے دل کی بات عیاں کر گئی۔
میرے خیالات نے دادو کو جلتے توے پر بٹھا دیا تھا۔ اگر میں اس وقت گھر میں ہوتی تو یقینا دو ،چار دھمو کے میری خیریت دریافت کر چکے ہوتے۔
”ایکسکیوزمی مس! آئی تھنک یہ میری سیٹ ہے۔“ اجنبی آواز پہ میں نے سر اٹھایا تو اپنے سامنے ڈیشنگ سی پرسنالٹی والے بندے کو کھڑا دیکھ کر ایک لمحے کیلئے گڑبڑا گئی۔ وہ پتہ نہیں کب سے کھڑا میرے نادر خیالات سن رہا تھا۔
اپنے آپ پہ چار حرف بھیجتے ہوئے میں فوراً کھڑی ہو گئی۔
”سوری۔“ بڑی پروفیشنل سی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے میں نے کہا۔
”زونیہ!“ میں ابھی مڑی ہی تھی کہ دادو کی آواز آئی۔
”دادو! پھر بات کریں گے مجھے اساور بلا رہی ہے۔“ دادو سے کچھ بعید نہیں تھا اس اجنبی کے سامنے ہی کھاتہ کھول کے بیٹھ جاتیں۔ غصے میں تو وہ اپنی اولاد کا لحاظ نہیں رکھتی تھیں اور میں تو پھر ان کی اولاد کی اولاد تھی۔
”کیا بات ہے یہ مکھڑا کیوں اتنا لال کر رکھا ہے۔“ میں اپنے کیبن میں داخل ہوئی ہی تھی کہ اساور مجھے دیکھتے ہی بول اٹھی۔
”اس کا مکھڑا تو قدرتی طور پر لال ہے مزید لالی کی گنجائش نہیں۔ قسم سے زونیہ! میں اگر ینگ پائلٹ ہوتی تو اب تک تمہیں پرپوز کر چکی ہوتی۔“ مہرو نے میری طرف دیکھتے ہوئے ایک آنکھ دبائی تو میں اسے گھور کے رہ گئی۔
”ساری پنڈال تو ادھر جمع ہے اور باہر مجھ بے چاری اکیلی کو پھنسایا ہوا ہے۔“ ثمن نے کیبن کا دروازہ کھول کے اندر جھانک۔
”آ رہے ہیں بابا! آ رہے ہیں۔“
اساور نے اپنا جائزہ لینا ترک کرکے کہا اور پھر ہم تینوں ہی باہر نکل گئیں۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum