Episode 32 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 32 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

درد کی ایک شدید لہر پاؤں کے انگوٹھے سے ہوتی ہوئی اوپر تک گئی تھی۔ ایک آہ لبوں سے برآمد ہوئی اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھلی تھی۔ میں نے خود کو ہسپتال میں پایا۔ میرے آس پاس تقریباً ہی سب گھر والے تھے۔
”یا اللہ! تیرا شکر ہے۔“ ماما نے فوراً آگے بڑھ کر میرا ماتھا چوما تو میری آنکھیں نم ہو گئیں۔
”کیسی ہو زون! تم نے تو میری روح ہی کھینچ لی تھی۔
عفرا نمناک لہجے میں بولی۔ اس پاگل نے رو رو کے اپنی آنکھیں سجا لی تھیں۔
”بڑی مشکل سے کھینچ تان کے تمہیں واپس لائے ہیں۔“ راضی اور فرغام نے ماحول کی اداسی کو کم کرنا چاہا تھا۔
”میرے اپنے میرے پاس تھے۔ ان کی بے تحاشا محبت اور خلوص کو میں نے پوری طرح محسوس کیا تو میرے رگ و پے میں طمانیت کی لہر دوڑ گئی۔

(جاری ہے)

میرے اپنوں کی محبت نے واقعی مجھے مضبوط بنا دیا تھا۔

میں ان سب کے بغیر ہرگز نہیں رہ سکتی تھی۔ عامر چچا کی ہنس مکھ طبیعت نے جلد ہی ماحول کو خوشگوار بنا دیا تھا۔ میرے لبوں پہ بھی مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔
”گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے۔ بس ایک دو معمولی سے فریکچر ہیں اور خراشیں وغیرہ آئی ہیں۔ شکر ہے کہ گاڑی دوسری سائیڈ میں ہو جانے کی وجہ سے تم بچ گئیں۔ ڈاکٹر مسعود انصاری کا آج آف ہے۔
کل وہ تمہارا تفصیلی چیک اپ دوبارہ کریں گے اور انشاء اللہ کل تم ڈسچارج ہو کے گھر چلی جاؤ گی۔“ رضی ابھی ڈاکٹر کے پاس سے آیا تھا۔ مجھے تفصیل سے آگاہ کرنے لگا۔
پھر رات کو بھی اس نے سب کو گھر بھیج دیا۔ صرف وہ اور شمیم چچی میرے ساتھ ٹھہرے تھے۔ صبح کو وہ دونوں چلے گئے تو عفرا اور پاپا آ گئے۔ ویسے تو میں ٹھیک تھی لیکن نقاہت بہت زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔
پاپا نے فوراً سے پیشتر نرس سے کہہ کر مجھے ڈرپ لگوا دی تھی۔ کافی دیر میرے پاس رکنے کے بعد وہ آفس گئے تھے۔ عفرا سے باتیں کرتے کرتے نجانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ نیند میں ہی مجھے کسی کی آواز کا گمان گزرا چند لمحے لگے تھے مجھے لاشعور سے شعور تک آنے میں، میں نے آنکھیں کھولیں تو اپنے قریب ہی آریز کو پایا۔ میرا دایاں ہاتھ اس کے ہاتھوں کی گرفت میں تھا۔
پہلے تو مجھے خواب کا گمان گزرا لیکن جب اس نے ہولے سے دبا کر میرا ہاتھ چھوڑا تو میں حقیقت میں لوٹ آئی۔
”تہمہارے لئے…“ اس نے تازہ سرخ گلابوں کا بکے جس کے ساتھ Get well soon کا کارڈ تھا میری طرف بڑھایا۔
”تھینکس…“ میں نے بکے تھاما اور ایک سائیڈ پر رکھ دیا۔
”اب کیسی طبیعت ہے۔“ اس نے اتنی چاہت و یگانگت سے پوچھا کہ مجھے اپنی پلکیں بھیگی ہوئی محسوس ہوئیں۔
”ٹھیک ہوں۔“ میں نے اٹھنا چاہا تو اس نے سہارا دے کر مجھے اٹھانے میں مدد کی اور دل تو اتنے التفات پہ ہی بغاوت پہ اتر آیا تھا۔
”مجھے کل رات کو ہی علم ہوا تھا۔ میں تو اسی وقت آنا چاہ رہا تھا لیکن رضی نے ہی منع کر دیا۔ یقین جانو میری ساری رات اضطراب میں کٹی۔ رضی کے منع کرنے کے باوجود چلا آیا ہوں۔ اس سے زیادہ کنٹرول کرنا میرے بس میں نہیں تھا۔
“ ہمیشہ کی طرح اس کی گہری سیاہ آنکھوں نے میرے اردگرد حصار قائم کیا تھا۔ میں ایک مرتبہ پھر پگھلنے لگی۔
”رضی نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ آپ کو واقعی نہیں آنا چاہئے تھا۔ اب ان باتوں کا کیا فائدہ…“ میں نے ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا۔
”کیوں زونیہ…!“ وہ تڑپ کے بولا تو میری آنکھیں چھلکنے کو بے تاب ہو گئیں۔
”پتہ ہے میرے ڈیڈی جب بھی میری ماما کا تذکرہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں یہ جو دل میں رہنے والے ہوتے ہیں نا آریز! وہ دل سے کبھی نہیں نکلتے۔
”میری ڈرپ ختم ہونے والی ہے۔“ میں اس کی بات یکسر نظر انداز کرکے بولی تو وہ سوال گندم جواب چنا کے مصداق مجھے دیکھتا رہ گیا۔ پھر خود ہی اٹھتے ہوئے بولا۔
”میں سسٹر کو بلا کر لاتا ہوں۔ وہ نکال دے گی۔“ میرا اس موضوع سے کترانا وہ سمجھ گیا تھا اور کیوں نہ سمجھتا وہ تو میرے دل کی تحریر میرے چہرے پہ بڑی آسانی سے پڑھ لیا کرتا تھا۔
میرے سرہانے آریز کا موبائل پڑا تھا وہ شاید یہیں بھول گیا تھا۔ میں نے یونہی اٹھا کے دیکھا تو اسکرین پہ رضی کا نام چمک رہا تھا۔ بلا ارادہ ہی میں Yes کا بٹن پش کرکے سیل کانوں سے لگا گئی۔
”صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے یار! پہلے ہی معاملہ بگڑا ہوا ہے۔ تم سے دو دن کی دوری برداشت نہیں ہوئی۔ کیوں فرہاد بننے پہ تلے ہوئے ہو۔ زونیہ کو اگر علم ہو گیا نا کہ ہم سب نے مل کر اس کے ساتھ پلان کیا ہے اور کیا گیم کھیلا ہے تو سارا عشق ناک کے رستے بہہ جائے گا۔
محترمہ اچھی خاصی غصیلی ہیں۔ اوپر سے ڈاکٹر عقیل بھی خیر سے اسی ہسپتال میں ہے وہ تو اپنی مسز سمیت آنا چاہ رہا تھا۔ بمشکل ہاتھ پاؤں جوڑ کے اسے روکا ہے ورنہ سارا کھیل چوپٹ ہو جاتا مجھے تو اپنی جان سولی پہ لٹکتی نظر آ رہی ہے۔ اسے حقیقت پتہ چل گئی تو خیر نہیں۔ لہٰذا فوراً نکلو۔ جب تک میں نہ کہوں آنا نہیں۔“ رضی اپنی عادت کے مطابق مقابل کی سنے بغیر نان اسٹاپ بولے جا رہا تھا۔
زونیہ کے سر میں دھماکے ہونے لگے۔ گفتگو کچھ کچھ اس کی سمجھ میں آئی تھی اور کچھ اوپر سے گزر گئی۔ اسی وقت دروازہ کھلا اور آریز نرس کے ہمراہ اندر داخل ہوا۔ میرے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر وہ ٹھٹکا۔
”بہت خوب مسٹر آریز! مجھے بے وقوف بنانا واقعی بہت آسان ہے۔“ میں نے موبائل آف کرتے ہوئے استہزائیہ کہا۔
”رضی آپ کو کیوں روک رہا تھا مجھے خود ہی پتہ چل گیا ہے۔
“ میرے کڑوے کسیلے لہجے پہ وہ بوکھلا گیا۔
”زونیہ…! آئی ایم سوری۔“
”سسٹر! ان کو کہیں کہ یہاں سے جائیں۔ میں آرام کرنا چاہتی ہوں۔“ رکھائی سے کہتے ہوئے میں نے گردن موڑ لی۔ وہ بے بسی سے ہونٹ بھینچے چند لمحے مجھے دیکھتا رہا پھر باہر نکل گیا۔
###
”جس دن مہرو کی منگنی تھی اسی دن ابراہیم انکل اور آریز بھائی تمہارا پرپوزل لے کر آئے تھے۔
آریز اتنا اچھا لڑکا تھا کہ انکار کا تو کوئی جواز ہی نہیں تھا۔ تایا ابو نے رسمی طور پر وقت مانگا تھا وگرنہ ان کے دل کی مرضی ان کے چہرے سے ہویدا تھی۔ آریز بھائی نے اپنی پسندیدگی کے بارے میں ہمیں پہلے ہی بتا دیا تھا۔ البتہ تمہارے رویے کی وجہ سے ہم سب کو خدشہ تھا کہ تم یونہی منہ پھاڑ کے انکار کر دو گی۔ لہٰذا یہ میرا ہی مشورہ تھا کہ تمہیں حقیقت سے بے خبر رکھ کے جانچا جائے۔
لیکن تمہارا ردعمل ہماری توقع کے برعکس تھا۔ جو ظاہری بات ہے ہمارے لئے حوصلہ افزا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ چند دن بعد تمہیں صورتحال کو ماحول کے مطابق ڈھال کر آگاہ کر دیا جائے گا۔ لیکن تمہارے ایکسیڈنٹ اور رضی کے فون نے سارا معاملہ بگاڑ کے رکھ دیا اور باقی کی صورت حال تمہارے سامنے ہے۔“
مجھے ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔
اب تو میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہو گئی تھی۔ لیکن ان چاروں سے خفگی ہنوز برقرار تھی۔ آج عفرا نے ہمت کرکے مجھے حقیقت حال سے باخبر کر ہی دیا تھا۔ میں نے خاموشی سے اسے سنا اور جواب دینے کی بجائے باہر نکل گئی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ میرا ناراضی ابھی بھی برقرار ہے۔ وہ سب ہر طریقے سے مجھے منا چکے تھے لیکن میرا غصہ ہی کم نہیں ہو رہا تھا۔ یہ سارا بوگس پلان ان چاروں کے درمیان تھا۔
شام کا اندھیرا پھیل رہا تھا۔ میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے ڈھلتی دھوپ کا منظر دیکھ رہی تھی۔ جب کمرے کا دروازہ ہلکی سی دستک سے کھل گیا۔ میں نے مڑ کے دیکھا۔ آریز ابراہیم دروازے کے بیچوں بیچ کھڑا تھا۔ میں نے ابرو اچکا کے اس پہ سرسری سے نگاہ ڈالی اور دوبارہ رخ موڑ گئی۔
”آئم سوری زون! ہمارا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا ہرگز نہیں تھا۔“ وہ میرے قریب آکے کھڑا ہو گیا۔
”میرا نام زونیہ ہے۔“ میں تڑخ کے بولی۔
”جانتا ہوں زون تو میں نے پیار سے کہا ہے۔“ وہ یوں مجھے سمجھا رہا تھا جیسے کسی نالائق اسٹوڈنٹ کو سمجھایا جاتا ہے۔
”کس ناتے۔ آپ پیار جتا رہے ہیں۔“ اس کی بات مجھے سلگا ہی تو گئی۔
”تم ہاں تو کرو ہم رشتے ناتے بھی استوار کر لیں گے۔“
مسکراہٹ ہونٹوں میں دبا کے اس نے شوخ و شریر نظروں سے مجھے دیکھا یہ اس کا مخصوص انداز تھا میرا دل بے اختیار ہی ڈولنے لگا۔
”مجھے فضول گوئی بالکل پسند نہیں۔“ دل کو ڈانٹ ڈپٹ کر میں نے لہجے کو سخت بنایا۔
”تم پسند تو بتاؤ ہم سرتا پیر تمہاری پسند میں ڈھلنے کو تیار ہیں۔“ وہ میری آنکھوں میں گھستے ہوئے بولا۔
”میں ہر ایرے غیرے کو اپنی پسند نہیں بتاتی۔“ غصے سے پاؤں پٹختے ہوئے میں کھڑکی سے ہٹی۔ اس سے پہلے کہ میں وہاں سے نکلتی اس نے میرا لہراتا آنچل تھام کر مجھے روکنا چاہا۔
میں نے غصے سے اپنا دوپٹا کھینچا۔ جواباً اس نے ایک ہی جھٹکا دیا تھا میں سیدھی اس کے اوپر آن گری۔ میں نے فوراً پیچھے ہٹنا چاہا لیکن اس نے دائیں بائیں بازوؤں کا حصار قائم کرکے میرے راستے مسدود کر دیئے۔
”چھوڑیں مجھے۔“ خفت ،شرم ،طیش ،بے بسی کئی کیفیات نے یکبارگی مجھ پر حملہ کیا تھا۔
”سیانے کہتے ہیں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
یہاں بھی گھی ٹیڑھی انگلی سے نکلے گا۔ لہٰذا جب تک ناراضی ختم کرکے ہاں نہیں کرو گی میں ہرگز نہیں نہیں چھوڑوں گا۔“ وہ جیسے میری کیفیت کا مزا لے رہا تھا۔ میرے تو فرشتے کوچ کر گئے۔ وہی مخصوص کلون کی تیز مہک میرے حواسوں پہ چھا رہی تھی۔ اس کی بے خودی میرے ہوش اڑا رہی تھی۔ سارا اکڑ ،غرور ،ناراضی وراضی کوایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اڑنچھو ہو گئی تھی۔
اب تو مجھے اپنی جان خطرے میں لگ رہی تھی۔ اگر چند لمحے مزید میں اس کی قربت میں رہتی تو شاید یہیں پانی بن کر پگھل جاتی۔
”مم… مجھے منظور ہے۔“ بوکھلاہٹ و لڑکھڑاہٹ میں ہی میرے منہ سے پھسلا تھا۔
”کیا…؟“ دوسرا سوال پہلے سے بھی کڑا تھا۔ میری روح فنا ہو گئی۔ آریز نے قہقہہ لگایا۔ میری کیفیت سے جی بھر کے محظوظ ہوتے ہوئے اس نے بازو میرے گرد سے ہٹائے تو میں بجلی کی سی تیزی سے اس سے علیحدہ ہوئی اور دائیں بائیں دیکھے بغیر فوراً دروازے سے لپکتے ہوئے باہر نکل گئی۔
وہ پیچھے سے مجھے پکارتا رہ گیا۔
لاؤنج میں سب کی محفل جمی تھی ابراہیم انکل بھی موجود تھے اور شطرنج کی بساط بچھی تھی۔ میں دھپ سے عفرا کے قریب بیٹھ گئی۔ میری بے ترتیب دھڑکنیں اور بے تحاشا سرخ چہرہ دیکھ کے وہ شرارت سے گنگنائی۔
پیا سے مل کے آئے نین ہائے رے میں کیا کروں۔
میں نے غصے میں آکر ایک مکا اس کی کمر پہ رسید کر دیا۔
”میں نے کیا کیا ہے۔“ وہ کراہ کے رہ گئی۔
اسی وقت لاؤنج کا دروازہ کھلا اور حفصہ پھپھو اور ان کی فیملی کو دیکھ کر ہم سب خوشی سے اچھل پڑے۔
”سرپرائز۔“ سمعان میری طرف دیکھ کر مسکرایا جبکہ میں تو سب کچھ بھول بھال کے دادو سے لپٹ گئی۔
”دادو! آپ جانتی ہیں ہم آپ کے بغیر اداس ہو جاتے ہیں۔“ میرے محبت بھرے شکوے پہ وہ مسکرا دیں۔
”سب لگاوٹ کے مظاہرے ہیں دادو“ رضی نے نجانے کب کا بدلہ اتارا تھا۔ ہم سب کے چہروں پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
”بس اس شیراز کے بچے کی وجہ سے دیر ہو گئی۔ لیکن ہم نے بھی لڑکی کو انگوٹھی پہنا کے ہی چھوڑی اب سمعان اور شیراز کی شادی ایک ساتھ ہی ہو گی۔ انشاء اللہ!“ بات کرتے کرتے ان کی نظر آریز پہ پڑی تو فوراً مجھے پیچھے ہٹا کے اس کی طرف بڑھیں۔
”کیسے ہو آریز بیٹا! عازم نے مجھے بتایا تھا بڑی خوشی ہوئی مجھے۔“ آریز ان سے پیار لینے کیلئے آگے جھکا۔
”تیاری پکڑ لو تمہارے ایگزامز کے فوراً بعد میں نے شادی کی ڈیٹ رکھوا لی ہے۔ فائنل ایئر بعد میں کمپلیٹ کرتی رہنا۔“ سمعان عفرا کی جانب قدے جھکتے ہوئے بولا تو وہ اچھل پڑی۔
”ہرگز نہیں جب تک میرا فائنل ایئر مکمل نہیں ہوتا تم یہ موضوع ہرگز نہیں چھیڑو گے۔
”بہت من مانی کر لی تم نے اگر زیادہ چون چرا کی تو میں تمہارے ایگزامز کا بھی انتظار نہیں کروں گا۔ دس دن کے نوٹس پر رخصتی کروا لوں گا۔ پھر تم سے ایگزامز کی تیاری بھی نہیں ہو پائے گی اچھی بات ہے فیل ہو جاؤ گی تو اس کمبخت پڑھائی سے تو جان چھوٹے گی جو میری رقیب بنی ہوئی ہے۔“ اس کی دھمکی نے عفرا کو خاصا ہراساں کر دیا تھا جبکہ اس کی کیفیت سے سمعان جی بھر کے محظوظ ہوا تھا۔
”تم کیا ڈراوے دے رہے ہو اس کو۔“ میں فوراً عفرا کی مدد کیلئے لپکی۔
”اوہ تم اپنی سناؤ تمہارے پل پل کی خبر ملتی رہی ہے مجھے۔“ وہ خبیث ساری داستان سے واقف تھا اور یہ رپورٹس جس نے اسے پہنچائی تھیں میں نے انہیں گھور کے دیکھا تو وہ دونوں خجل سے اپنا سر کھجانے لگے۔ یہ پاکستانی فلم کا پلان چونکہ ینگ پارٹی کے درمیان ہی تھا لہٰذا بڑے اس معاملے سے یکسر بے خبر تھے۔
”ویسے یار! تم نے اسے منا کیسے لیا یہ تو پوری بپھری شیرنی لگ رہی تھی۔“
رضی کا راز دارانہ لہجہ بھی اتنا بلند ضرور تھا کہ ہم نے بخوبی اسے سن لیا تھا۔ آریز کے لبوں پہ بڑی دلکش مسکراہٹ ابھری تھی۔
”یہ سیکرٹ ہے پھر کبھی بتاؤں گا۔“ اس کے کھنکتے لہجے پہ میرے دل نے بے ساختہ ایک بیٹ مس کی تھی۔ شکر تھا کہ اسی وقت دادو نے مجھے آواز دے ڈالی۔ میں نے فوراً کھسکنے میں ہی عافیت سمجھی۔ عقب سے آریز کا جاندار قہقہہ سنائی دیا تھا جس میں ان سب کی ہنسی بھی شامل تھی۔ میرے لبوں پہ بھی طمانیت بھری مسکان پھیل گئی۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum