Episode 29 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 29 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

”نہیں… نیچے وہیل سے لٹک رہی ہو گی۔“ میرا جی چاہا اپنا سر پیٹ لوں۔ پتہ نہیں کیا بات تھی یہ شخص جب بھی ملتا تھا میرا بی پی شوٹ کرنے لگتا تھا۔ حالانکہ میں ایسی ہرگز نہیں تھی۔
”روحہ…!!“ میں نے اپنے سے کچھ فاصلے پہ کھڑی روحہ کو آواز دی۔ وہ فوراً ہی میری طرف متوجہ ہوئی تھی۔
”ان صاحب کو ان کی سیٹ تک چھوڑ آؤ۔“ اپنی جان چھڑانے کیلئے مجھے یہی سوجھا تھا۔
”آیئے سر!“ روحہ تو اسے دیکھتے ہی مرعوب ہو گئی تھی۔ میں اس کے تاثرات نوٹ کئے بغیر پیچھے مڑ گئی۔ جہاں ایک بزرگ اپنے موٹے موٹے عدسوں والی عینک کی مدد سے سیٹ کا نمبر دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہیں ان کی مطلوبہ سیٹ تک پہنچا کے میں پلٹی ہی تھی کہ اسی وقت اساور میرے قریب آ گئی۔
”کون تھا وہ ہینڈسم سا بندہ جس کے ساتھ کھڑی باتیں بگھار رہی تھیں۔

(جاری ہے)

“ میرے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”ایسے ہی خوامخواہ فری ہو رہا تھا۔“ میں نے کوئی نوٹس لئے بغیر سر سری سا لہجہ اپنایا۔
”فضول میں ہی تو کوئی کسی سے فری نہیں ہوتا۔“ اس نے معنی خیزی سے دیدے گھمائے تو میں اسے گھور کے رہ گئی۔
”ویسے ایک بات ہے زونیہ! تم دونوں ساتھ ساتھ کھڑے تھے جوڑی بڑی زبردست لگ رہی تھی۔“اس کے کمنٹ پہ میرا دل بڑی زور سے دھڑکا تھا جبکہ وہ اپنی بات کہہ کے رکی نہیں تھی۔
اسے خدشہ تھا کہ میں کہیں ماحول کی پروا کئے بغیر اسے دو چار رسید نہ کر دوں۔
”ایکسکیوزمی مس!“ شاید اس کی سیٹ پہ کانٹے اگے ہوئے تھے اسی لئے وہ ٹک کے نہیں بیٹھ رہا تھا۔
”جی فرمایئے۔“ میں بڑے ڈھیلے سے انداز میں پلٹی۔
”ایکچولی میرے برابر والی سیٹ پہ کوئی خاتون موجود ہیں۔ آپ براہ کرام میری یا ان کی سیٹ تبدیل کروا دیجئے۔
کیونکہ غیر محرم کے ساتھ سفر کرتے ہوئے مجھے بڑا خوف آتا ہے۔“ اس کی انوکھی فرمائش پہ میں نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
”پتہ نہیں سچ کہہ رہا ہے یا تنگ کر رہا ہے۔“
”یقین تو کرکے دیکھو۔“ اس کے لبوں پہ پھیلا تبسم دیکھ کر میں متذبذب سی بالاخر اس کے ساتھ چل ہی پڑی۔
واقعی اس سیٹ پہ ایک خوبصورت سی لڑکی بیٹھی تھی۔ جتنا پارسا وہ خود کو ظاہر کر رہا تھا مجھے تو ہرگز اتنا نہیں لگ رہا تھا۔
تاہم اس کی خواہش کے مطابق میں نے اس کی سیٹ تبدیل کروا دی تھی۔
”تھینکس مس زونیہ!“ اس کے ممنون لہجے پہ میں نے ایک آفیشل سی مسکراہٹ پاس کی تھی۔
”لڑکیاں ویسے اپنا رقیب برداشت نہیں کر سکتیں ہے نا؟ وہ آخر میں پھر شرارتی لہجے میں گویا ہوا۔ انداز صاف طور پر تپانے والا تھا اور ڈھٹائی کی حد تو یہ تھی کہ تائید بھی مجھ ہی سے مانگی جا رہی تھی جبکہ میں سلگ کے رہ گئی۔
جی تو چاہ رہا تھا اس ڈھیٹ کو سیٹ سمیت ہی اٹھا کر نیچے پٹخ ڈالوں۔ وہ میرے تاثرات جانچتا ہوا خاصا لطف اندوز ہو رہا تھا۔ دل میں اسے بے شمار گالیوں سے نوازتے ہوئے میں فوراً وہاں سے ہٹ گئی۔
”مائی سویٹ ڈیڈی! ہمیشہ خوش رہیں۔ اللہ آپ کو اپنے بیٹے کی خوشیاں دیکھنا نصیب کرے۔“ سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے اس کے لبوں سے بے ساختہ دعا نکلی اور اپنی دعا پہ وہ خود ہی مسکرا دیا۔
آج اسے حقیقتاً یقین ہو گیا تھا کہ واقعی جو دعا دل سے نکلے وہ اثر رکھتی ہے۔ بقول علامہ اقبال کے۔
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
گھر سے ایئر پورٹ تک آتے اس نے ایک ہی دعا مانگی تھی اور جہاز میں داخل ہوتے ہی جو سب سے پہلے نظر اس من پسند ہستی پہ پڑی تو بے ساختہ اس کا دل جھوم جھوم کیا۔
وہ اچھا خاصا میچور اور مینرڈ انسان تھا۔
اپنے اور مقابل کے درمیان ایک فاصلہ رکھنے والا۔ بزنس کے اسرار و رموز سمجھنے والا۔ مگر پھر بھی اس کے سامنے آتے ہی شوخی و شرارت خود بخود اس کے وجود کا احاطہ کر لیتی اس کے لہجے کا حصہ بن جاتی۔ غصہ ضبط کرنے کی کوشش میں جب اس کی آنکھوں سے شرارے لپکتے اور گال تپ کر دہکنے لگتے تو آریز کا جی چاہتا بس اسے ہی دیکھے جائے آس پاس کی پرواہ کئے بغیر۔
وہ جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کر جاتا جس سے اسے طیش آ جاتا ،آریز اس منظر سے جی بھر کے محظوظ ہوتا تھا۔
”ایکسکیوزمی! پانی کا گلاس چاہئے پلیز۔“ وہ پاس سے گزری تو آریز نے جھٹ اسے مخاطب کر لیا۔
”مبادا وہ آگے نہ نکل جائے۔ چند لمحوں بعد وہ پانی کا گلاس لے آئی تھی۔
”منرل واٹر ہے نا… ایکچولی میرے معدے کو صرف منرل واٹر سوٹ کرتا ہے نا۔
اس لئے۔“ لبوں پہ وہی مخصوص مقابل کو زچ کر دینے والی مسکراہٹ تھی۔
”ڈونٹ وری یہاں نہ صرف منرل واٹر بلکہ ڈسٹل واٹر بھی دستیاب ہے۔ آپ چاہیں تو وہ بھی مل سکتا ہے۔“
وہ تپ ہی تو گئی۔
”بات صرف ہماری چاہ کی تو نہیں۔“ پھر وہی ذومعنی لہجہ ،متبسم و شریر نگاہیں۔ زونیہ کا تو میٹر گھوم گیا۔ صد شکر کہ ابھی آریز نے اپنی آواز اتنی دھیمی رکھی تھی کہ بمشکل اسے سنائی دی تھی۔
”پتہ نہیں یہ لڑکی بعد میں بھی سدھرے گی یا نہیں۔“
اس کے جانے کے بعد وہ خود سے مخاطب ہوا۔
”وہ ایک دفعہ ملے تو سہی۔“ اس کے ساتھ کا تصور ہی بڑا خوش کن تھا۔ جہاز کے ساتھ ساتھ اس کا دل بھی خوش کن خیالات کے ہنڈولے میں محو پرواز تھا۔
”سمجھتا کیا ہے خود کو ٹام کروز کہیں کا۔“ وہ بڑبڑاتے ہوئے فوڈ کیبن کی طرف بڑھی۔ جہاں نگار اور روحہ پہلے سے مسافروں کیلئے جوس وغیرہ نکال رہی تھیں۔
###
حفصہ پھپھو کا دوبئی سے فون کیا آتا تھا عفرا کی تو گویا لاٹری نکل آئی تھی۔ وہ جو ہر وقت دوبئی جانے کے خوف سے ہولتی رہتی تھی اب کافی حد تک پرسکون ہو گئی تھی۔
پھپھو نے کہا تھا کہ تمہارے انکل اپنا بزنس وائنڈ اپ کر رہے ہیں اور جلد ہی پاکستان آ رہے ہیں۔ یہاں کسی اچھے علاقے میں ہمارے لئے کوئی اچھا سا گھر دیکھیں اور دادو کو بھی دوبارہ دوبئی آنے کو کہا تھا بلکہ بہت اصرار کیا تھا۔
”ہمیں ٹریٹ دو وہ بھی ارجنٹ۔“ رضی اور فرغام تو عفرا کے سر ہو گئے۔
”کیوں…“ اس نے بھی آنکھیں ماتھے پہ رکھی ہوئی تھیں۔
”تمہارا سسرال پاکستان شفٹ ہو رہا ہے۔“ انہوں نے گویا یاد دہانی کروائی۔
”خوامخواہ… میں نہیں جانتی تمہیں۔“ وہ لاتعلق سی بنی۔
”ہم تو تمہیں جانتے ہیں نا۔“ وہ دونوں یک زبان ہو کر بولے۔
لابی میں داخل ہوتے ہوئے میں نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ رضی اور فرغام نے فوراً اپنا مدعا پیش کیا تھا۔
”میرا خیال ہے یہ دونوں حق بجانب ہیں عفرا! آخر کو تمہیں اتنی بڑی خوشی ملی ہے۔“ میں نے بھی ان کی تائید کی تو وہ دونوں کھل اٹھے۔
”ان کی ساری خوشیاں سمیٹنے کیلئے میں اکیلی ہی رہ گئی ہوں۔ تمہاری بھی تو وہ پھپھو ہیں بلکہ اکلوتی پھپھو۔
اسی بہانے کوئی آدھ ایک خوشی تم بھی لے لو۔“
وہ جل کے گویا ہوئی۔
”کفران نعمت نہیں کرتے بچے!“ میں نے پچکارا۔
”ویسے بھی اپنے گھر والوں کو کھلانے سے دوہر اجر ملتا ہے۔“ فرغام بڑا مدبر بن کے بولا تھا۔
”نیکیوں میں اضافہ ہو گا۔ ثواب زیادہ ملے گا۔“ رضی نے بھی جھٹ ٹکڑا لگایا۔
”ہاں… ایک میں ہی گناہگار رہ گئی ہوں اس گھر میں جسے ثواب کی ضرورت ہے۔
تم تو ولی اللہ بن گئے ہو نیکیاں کر کرکے اور ثواب کما کما کے۔“ عفرا کلس کے بولی۔
”بس کبھی غرور نہیں کیا۔“ فرغام نے تو انکساری کی حد ہی کر ڈالی۔ میں بے ساختہ ہنس پڑی۔
پھر ہم سب نے مل کے اسے اتنا زچ کیا کہ اس بے چاری کو ناچار ٹریٹ دینا ہی پڑی۔ عفرا نے فوڈ اسٹریٹ میں ہم سب کو کھانا کھلایا۔ واپسی پہ انہوں نے زبردستی مجھ سے آئس کریم بھی کھائی۔
ہم چاروں ایک خوشگوار شام بلکہ آدھی رات گزار کے واپس لوٹے تھے۔ شکر تھا کہ دادو سونے کیلئے جا چکی تھی ورنہ اتنی لیٹ واپسی پہ شامت آ جاتی اپنے اپنے کمروں میں جانے کی بجائے ہم ابھی لاؤنج میں ہی بیٹھے تھے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بج اٹھی۔ میں چونکہ فون کے قریب بیٹھی تھی اس لئے میں نے ہی ریسیو کیا۔
”ہیلو… السلام علیکم۔“
”وعلیکم السلام۔
“ لٹھ مار انداز میں جواب دیا گیا۔
”کہاں مرئے ہوئے تھے سب ،دو دفعہ فون کر چکا ہوں۔“ دوسری طرف سمعان تھا۔ اس کے جلے کٹے انداز پہ میرے لبوں پہ مسکراہٹ رینگ گئی۔ ماما یا شمیم چچی سے اسے یقینا خبر مل چکی تھی کہ ہم سب فوڈ اسٹریٹ گئے ہوئے ہیں۔ اپنی غیر موجودگی بھی اسے خاصی کھلی ہو گی۔ ہمارے ساتھ مل کر ،ساتھ رہ کر وہ بہت خوش رہتا تھا۔
یہاں کا ماحول اسے بہت اٹریکٹ کرتا تھا اور جب بھی اسے خبر ملتی تھی کہ ہم کہیں آؤٹنگ پہ گئے ہیں تو وہ اچھا خاصا جل بھن جاتا تھا۔
”قسم سے سمعان! تمہیں بہت مس کیا۔“ اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے میں بڑے میٹھے لہجے میں بولی۔ مقصد اس کا غصہ ٹھنڈا کرنا تھا اور یہ کوئی مکھن بھی نہیں تھا ہم واقعی اسے بہت مس کر رہے تھے۔
”مجھے چند دنوں تک آ ہی جانا ہے۔
دو ،چار دن انتظار کر لیتے پھر اکٹھے ہی چلتے۔“
میرے شیریں لہجے کا اتنا اثر ہوا تھا کہ وہ کچھ ڈھیلا پڑ گیا۔ تاہم کچھ خفگی برقرار رکھی تھی۔
”تم آؤ گے تو ہم پھر جائیں گے۔ بلکہ اس دفعہ ٹریٹ بھی تم سے ہی لیں گے۔ تم نے اپنی منگنی کی ٹریٹ بھی ہمیں نہیں دی تھی وہ بھی ڈیو ہے تمہاری طرف۔ ہم نہ بھولنے والوں میں سے ہیں اور نہ بخشنے والوں میں سے یاد رکھنا۔
“ میں نے اپنائیت بھری دھونس سے کہا تو وہ مسکرا کر بولا۔
”محبت یاد نہیں رکھی جاتی زونیہ ڈیئر! یہ خود بخود یاد رہ جاتی ہے۔“
”یہ ڈائیلاگ میری سمجھ میں آنے والے نہیں۔ جس کیلئے حفظ کئے ہیں اسی کو سنانا۔“ میں ناک چڑھا کے بولی۔
”مجھے ذرا پاکستان تو آنے دو۔ پھر بندوبست کرتا ہوں تمہارے لئے بھی کسی ڈائیلاگ سنانے والے کا۔
“ سمعان نے مجھے چھیڑا تو میرے تصور میں خود بخود ہی دو گہری ،متبسم و شریر نگاہیں در آئیں۔
”میری فکر چھوڑو۔ اپنی سناؤ کس لئے فون کیا تھا۔“ پتہ نہیں میں نے سمعان کو ٹالا تھا یا ان نگاہوں کو جنہوں نے خوامخواہ ہی مجھے ڈسٹرب کر رکھا تھا۔
”پاپا نے بڑے ماموں کو فون کرکے گھر دیکھنے کیلئے کہا ہے۔ میں نے تمہیں اس لئے فون کیا تھا کہ تم خود بڑے ماموں کے ساتھ جا کر گھر دیکھ کر آنا گھر بڑا اور گڈ لکنگ ہونا چاہئے۔
باقی سیٹنگ وغیرہ تو ہم خود ہی کر لیں گے اور کوشش کرنا کہ کمرشل علاقہ نہ ہو اور دادو کو بھی جلد بھیجو ماما اپنی امی حضور کے بغیر اداس ہو گئی ہیں۔“
”مجھے تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے میں پراپرٹی ڈیلر ہوں۔“ میں کچھ اس انداز سے بولی کہ وہ ہنس پڑا۔
”تمہیں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ تمہاری چوائس اچھی ہے اور عفرا تو اس معاملے میں بالکل کوری ہے اسے سوائے پڑھائی کے اور کوئی کام کرنا ڈھنگ سے نہیں آتا۔
ویسے ہے کہاں وہ اس وقت…“ بات کرتے کرتے اس نے پوچھا اس کا موڈ فریش رکھنے کی خاطر میں دادو کا معاملہ حذف کرکے خوشگوار لہجے میں اس سے باتیں کر رہی تھی۔
”مجھے گھور رہی ہے کہ گھنٹہ بھر سے ریسیور پکڑے بیٹھی ہوں۔“ میں نے مسکراہٹ لبوں میں دباتے ہوئے عفرا کو دیکھتے ہوئے جواب دیا اور ساتھ ہی ریسیور اسے تھما دیا۔ وہ مجھے گھورتی رہ گئی جبکہ میں اٹھ کے اپنے کمرے میں آ گئی۔
حفصہ پھپھو ،دادو کو اس لئے بلا رہی تھیں کہ انہوں نے اپنے دوسرے بیٹے شیراز کیلئے لڑکی پسند کر لی تھی اور دادو کو دکھا کر وہ حتمی فیصلہ کرنا چاہتی تھیں۔ کپڑے تبدیل کرکے میں اپنے بستر میں گھسی تو ذہن خود بخود آریز ابراہیم کی طرف چلا گیا۔
”عجیب شخص ہے ہر وقت زچ کرنے پہ تلا رہتا ہے۔“ کروٹ بدلتے ہوئے میں نے سوچا۔
”محبت ہی تو چاہئے آپ کی۔
“ معنی خیز لہجہ۔
”بات صرف ہماری چاہ کی تو نہیں۔“ مسکراتی نگاہیں۔
”تم دونوں ساتھ ساتھ کھڑے تھے جوڑی زبردست لگ رہی تھی۔“ اساور کا کمنٹ میرا دل یکبارگی زور سے دھڑکا تھا۔
”اس سے تو انکار نہیں کہ بندہ واقعی شاندار ہے لیکن باتیں کتنی الٹی سیدھی کرتا ہے۔“
”ہو سکتا ہے صرف میرے ساتھ ہی ایسا رویہ ہو اس دن سب کے درمیان تو کیسا سوبر بنا بیٹھا تھا۔“ میں خود ہی سوال و جواب کر رہی تھی۔
”اتنا ہینڈسم انسان تو کسی کا بھی آئیڈیل ہو سکتا ہے۔ ویسے میرا آئیڈیل کیسا ہونا چاہئے۔“ میں نے خود سے ہی سوال کیا تھا۔ لیکن موصول ہونے والا جوب اتنا خوفناک تھا کہ میری نیند بھک سے اڑ گئی۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum