Episode 36 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 36 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

اور وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔ سرفہیم فاروقی نے حسب توقع اسی کی Persentation رکھ دی تھی۔ اسے جتنے مہذب القابات یاد تھے دل ہی دل میں ان سب سے سر فاروقی کو نواز چکی تھی۔ لیکن مسئلہ تو جوں کا توں برقرار تھا۔
”بارہ بجاتی شکل لے کر جب وہ لائبریری میں داخل ہوئی تو سامنے ٹیبل پر ہی اسے تیمور خان بیٹھا نظر آ گیا۔ میرب کے الفاظ اچانک ہی اس کے کانوں میں گونجے تو چند سکینڈ وہیں کھڑے کھڑے سوچنے کے بعد وہ دل میں ارادہ کرتی اس کی ٹیبل کی طرف بڑھ ہی گئی۔
”قسمت آزما لینے میں کیا حرج ہے زیادہ سے زیادہ بے عزتی ہو جائے گی۔ کھا تو نہیں جائے گا۔ وہ۔“ خود کو دلاسہ دیتی وہ اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
”تیمور خان جو بڑے مگن انداز میں نوٹس بنانے میں مصروف تھا۔ اس کے یوں سر پر آکھڑے ہونے کی وجہ سے ایک دم چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔

(جاری ہے)

وہ بڑے انہماک سے اس کے تیزی سے چلتے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔

تیمور دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گیا۔ کافی دیر تک جب اس کے پوز میں کوئی فرق نہ آیا تو وہ خود ہی اسے کہنے پر مجبور ہو گیا۔
”بیٹھ جائیں پلیز۔“ وہ یوں فرمانبرداری سے فوراً بیٹھ گئی جیسے کہ اسٹوڈنٹ کو سزا کے بعد بیٹھنے کی اجازت ملتی ہے۔ تیمور کو ہنسی تو بہت آئی لیکن وہ کمال مہارت سے چھپا گیا۔
”آپ کو کچھ کہنا ہے؟“ وہ کافی دیر سے نوٹ کر رہا تھا وہ کچھ کہنے کی کوشش میں لب کھولتی پھر ایک دم بھینچ لیتی اس سے رہا نہ گیا تو بالآخر پوچھ ہی لیا۔
”جی… ای… ای“ رباحہ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری خود کو آرنلڈ تصور کرتے ہوئے وہ یہاں تک آ تو گئی تھی مگر اب کچھ کہنے کا خود میں حوصلہ نہیں پا رہی تھی۔
”نن۔ نہیں۔“ بوکھلاہٹ میں اس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ تو خجالت سے سرجھکا کے رہ گئی۔
اس کے جھکے ہوئے سر اور لرزتی پلکوں کو اس نے بڑی دلچسپی سے دیکھا تھا۔ اسے کچھ کچھ تو اندازہ ہو رہا تھا۔
وہ اس کے پاس کیوں آئی تھی۔ کلاس میں الگ تھلگ ،چپ چاپ اور قدرے گم صم رہنے والی اسٹوڈنٹ سے اسے ہرگز توقع نہیں تھی کہ اس کے روڈ اور لئے دیئے رویہ کے باوجود وہ اس کے پاس آئے گی۔
”آپ سر فہیم فاروقی کی دی گئی Presentation کی وجہ سے پریشان ہیں؟ کیونکہ آپ کے لاسٹ لیکچرز تو مس ہو گئے تھے۔“ وہ اس کے چہرے پر نظریں جما کے بولا تو وہ منہ اٹھا کے ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگی۔
”آ… آپ کو کیسے پتہ چلا؟“ وہ واقعی بے حد حیران ہوئی تھی گہری سیاہ آنکھیں حیرت اور معصومیت لئے ہوئے تھیں۔ تیمور کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی اس نے بے ساختہ نگاہیں چرائیں۔
”بالکل سامنے کی بات ہے کوئی بھی سمجھ سکتا ہے۔“ وہ بڑے آرام سے بولا۔
اب کی دفعہ کچھ بولنے کی بجائے وہ دوبارہ نگاہیں جھکا کے میز کی سطح کو گھورنے لگی۔
تیمور خان نے بڑی گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا۔ گرم نگاہوں کی تپش محسوس کرکے وہ مزید گھبرا گئی۔
”میں چلتی ہوں۔“گھبراہٹ و بوکھلاہٹ میں وہ فوراً کھڑی ہو گئی۔
”سنیں مس رباحہ نعیم!“ اس نے پکارا تو وہ پلٹ کر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
”کل چھٹی مت کیجئے گا کیونکہ میں کل نوٹس لے آؤں گا۔“ مسکراہٹ لبوں میں دبا کر وہ بولا۔
رباحہ پر ایک مرتبہ پھر حیرت کا دورہ پڑا تھا۔
وہ پوری آنکھیں اور منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔ جیسے اس کے کانوں نے سننے میں غلطی کی ہو۔ تیمور نے بڑی دلچسپی سے دوسری دفعہ یہ منظر دیکھا تھا۔
”لیکن آپ کو اس کا معاوضہ بھی ادا کرنا پڑے گا۔“ وہ بھی کرسی دھکیل کر کھڑا ہو گیا۔
”آں… ہاں… وہ بھی کر دوں گی جو بھی آپ کہیں۔“ وہ فوراً بولی مبادا وہ مکر ہی نہ جائے۔
”اور کے پھر تیار رہے گا۔
“ وہ بھرپور نگاہ اس پہ ڈالتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا جبکہ رباحہ خوشی سے جھوم جھوم گئی۔ اس کے لہجے اور نظریں پر غور کئے بغیر وہ خاصی خوشی خوشی سے باہر نکل گئی تھی۔
###
میری آرزو ہے تجھے پیار کر دوں
تجھے چاہتوں سے نکھار دوں
کہیں آنسوؤں میں ڈوب کر
تجھے ہر گھڑی میں قرار دوں
میں جنون عشق میں جھوم کر
تجھے قربتوں کا حصار دوں
مجھے تم سے کتنا پیار ہے
تاروں کا کیسا شمار دوں
میرے ہر طرف تیری ہی سوچ ہے
کیسے میں خود کو فرار دوں
آکر پھر تم کہیں نہ جاؤ
تمہیں اپنی روح میں یوں اتار دوں
گھر والوں کو ندا پسند کیا آئی تھی نبیل بھائی نے تو ہتھیلی پر سرسوں جمانے والی بات کی تھی۔
ندا کی فیملی سادہ اور پرخلوص تھی۔ اگرچہ مالی طور پر وہ لوگ زیادہ اچھے نہیں تھے لیکن محبت اور خلوص کی کمی نہ تھی اور یہی بات ان سب کو بھا گئی تھی۔
”نبیل بھائی! آج ہم سب نے شاپنگ پر جانا ہے۔“ شادی میں صرف پندرہ دن رہ گئے تھے اور ان لوگوں کی تیاری ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔ ہر طرف ہڑبونگ مچی تھی۔ عالیہ آپی ٹورنٹو سے اور عنبر آپی ٹیکسلا سے تشریف لا چکی تھیں۔
عالیہ آپی کے دو بچے اذان اور نومی تھے جبکہ عنبر آپی کی ایک بیٹی تھی۔ تینوں شیطان کا ٹولہ تھے۔ سب سے زیادہ شامت مزنہ کی آتی تھی۔ میرب اور رباحہ تو پھر یونیورسٹی چلی جاتی تھیں کہ ان کی پڑھائی ٹف تھی جبکہ مزنہ بیچاری دھر لی جاتی تھی۔ وہ سارا دن ہلکان ہو جاتی۔
”تم کیا سارا دن پریکٹس پر رہتی ہو۔“ وہ جو نومی کے منہ میں زبردستی فیڈ دینے کی کوشش کر رہی تھی۔
رافع کی بات پر تملا کے سر اٹھایا۔
”تم میرے منہ نہ لگو تو بہتر ہے۔“ وہ تو پہلے ہی خار کھائے بیٹھی تھی۔
”عالیہ آپی دیکھ لیں ناں کہ تم نے ان کی راج دلاری بیٹی کا کیا حال کیا ہے تو تمہاری اچھی طرح خبر لے لیں۔“ وہ اسے چڑانے سے باز نہیں آیا۔
”تمہارا دل جو اس معصوم کی محبت میں پگھل رہا ہے تو تم خود سنبھال لو۔“ وہ تڑاخ سے بولی۔
”یہ خالصتاً خواتین کا شعبہ ہے ورنہ شاید تمہاری ہیلپ کر ہی دیتا۔“ وہ کمال بے نیازی سے بول۔
”تو پھر خواتین کے شعبے میں اپنی ٹانگ نہ ہی اڑاؤ۔“ بالاخر وہ نومی کو خاموش کروانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
”نبیل بھائی!“ میرب چلانے والے انداز میں بولی تھی۔
”جی بہنا!“ بڑے دلارے جواب آیا تھا۔
”ہم سب نے شاپنگ پر جانا ہے۔
“ وہ اپنے لفظوں پر زور دے کر بولی۔
”تو جاؤ ناں روکا کس نے ہے؟“ مزے سے کہتا وہ صوفے پر پھیل گیا۔
”جائیں کس کے ساتھ…؟“ وہ جیسے زچ ہو کے بولی۔
”یہ رافع ہے ناں جاؤ رافع ان کو شاپنگ پر لے جاؤ۔“ وہ یوں کہہ رہا تھا جیسے رافع اسی کے حکم کا منتظر تو یہاں بیٹھا تھا۔
”شادی رافع کی نہیں آپ کی ہے۔“ اب کی دفعہ رباحہ نے مداخلت کی۔
”آ… اچھا۔“ نبیل نے یوں آنکھیں پھیلائیں جیسے یہ اس کیلئے بریکنگ نیوز ہو۔ اچھا خاصا سنجیدہ نبیل بھی ان دنوں شوخ ہو رہا تھا۔
”جی… ای… ای“ میرب نے بھی اسی اسٹائل میں جواب دیا۔
”چلیں اٹھیں اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔“ میرب نے زبردستی بازو پکڑ کر سے اٹھایا۔
”شادی کیا ہو رہی ہے نبیل بھائی نے تو آنکھیں ہی ماتھے پر رکھ لی ہیں۔
“ مزنہ بھی نومی کو سلا آئی تھی۔
”پہلے ہی یہ حال ہے بعد میں پتہ نہیں کیا ہوگا۔“ میرب نے آنکھیں نکالیں تو وہ ہنس پڑا۔
”تو یہ ہے خواتین سے کون جیت سکتا ہے۔“ وہ کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔
”خواتین۔“ وہ تینوں یک زبان چلائیں تو رافع اور نبیل کے بے ساختہ قہقہے ابل پڑے۔
###
شادی کے ہنگامے ذرا سرد پڑے تو سب ہی اپنی اپنی روٹین پر آگے۔
نبیل اور ندا تو ہنی مون ٹرپ پر نکلے ہوئے تھے۔ عنبر آپی تو واپس چلی گئی تھیں جبکہ عالیہ آپی ابھی یہیں تھیں اور ابھی ان کا مزید ارادہ تھا رکنے کا کہ پتہ نہیں اب کب موقع ملے آنے کا۔
میرب نے تو نئی نئی یونیورسٹی جوائن کی تھی۔ اس کا M.BA ابھی اسٹاٹ ہی ہوا تھا۔ مزنہ نے بھی بادل نخواستہ کالج جانا شروع کر دیا تھا۔ رافع کو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب مل گئی تھی۔
وہ بھی وہیں جوائن کرنے لگا تھا جبکہ عذیر فی الحال ٹامک ٹوٹیاں ہی مار رہا تھا۔ کبھی آفس چلا جاتا کبھی جاب کے پلان بناتا اور کبھی کوئی اپنا بزنس کرنے کا۔ لیکن سب جانتے تھے کہ وہ اتنے پانی میں نہیں کہ یہ دونوں کام ہی کر سکے۔ گھوم پھر کے اس نے باپ کے ساتھ ہی کام کرنا تھا۔
رباحہ یونیورسٹی گئی تو جاتے ہی اسے یہ شاکنگ نیوز سننے کو ملی کہ Caming month ان کے سمسٹرز سٹارٹ ہونے والے ہیں۔
اس کے تو پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی اور تو وہ پہلے ہی پڑھائی میں ”پوری“ تھی۔ بمشکل کھینچچ تان کے تو M.sc تک پہنچی تھی۔ پہلی پہلی شادی کی خوشی میں خوب دل کھول کر چھٹیاں کی تھیں اب مارے گھبراہٹ اور پریشانی کے برا حال ہو رہا تھا۔
”لیکن سونیا! ابھی تو وہ ماہ بعد سمسٹرز ہونے تھے۔ پھر اتنی جلدی کیوں…؟“ کیا پتہ تمہیں سننے میں غلطی لگی ہو۔
“ اس نے تصدیق کیلئے پھر ایک دفعہ سونیا سے پوچھا۔
”جی نہیں مجھے سننے میں قطعاً غلطی نہیں ہوئی اور اگر مزید تصدیق کرنی ہو تو نوٹس بورڈ پر جا کر دیکھ لو۔“ سونیا کے جواب پہ وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔
”یا للہ! اب کیا کروں۔“ سونیا تو اٹھ کر چلی گئی تھی جبکہ وہ اپنا سر تھام کے رہ گئی۔
”لگتا ہے اس دفعہ تو فیل ہی ہو جاؤں گی۔
“ وہ روہانسی ہو کر بڑبڑائی۔
ہوا جب تیز چلتی ہے
تمہارا ذکر ہوتا ہے
جب پتے سرسراتے ہیں
تمہارا ذکر ہوتا ہے
کبھی ہولے سے شب کو
میرے دل میں آکر دیکھو
اک محفل سجی ہوتی ہے
اور تمہارا ذکر ہوتا ہے
تمہیں کیسے بتاؤں کتنی چاہت
میں نے کی ہے تم سے
کہ جب آنسو چھلکتے ہیں
تمہارا ذکر ہوتا ہے

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum