Episode 28 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 28 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

”جی دادو!“ میں سعادت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً چائے کی ٹرالی کی طرف متوجہ ہوئی۔ دادو‘ ماما اور عامر چچا کو چائے دینے کے بعد میں نے جیسے ہی اس کیلئے چائے کپ میں انڈیلی اچانک ہی مجھے اس کے پلین میں کہے گئے الفاظ یاد آ گئے۔
”ویسے چائے کافی پھیکی اور بدمزا سی تھی۔“ میں نے بلا مبالغہ تین ،چار چمچے چینی کے کپ میں ڈال دیئے۔ اس بات کی پروا کئے بغیر وہ ہمارے گھر مہمان ہے۔
”یہ لیں چائے۔“ کپ میں موجود مٹھاس سے زیادہ شیرینی اس وقت میرے لہجے میں تھی۔ آریز نے قدرے حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے کپ تھاما تھا۔ اپنے ابلتے قہقہے کو روکتے ہوئے میں نے باقیوں کو چائے سرو کی۔
”یہ کباب لیں نا آپ۔“ میں نے شرارت آنکھوں میں سمو کر کباب کی پلیٹ اس کے آگے کی وہ یقینا چائے کو ٹیسٹ کر چکا تھا۔

(جاری ہے)

کیونکہ کبابوں کو وہ خاصی مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

”کھاؤ نا یار! اپنی زونیہ کی کونگ تو بڑی مشہور ہے۔“
رضی نے کہنے کے ساتھ ہی کباب پلیٹ سے اٹھایا۔ چارو ناچار آریز کو بھی اس کی تقلید کرنی پڑی لیکن پھر شکر کیا کہ کبابوں میں کوئی تخریب کاری نہیں تھی۔
”طلعت! کھانے وانے کا انتظار کرو۔ آریز کھانا کھا کر ہی جائے گا۔“ دادو نے کہا تو وہ فوراً بول پڑا۔
”نہیں دادو! بہت بہت شکریہ! ڈیڈی کھانے پہ میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔
میں تو یونہی ادھر سے کسی کام سے گزرا تھا تو سوچا آپ سب سے ملتا چلوں۔“
”بہت اچھا کیا تم نے بیٹا! یہ بھی تمہارا اپنا ہی گھر ہے۔ آجایا کرو! ملنے ملانے سے ہی محبت بڑھتی ہے۔“
دادو کو خوامخواہ ہی اس کی اتنی فکر کھائے جا رہی تھی۔
”جی دادو! محبت ہی تو چاہئے آپ کی۔“ نظریں مجھ پہ جماتے ہوئے اس نے یہ فقرہ ادا کیا تھا۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اس کا لہجہ معنی خیز سا محسوس ہوا میں جز بز ہو کے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
”محبت کی تم فکر نہ کرو۔ وہ یہاں وافر مقدار میں موجود ہے۔“ فرغام نے فرنچ فرائز پہ ہاتھ صاف کرتے ہوئے اسے یقین دیا تھا۔
”فی الحال تو عداوت ہی نظر آ رہی ہے۔“ لبوں پہ شوخ مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے اس نے بظاہر مذاق سے کہا تھا۔ میں نے قدرے برہمی سے نظریں اٹھا کے اسے دیکھنا چاہا تھا۔ لیکن اس کی گہری سیاہ آنکھوں میں نجانے کیا بات تھی کہ میں نے گھبرا کے نگاہیں جھکا لیں۔
”عداوت تو آپ کے دشمنوں کو ہو گی ہم تو آپ کے دوست ہیں۔“ عفرا نے بھی گفتگو میں حصہ لای۔
”دعا کیا کرو گڑیا! دشمن ،دوست بن جائیں ورنہ یہ چائے تو…“ اس کے آخری ادھورے جملے کا مطلب فقط میں ہی سمجھ پائی تھی۔ جی تو چاہا طبیعت درست کر دوں موصوف کی۔
”اوکے انکل! اب اجازت دیں۔“ میں چائے کے برتن اٹھا کے ٹرالی میں رکھ رہی تھی۔
جب وہ کھڑے ہوتے ہوئے عامر چچا سے مخاطب ہوا۔
”ایسے تو نہیں بیٹا! کھانا کھائے بغیر تو تم نہیں جا سکتے۔“
عامر چچا اصرار کرنے لگے۔ لیکن اس نے بڑے سلیقے سے معذرت کر لی۔ رضی اور فرغام بھی اس کے ساتھ ہی کھڑے ہو گئے۔ ان دونوں کے درمیان کھڑا وہ قد کاٹھ اور جاہت میں دونوں سے ہی نمایاں ہو رہا تھا۔ دمکتی سنہری رنگت ،کشادہ پیشانی ،گہری سیاہ آنکھیں ،بھرے بھرے عنابی ہونٹ ،سلیقے سے جمے بال ،اونچا لمبا قد میں بے اختیاری میں ہی اسے دیکھے گئی۔
”اچھا لگ رہا ہوں نا۔“ وہ ذرا سا میری طرف جھکا اور میرے سٹپٹا کے نگاہیں جھکانے پہ آریز کے لبوں پہ تبسم پھیل گیا۔ جی تو چاہا کچھ دیر مزید رک جائے یا پھر وقت ہی کچھ دیر کیلئے تھم جائے۔ لیکن ڈیڈی نے جاتے وقت اسے تاکید کی تھی۔
”بیٹا جی! زیادہ دیر نہ رکنا وہاں۔ امپریشن خراب ہوتا ہے ویسے بھی سسرال میں اتنی دیر نہیں رکتے۔“ ڈیڈی کے سسرال کہنے پہ وہ اچھا خاصا جھینپ گیا تھا۔
”یاد رکھنا پھر آریز! تمہارا لنچ ڈیو ہے ہماری طرف۔“
عامر چچا نے بالاخر اسے اجازت دے ہی دی تھی۔
”وائے ناٹ۔“ وہ مسکراتے ہوئے دادو سے پیار لینے کیلئے ان کے سامنے سر جھکاتے ہوئے بولا۔
”بڑی خوشی ہوئی تم سے مل کر بیٹا! اللہ تمہیں لمبی عمر اور خوشیاں دے۔“ دادو نے نہایت محبت سے دعا دی۔
”ویسے چائے نہایت پھیکی اور بدمزا سی تھی۔
“ میرے قریب سے گزرتے ہوئے وہ کہہ گیا تو میں سلگ کے رہ گئی۔
”بہت اچھے ہیں آریز بھائی اور ان کے ڈیڈی بھی۔ جس دن ہم ان کے گھر گئے تھے بہت مزا آیا تھا۔ آریز بھائی نے خود ہمارے لئے چائے بنائی تھی اور تو اور آریز بھائی سلاد بہت مزے کا بناتے ہیں اور رضی تو…“
”بند کرو اپنا یہ آریز نامہ۔“ میں چڑ کے بولی تو عفرا جو آریز کی تعریف میں رطب اللسان تھی۔
حیران ہو کے مجھے دیکھنے لگی۔
”ایں… تمہیں کیا ہوا ہے۔“
”دماغ خراب ہو گیا ہے میرا۔“ سابقہ لہجے میں کہتی میں ایک جھٹکے سے ٹرالی گھسیٹتے باہر آ گئی۔ میں تو اپنی کیفیت پہ خود حیران ہو گئی تھی مجھے ہو کیا رہا تھا۔
واقعی مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ بس آ جا کے ذہن ایک ہی شخص پہ اٹک جاتا تھا۔ شاید اس کی مسکراتی آنکھوں ،ذو معنی باتوں اور اچانک ملاقات نے مجھے ڈسٹرب کیا تھا۔
”لیکن زونیہ عازم! اس میں ڈسٹرب ہونے والی تو سرے سے کوئی بات ہی نہیں۔“ خود کو سرزنش کرتے ہوئے میں سنک میں پڑے برتن دھونے لگی۔
###
”کہاں بجلی گرانے کا ارادہ ہے۔“ ایش گرے ٹوپیس میں خود پہ کلون کی پوری شیشی چھڑکتے ہوئے وہ آئینے میں ناقدانہ نظروں سے اپنا جائزہ لے رہا تھا۔ جب ڈیڈی نے اس کے عقب میں کھڑے ہوتے ہوئے شرارت سے پوچھا۔
”دعا کریں آپ کی بہو پہ گر جائے۔“ وہ بھی شوخ ہوا ان کا بے ساختہ قہقہہ ابلا تھا۔
”بہو کی خوب کہی تم نے اب تک میں نے تو اپنی بہو دیکھی ہی نہیں۔ خود ہی دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہو۔“
وہ مصنوعی خفگی سے اسے دیکھنے لگے۔
”اب میں آپ کو کیسے دکھاؤں۔ آپ جب بھی عازم انکل کی طرف گئے ہیں زونیہ وہاں پہ ہوتی ہی نہیں اور ہمارے گھر وہ سرے سے آئی ہی نہیں۔
اب ایک ہی طریقہ ہو سکتا ہے کہ آپ جب بھی بائے ایئر سفر کریں تو ایئر ہوسٹس کو غور سے دیکھیں شاید ان میں سے کوئی۔“
”یہ بودا مشورہ اپنے پاس ہی رکھو پچھلے دنوں جب میری شارجہ کی فلائٹ تھی تو میں نے ہر ایئر ہوسٹس کو اتنے غور سے دیکھا تھا کہ وہ سب کی سب میری طرف سے مشکوک ہو گئی تھیں۔ لیکن میں ان سے ایک بھی تمہاری وہ ہیزل گرین آنکھوں والی زونیہ نہیں تھی۔
“ اس کی بات کاٹ کے وہ اتنے تیز لہجے میں بولے تھے کہ وہ بے ساختہ ہنس دیا۔
”آپ ہیں بھی تو اسمارٹ مائی سویٹ ڈیڈی! دو چار تو اب بھی شہید ہونے کو تیار ہوں گی۔“ اس کی آنکھوں میں شرارت رچی دیکھ کر انہوں نے ایک دھپ اس کی کمر پہ رسید کی۔
”بس تمہاری ماما کے بعد میں نے کبھی اس نہج پہ سوچا ہی نہیں سچ کہوں تو اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔
یہ جو دل میں رہنے والے ہوتے ہیں نا آریز! وہ دل سے کبھی نہیں نکلتے چاہو بھی تو نہیں نکلتے اور جن کو دل نکالنا ہی نہ چاہیے وہ بھلا کیسے نکل سکتے ہیں۔“
اپنی شریک حیات کے ذکر پہ ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
آریز نے نہایت عقیدت و محبت سے اپنے ڈیڈی کو دیکھا۔ وہ بچپن ہی سے اس کے آئیڈیل تھے۔ وہ ابھی گریڈ 5th کا اسٹوڈنٹ تھا جب اس کی ماما کی ڈیتھ ہو گئی۔
اس کے ڈیڈی نے دوسری شادی نہیں کی اسے ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا۔ اس کے سب سے بہترین دوست اس کے ڈیڈی ہی تھے۔ وہ ان سے بالکل دوستوں کی طرح فرینک ہو کے باتیں کرتا تھا۔ لیکن ان آنکھوں کی نمی وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اب بھی ان کا موڈ بدلنے کی خاطر وہ بڑے لاڈ سے ان کے گلے میں بازو ڈال کے بولا تھا۔
”ڈیڈی! میں نے سنا ہے کہ جو دعا دل سے نکلے اللہ اسے ضرور پوری کرتے ہیں۔
ذرا خلوص دل سے دعا دیں مجھے کہ آج میری ملاقات زونیہ سے ہو جائے۔ قسم سے ڈیڈی! پورے سفر میں آپ کیلئے دعا کروں گا اور مسافروں کی دعا تو ویسے بھی جلد قبول ہو جاتی ہے۔“
”پہلے یہ بتاؤ کہ میرے لئے کیا دعا کرو گے۔“ وہ بھی موڈ میں آ گئے۔
”دعائیں بہت ہیں ڈیڈی! مثلاً اللہ تعالیٰ آپ کے بیٹے کے سہرے کے پھول کھلائے۔ آپ اپنے پوتوں کو کھلائیں اپنے گھر آنگن کو مہکائیں۔
“ اس کی اتنی ڈپلومیٹک دعا پہ انہوں نے بے ساختہ قہقہہ لگاتے ہوئے اس کے سارے بال بکھیر ڈالے انہیں جب بھی اس پہ بہت پیار آتا تھا تو اس کے بال بکھیر دیا کرتے تھے۔
”بہت فاسٹ جا رہے ہو بیٹا جی! ذرا جلدی سے کراچی سے واپس آؤ۔ میں بات کرتا ہوں عازم سے۔“
”پہلے اس ہٹلر کی جانشین سے تو بات کر لینے دیں ڈیڈی! عقل کے معاملے میں وہ خاصی پہنچی ہوئی ہے بقول اس کی دادو کے وہ کئی اچھے پرپوزل ریجیکٹ کر چکی ہے اور شوہر کے معاملے میں بھی وہ نہایت اعلیٰ و نایاب قسم کے خیالات رکھتی ہے۔
”تو پھر جلدی سے حالات سازگار کرو کیونکہ اب اس گھر کا سونا پن مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔“
”بہت بہتر بس آپ دعا کریں میری فلائٹ کا ٹائم ہونے والا ہے۔“ جاتے جاتے وہ پھر شرارتی لہجے میں کہنے لگا۔ ابراہیم کے دل سے واقعی دعا نکلی تھی۔
”پیز اساور! بس کر دو اب ،لاہور سے کراچی تک کا سفر اتنا طویل نہیں ہے جتنی طویل تمہاری لپ اسٹک ہو گئی ہے۔
“ اساور کو کوئی چوتھی مرتبہ لپ اسٹک کا کلر چینج کرتے دیکھ کر میں جھنجھلا گئی۔ اساور ہر لحاظ سے مجھے اچھی لگتی تھی۔ سوائے اپنی ایک اس عادت سے اسے ہر وقت ایک ہی خبط رہتا تھا۔ کہیں اس کی خوبصورتی میں کمی نہ آ جائے ایک ہی طرح کا میک اپ اسے یکسانیت کا شکار نہ کر دے۔
”پورے ایک گھنٹے بیس منٹ کا سفر ہے مائی ڈیئر! اور پھر کیا پتہ یہیں کہیں چانس لگ جائے۔
“ آؤٹ لائن بناتے ہوئے اس نے شرارت سے مجھے دیکھا۔ مجھے ان باتوں سے بہت غصہ آتا تھا وہ بخوبی جانتی تھی اسی لئے اکثر اوقات مجھے چڑانے کیلئے ایسے جملے بول جایا کرتی تھی۔
”چانس کو ہی روتی رہنا ساری عمر۔“ میں نے آنکھیں نکالیں تو وہ ڈھٹائی سے ہنسنے لگی۔ اسے اس کے حال پر چھوڑ کر میں اپنے لئے مختص کیبن سے باہر نکل آئی۔ نگار کسی بڑی بی کا ہاتھ تھامے ان کی سیٹ تک انہیں گائیڈ کر رہی تھی۔
”ہیلو… کیسی ہو؟“
معاً میرے عقب سے آواز ابھری تو میں چونک کے مڑی اور اپنے سامنے کھڑی شخصیت کو دیکھ کر بھونچکا رہ گئی۔ ایش گرے ٹوپیس میں خوشبوؤں میں بسا اپنے شاندار سراپے سمیت یقینا وہ آریز ابراہیم ہی تھا۔
”یقین نہیں آ رہا…؟“ میری تحیر زدہ آنکھوں میں جھانکتے ہوئے وہ پوچھنے لگا تو میں جیسے ہوش میں آ گئی۔
”حد ہوتی ہے زونیہ! یوں منہ کھول کے اور آنکھیں پھاڑ کے اسے دیکھنے کی کیا ضرورت تھی۔
انسان ہی ہے وہ کوئی عجوبہ تو نہیں۔“
خود کو ڈپٹتے ہوئے میں لاتعلق سی بن کے آگے بڑھنے لگی۔
”بات تو سنیں۔“ وہ میرے پیچھے ہی چلا آیا تو مجھے رکنا پڑا۔
”جی فرمائیں۔“ میں نے اپنے مخصوص پروفیشنل لہجے میں کہا۔
”یہ سیٹ کہاں ہے؟“ آنکھوں میں شوخیوں کا جہاں لئے اس نے بظاہر بڑے بھولپن سے سیٹ نمبر دریافت کیا۔
”اوپر چھت پہ…“ جی تو چاہا تڑاخ سے کہہ دوں۔ مگر حوصلے سے کام لیتے ہوئے میں نے ہاتھ سے آگے کی سمت اشارہ کردیا۔
”وہیں ہو گی نا…“ شریر و متبسم نگاہیں میرون دوپٹے کے ہالے میں گلاب چہرے کا مسلسل طواف کر رہی تھیں۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum