Episode 35 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 35 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

”تم بھی کچھ پڑھ لو یا اس سال پھر پہلی پوزیشن لینے کا ارادہ ہے۔“ مزنہ جو بڑے انہماک سے ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھ رہی تھی جہاں رافع کی مداخلت پہ چونکی تھی وہیں اس کے ماتھے پہ بھی بل پڑ گئے تھے۔ لیکن اس کے منہ لگنے کی بجائے وہ دوبارہ اسکرین کی طرف متوجہ ہو گئی۔ جہاں ایک ماہر بیوٹیشن میک اپ کے جدید طریقوں سے ویورز کو آگاہ کر رہی تھی۔
”کیوں فضول میں اپنا ٹائم ضائع کر رہی ہو تم اگر اپنے منہ مبارک پہ وائٹ واش بھی کروا لو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ ان تلوں میں تیل نہیں۔
“ پروگرام کی نوعیت سے آگاہ ہوتے ہی وہ اسے چھیڑنے سے باز نہیں آیا تھا۔
”ہاں… تمہارے جو لال دھک رہے ہیں اور گلاب چٹک رہے ہیں تو سنبھال کے رکھو۔“ وہ جو نہ بولنے کا تہیہ کئے بیٹھی تھی اس کی بات سنتے ہی بھڑک اٹھی۔

(جاری ہے)

”سنبھال کے ہی رکھے ہوئے ہیں کسی بلیک روز پہ ضائع تھوڑی کر رہا ہوں۔“ وہ مسکراہٹ لبوں میں دبا کر اس کے چہرے کے بدلتے رنگوں کا جائزہ لینے لگا۔
حسب عادت اس کا پارہ ہائی ہو گیا تھا۔
”تم میرے منہ نہ ہی لگا کرو تو بہتر ہے۔“ وہ چینل چینج کرتے ہوئے تڑخ کے بولی۔
”تمہارے منہ لگ کے میں نے اپنا منہ خراب نہیں کرنا۔“ وہ بھی ناک چڑھا کے بولا۔
”زیادہ خوش فہم ہونے کی ضرورت نہیں ایسے بھی پرنس چارلس نہیں ہو تم۔“ وہ آنکھیں سیکڑ کے تپے ہوئے لہجے میں بولی تو رافع کا قہقہہ آزاد ہو گیا۔
”ایک دنیا دیوانی ہے اس چہرے کی۔“ وہ کہاں باز آنے والا تھا۔
”ہونہہ۔“ وہ نخوت سے ناک چڑھا کے دوبارہ ٹی وی اسکرین کی طرف متوجہ ہو گئی۔
پھر اس سے پہلے کہ ان کی لڑائی مزید طول پکڑتی میرب اندر داخل ہوئی۔
”تم یہاں بیٹھی ہوئی ہو ادھر بڑی ماں تمہیں ایک گھنٹے سے یاد فرما رہی ہیں اگر تمہیں یاد ہو تو انہوں نے تمہیں کھچڑی بنانے بھیجا تھا۔
“ میرب نے آتے ہی اسے یاد دہانی کروائی تو وہ ہڑبڑا کے اٹھ گئی۔
”اوہ مجھے تو یاد ہی نہیں رہا۔“ ریموٹ وہیں پھینک کے وہ سرپٹ کچن کی طرف بھاگی۔
”تم آج آفس نہیں گئے؟“ سامنے صوفے پہ بیٹھے ہوئے وہ رافع سے مخاطب ہوئی۔
”نہیں آج ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں میرا انٹرویو تھا وہی دے کر آ رہا ہوں۔“ بڑے ریلیکس انداز میں ٹانگیں میز پہ پھیلاتے ہوئے وہ بولا تھا۔
”جاب کرنے کا ارادہ ہے؟ بڑے ماموں سے پوچھا تم نے؟“ وہ اب چونک کر پوچھنے لگی۔
”ہاں ان کی اجازت کے بغیر تو ہم سانس بھی نہیں لے سکتے۔“ ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے اس نے مبالغہ آرائی کی حد ہی تو کر دی۔
”ارے… نبیل بھائی! آپ کب آئے؟“ نبیل کو سامنے بیٹھا دیکھ کر وہ خاصی حیران ہوئی تھی اسے واقعی خبر نہیں ہوئی وہ کب آیا۔
”اب تو چھبیس سال ہو گئے ہیں لڑکی!!“ جواب نبیل بھائی کے بجائے رافع نے دیا تھا۔
”آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نبیل بھائی…؟“ اسے پیشانی مسلتا دیکھ کے وہ تشویش زدہ لہجے میں دریافت کرنے لگی۔
”ہوں… ہاں… ایسا کرو ایک کپ چائے تو پلواؤ۔ میں ذرا فریش ہولوں بہت تھکاوٹ محسوس ہو رہی ہے۔“ وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تو میرب بھی کچن میں چائے بنائے آ گئی۔
چائے لے کر جب وہ نبیل کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ بیڈ پر بیٹھا نجانے کن سوچوں میں گم تھا۔
”یہ لیں چائے…“ میرب نے کپ عین اس کے سامنے رکھا تو وہ ایک دم اپنی سوچوں کی یلغار سے باہر نکلا۔
”تھینکس آؤ بیٹھو۔“ کپ تھامتے ہوئے اس نے کہا تو وہ سائیڈ پر رکھی چیئر پہ بیٹھ گئی۔
اس کے چہرے پہ نگاہیں جمائے نبیل کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بات کا آغاز کیسے کرے۔
”کیا بات ہے نبیل بھائی! کوئی مسئلہ ہے کیا؟“ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو محسوس کرتے ہوئے میرب نے بڑی اپنائیت سے پوچھا تو وہ گہری سانس بھر کے اس کی طرف متوجہ ہوا۔
”B.BA کے بعد کیا ارادے ہیں تمہارے؟“
”M.BA کروں گی انشاء اللہ! پھر اپنے کیریئر کا آغاز کروں گی۔“ وہ بڑے مزے س بولی۔
”اور اگر M.BA سے پہلے ہی تمہارا Right man آ گیا تو…؟“ نبیل نے بات ادھوری چھوڑ کے اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا۔
”میں نے کبھی اس پہ سوچا نہیں بھائی! ویسے میرا کیریئر میرے لئے سب سے اہم ہے۔“ موضوع ہی کچھ ایسا تھا کہ وہ فطری طور پر جھجھک گئی۔
اس Topic پر اس کی نبیل بھائی سے کبھی کوئی بات نہیں ہوئی تھی اس لئے وہ اندر ہی اندر خاصی حیران ہو رہی تھی۔
”بات دراصل یہ ہے میرب!“ اس نے رک کر ایک دفعہ پھر اسے دیکھا اور دوبارہ بات کا آغاز کیا۔ اس کے یوں تمہید باندھنے سے تھوڑا سا گھبرائی تھی۔
”تمہارے علم میں ہوگا کہ آج کل گھر میں میری شادی کی باتیں چل رہی ہیں۔ ہم سب بچپن سے ساتھ ہیں ایک دوسرے کی عادات سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔
ہمارے بڑے بھی ہمیں جانتے ہیں اور عموماً یوں ہوتا ہے کہ جب گھر میں سارے ہم عمر ہوں تو رشتے آپس میں ہی طے کر لئے جاتے ہیں اور اگر ذہنی آہنگی ہو تو یہ بات کوئی بری بھی نہیں۔ امی نے جب مجھ سے شادی کی بات کی تو تمہارا اور رباحہ دونوں کا نام لیا مگر میں نے کبھی بھی تم دونوں کے بارے میں اس انداز میں نہیں سوچا ،تم دونوں میری چھوٹی بہنیں ہو۔
امی کا یہ خیال ہے کہ کل کو حسنہ پھپھو یہ نہ کہیں کہ گھر میں رشتہ موجود ہوتے ہوئے ہم باہر دیکھتے پھرتے ہیں۔“ وہ ایک لمحے کو رکا۔ میرب کا سانس سینے میں اٹکا ہوا تا۔
”لیکن حسنہ پھپھو اور تم بہت اچھی ہو رباحہ اور چچی جان بھی بہت اچھی ہیں وہ کبھی بھی دل میں کوئی کدوت نہیں رکھیں گی۔ میری ایک کلاس فیلو تھی ندا میرا اس سے کوئی لمبا چوڑا افیئر نہیں چلا ہاں اس کی سادگی اور خلوص مجھے بہت بھاتا تھا۔
ندا کی چار بہنیں ہیں اور بھائی نہیں ہے۔ وہ ایک متوسط سے بھی کم طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی لئے میری طرف بڑھتے ہوئے ہچکچاتی تھی اور کچھ میں بھی اچھی طرح اٹیبلش نہیں ہوا تھا۔ وہ بھی آج کل جاب کر رہی ہے میں نے امی کو اس کے متعلق بتایا تھا انہیں کوئی خاص اعتراض تو نہیں لیکن پھر بھی ان کا خیال یہ ہے کہ اپنے ،اپنے ہی ہوتے ہیں۔“ وہ سانس لینے کو رکا تو میرب فوراً بول اٹھی۔
”بڑی مامی تو مان جائیں گی نبیل بھائی!وہ بہت نرم دل ہیں اور سچ بات تو یہ ہے کہ کبھی میں نے بھی اس طرح سے آپ کے متعلق نہیں سوچا۔ ہمیشہ آپ کو بڑے بھائی کا درجہ دیا ہے اور جہاں تک میرا خیال ہے رباحہ بھی ایسے ہی سوچتی ہے اور رہی بات ندا کی تو اگر وہ اچھی ہوئیں تو ہماری فیملی میں ایڈجسٹ ہونا ان کیلئے مشکل نہ ہوگا۔ باقی ہم سب تو آپ کے ساتھ ہیں۔
”تھینکس میرب! مجھے تم سے یہی امید تھی۔“ وفود مسرت سے نبیل کا چہرہ چمک اٹھا۔
”کیا مطلب… خالی خولی تھینکس سے کام نہیں چلے گا۔ ذرا تگڑی سی ٹریٹ دیں اور شاپنگ بھی کروائیں اور میری فرینڈ کی برتھ ڈے آ رہی ہے اس کیلئے گفٹ بھی لے کے دیں۔“ اس نے فوراً آنکھیں ماتھے پہ رکھیں۔
”تم میری جیب خالی کرواؤ گی۔“ نبیل نے مصنوعی غصے سے اسے گھورا۔
”شکر کریں دل خالی نہیں کروایا۔“ وہ چہک کی بولی تو نبیل کا بلند و بانگ قہقہہ آزاد ہوا۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum