Episode 26 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 26 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

جہاز لینڈ کرنے والا تھا۔ لاؤڈ اسپیکر پہ تمام مسافروں کو سیٹ بیلٹ باندھنے کی ہدایت دی جا رہی تھی۔ میں اپنی ذمہ داری نباہنے کیلئے دادو کے پاس آئی۔
”دادو! بیلٹ باندھ لیں۔“
”سن لیا ہے میں نے۔“ دادو کی خفگی ہنوز برقرار تھی۔ ان کے برابر بیٹھے شخص کے ہونٹوں پہ بے ساختہ مسکراہٹ ابھری تھی۔ میں خجل سی مسکراہٹ سمیت آگے بڑھ گئی۔
”پوتی ہے میری۔ ویسے تو میری ہر بات مانتی ہے لیکن ایک اسی بات پہ اڑ جاتی ہے۔“ دادو اب اپنے برابر بیٹھے شخص سے مخاطب ہوئیں تو وہ ان کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”کون سی بات۔“ اس نے دلچسپی ظاہر کی۔
”یہی شادی والی۔ اچھا خاصا ایک ڈاکٹر کا پرپوزل آیا ہے لیکن صاحبزادی کے نخرے دیکھو مجھے نہیں کرنی کسی ڈاکٹر سے شادی ہر وقت دوائیوں کی بو سے بھرے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

“ انکار کا یہ جواز سن کے اس کا قہقہہ آزاد ہوتے ہوتے رہ گیا۔
”دو ہی پوتیاں ہیں میری دونوں یہ نرالی ہیں۔ زونیہ کو ایئر ہوسٹس بننے کا شوق چرایا تو ادھر آ گئی اور عفرا بی بی خیر سے انجینئرنگ کر رہی ہے۔ لڑکی ذات ہو کے اب کیا وہ سڑکیں ناپتی ،کاٹتی اچھی لے گی۔“ دادو کو تو ایک سامع میسر آ گیا تھا۔ لہٰذا وہ کھل کے بول رہی تھیں۔
”معاشرہ ترقی کر رہا ہے اب تو خواتین ہر شعبے میں حصہ لے رہی ہیں۔
“ اس نے اپنی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
”وہ تو ٹھیک ہے بیٹا! لیکن ہمارا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ پوتیاں جتنی لائق فائق ہیں پوتے اتنے ہی نالائق اور نکمے ہیں۔ اب اپنے باپ کا بزنس تو انہوں نے ہی سنبھالنا ہے۔ بیٹیاں تو بیاہ کے اپنے گھر چلی جائیں گی۔ پر کون سمجھائے انہیں ،اللہ ہدایت دے ویسے بیٹا! تم کون ہو ،کہاں رہتے ہو؟“ بالآخر اپنی باتوں کے دوران انہیں اس کا خیال آ ہی گیا۔
”میں آریز ابراہیم ہوں اسی شہر میں رہتا ہوں۔ کچھ مشینری وغیرہ خریدنے کی غرض سے دوبئی جا رہا ہوں۔“
اماں بی سے اسے کافی رغبت محسوس ہو رہی تھی شاید اس کی وجہ ان کی وہ ہیزل گرین آنکھوں والی پوتی تھی جو پہلی ہی نظر میں اسے منفرد لگی تھی۔
”میرے بھی دونوں بیٹے اسی کام سے وابستہ ہیں شاید تم جانتے بھی ہو عازم اور عامر نام ہیں ان کے۔
”ہاں شاید کسی پارٹی میں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ کچھ اتنا یاد نہیں ہے۔ پاپا کو علم ہوگا۔ دراصل میں پڑھائی کی خاطر بورڈنگ میں تھا اور بزنس جوائن کئے مجھے ابھی اتنا عرصہ نہیں ہوا۔“ اپنی یاد داشت کو کھنگالتے ہوئے اس نے جواب دیا تھا۔ اسی وقت ان کی پوتی چلی آئی۔ جو مسافروں کو جوس سرو کر رہی تھی۔
”سوری میں جوس نہیں پیتا مجھے چائے لا دیں۔
“ اپنی دادو کو جوس دینے کے بعد جب اس نے جوس کا گلاس آریز کی طرف بڑھایا تو وہ فوراً بول اٹھا۔ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے وہ آگے بڑھنے ہی لگی تھی جب دادو نے اسے پکار لیا۔
”زونیہ! تم بھی کچھ ہلکا پھلکا لے لینا صبح تو تم نے ڈھنگ سے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا۔ دادو کو غالباً کچھ دیر پہلے والی خفگی بھول گئی تھی جب ہی لہجے سے فکر مندی چھلک رہی تھی جبکہ میں نے ناراضی کے اظہار کے طور پر خفا خفا نظروں سے دادو کو دیکھا تھا۔
وہ پتہ نہیں سمجھیں یا نہیں البتہ ان کے ساتھ بیٹھا شخص بول اٹھا تھا۔
”بڑوں کی بات مان لینے میں نقصان نہیں فائدہ ہی ہوتا ہے۔“ وہ مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ جی تو میرا چاہا کہہ دوں کہ مسٹر آپ سے مطلب لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میں اس وقت آن ڈیوٹی تھی اور جواب دینے کی پوزیشن میں نہ تھی شاید وہ بھی یہ بات جانتا تھا اسی لئے تو اس کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔
”اب اچھے بچوں کی طرح جائیں اور کچھ کھا لیں۔“
”تمہیں نہ کھا جاؤں وہ بھی کچا ہی۔“
میں دل ہی دل میں بڑبڑائی اور بظاہر مسکراتے ہوئے ٹرالی دھکیلتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔ اساور مسافروں کو کھانا سرو کر رہی تھی میں بھی اس کے ساتھ ہی تھی۔
”مس زونیہ!“
میں اپنی دھن میں تھی جب مردانہ پکار آئی وہ بھی میرے نام کی۔ میں چونک کے پلٹی۔
دادو کے برابر بیٹھا وہی شخص متبسم نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
”جی فرمایئے۔“ میں نے شائستہ لہجے میں کہا۔
”یہ کپ لے لیں۔ ویسے چائے کافی پھیکی اور بدمزا سی تھی۔“ وہی متبسم و شریر نگاہیں مجھے تپا گئیں۔ اس وقت تک کپ ہاتھ میں تھامے وہ غالباً میرے ہی انتظار میں بیٹھا تھا اور میرے دل نے شدت سے دو خواہشیں کی تھیں۔ ایک تو یہ کپ ڈسپوز ایبل نہ ہو اور دوسرا یہ شخص کہیں اور ہوتا تو میں یقینا یہ کپ اس کے سر پہ دے مارتی۔
حالانکہ میں اچھی خاصی متحمل مزاج لڑکی تھی اور یہ جاب کرنے سے تو ویسے بھی میرے اندر درگزر کی صفت بڑھ گئی تھی۔ اب پتہ نہیں اس شخص کی آنکھوں اور ہونٹوں پہ کیسی زچ کرنے والی مسکراہٹ تھی کہ میرا صبر جواب دینے لگا تھا۔
”اوہ… سوری فار ڈیٹ۔“ اپنی جھنجھلاہٹ کو میں نے بمشکل مسکراہٹ میں تبدیل کیا اور کپ اس کے ہاتھ سے تھام لیا۔ اس کے بعد تو گویا میں نے وہاں سے نہ گزرنے کی قسم کھا لی۔
اللہ اللہ کرکے جہاز دوبئی ایئر پورٹ پہ اترا تو میں نے سکھ کا سانس لیا۔ سامان وغیرہ کی کلیئرنس کروانے کے بعد میں سمعان کی تلاش میں نگاہیں دوڑا رہی تھی۔ جب بالکل میرے قریب سے آواز ابھری۔
”آپ مجھے سے ناراض ہیں کیا؟“ وہ بدتمیز شخص تو جونک کی طرح چمٹ گیا تھا۔
”خوا مخواہ زیادہ اسمارٹ بننے کی ضرورت نہیں مسٹر! اپنا رستہ ناپیں۔
“ میں اس وقت آن ڈیوٹی ہرگز نہیں تھی لہٰذا لحاظ رکھنے کی میں نے کوئی خاص ضرورت نہیں سمجھی۔
”ارے آرینر بیٹا! تم کدھر نکل گئے تھے میں تمہیں ہی تلاش کر رہی تھی۔ کوئی ضرورت نہیں ہے ٹیکسی ویکسی لینے کی۔ میرا نواسا آ گیا ہو گا وہی ڈراپ کر دے گا تمہیں بھی۔“ دادو تو اسے دیکھ کے کھل اٹھی تھیں مجھے اچھی خاصی کوفت ہوئی تھی۔
”جان نہ پہچان میں تیرا مہمان،“ میں منہ ہی منہ میں بدبدائی۔
”مجھے کچھ کہا آپ نے۔“ اب پتہ نہیں مقابل کی سماعت واقعی تیز تھی یا اسے قوی امید تھی کہ اسی کے بارے میں بڑبڑاہٹ کی گئی ہو گی۔ میں دوسری طرف منہ کرکے سمعان کو دیکھنے لگی۔
”تم کیا زرافے کی طرح گردن اکڑائے کھڑی ہو“ سمعان کی مسکراتی ہوئی آواز پہ میں اچھل کر سیدھی ہوئی۔ دادو سے ملنے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوا۔
”خود کو دیکھا ہے کبھی آئینے میں ڈائنو سار ہو پورے۔
“ ہم سب کزنز اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کو فرض عین سمجھتے تھے۔
”گھر میں سب کیسے ہیں سمعان!“ وہ جو کچھ کہنے کیلئے منہ کھول ہی رہا تھا دادو کی بات پہ رک گیا۔
”گھر چل کے دیکھ لیجئے گا نانو جان!“ اس کے جواب پہ انہوں نے گھور کے اسے دیکھا تھا۔
”تمہاری فلائٹ اب کہیں آگے ہے یا واپس پاکستان۔“ اب وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔
”واپس پاکستان۔
’تو چلو پھر گھر سے ہی ہو آؤ ممی تمہارا ویٹ کر رہی ہیں۔“
”سوری سمعان! میں اب کچھ دیر ریسٹ کروں گی۔ پھپھو اور انکل کو میرا بہت زیادہ سلام دینا۔“ میں نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔
”تمہیں پتہ تو ہے اس ڈیوٹی میں فریش رہنا پڑتا ہے۔“
”پھر میرے ساتھ ہی چلو ڈراپ کر دیتا ہوں تمہیں ہوٹل تک۔“ اس کا کیئرنگ انداز مجھے ہمیشہ سے پسند تھا۔
”تھینکس بٹ پک اینڈ ڈراپ کی سہولت مجھے میسر ہے۔“ اسے کہتے ہوئے میں دادو سے ملی۔ عفرا کا دیا ہوا گفٹ اسے تھمایا۔ جواباً اس نے مجھے بھی اور عفرا کو بھی گفٹ دیا تھا۔
ان دونوں کو الوداعی کلمات کہتے ہوئے میں پلٹی تو غیر ارادی طور پر میں نے آریز کو اپنے دائیں بائیں تلاش کیا تھا۔ سمعان سے باتوں میں لگ کر میرا دھیان اس کی طرف سے ہٹ گیا تھا۔
اسی دوران شاید وہ وہاں سے کھسک گیا تھا۔ گہری سانس خارج کرتے ہوئے میں وہاں سے آگے بڑھنے ہی لگی تھی۔ جب پتہ نہیں لوگوں کے ہجوم میں سے وہ کہاں سے نمودار ہوا تھا۔
”مجھے تلاش کر رہی تھیں…“ یوں سرعام اپنی چوری پکڑے جانے پہ میں ایک دم سٹپٹا گئی۔ اس کے لبوں کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔
”زونیہ! جلد آؤ بھئی تمہارا ہی انتظار ہو رہا ہے۔“ اساور نے دور ہی سے مجھے دیکھتے ہوئے آواز لگائی تھی۔ میں اس کی سائیڈ سے نکلتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
”اب پاکستان میں ہی ملاقات ہو گی انشاء اللہ!“ اپنے عقب سے مجھے اس کی آواز سنائی دی تو میں نے اپنے قدموں کی رفتار بڑھا دی۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum