Episode 37 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 37 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

”اسلام علیکم“ پتہ نہیں تیمور خان اچانک کہاں سے نمودار ہوا تھا۔ وہ اپنی پریشانی میں اس قدر گم تھی کہ اردگرد پرواہ ہی نہ تھی۔
”وعلیکم اسلام“ وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
”کیسی ہیں آپ؟ اتنے دن سے کہاں غائب ہیں۔“ وہ اس سے کچھ فاصلے پر ہی گھاس پر بیٹھ گیا۔
”ہاں میرے بھائی کی شادی تھی۔“ وہ پریشان اس قدر تھی کہ چاہنے کے باوجود بھی لہجے میں بشاشت نہیں سمو سکی۔
”اچھا آپ نے تو انوائیٹ نہیں کیا۔“ اس نے شکوہ کیا۔
”ایں“ اس نے حیرت میں گھبرا کر اسے دیکھا۔ ان کے درمیان کب اتنی فرینکنیس تھی کہ وہ اسے انوائیٹ کرتی۔
”بندہ کسی کے احسان کا بدلہ ہی اتار دیتا ہے اس بہانے۔“ حسب توقع اس کی آنکھوں میں تیرتی حیرت دیکھ کر وہ خاصا محفوظ ہوا تھا۔

(جاری ہے)

”اوہ اچھا سوری نیکسٹ ٹائم ضرور بلواؤں گی انشاء اللہ!“ اس کا سابقہ ”احسان“ یاد کرکے وہ خجل ہو کے سر جھکا گئی۔
”نیکسٹ ٹائم کب اپنی شادی پر…؟“ وہ پھر مائل بہ شرارت ہوا۔
”نہیں… تو…“ اس کے منہ سے بالکل غیر متوقع بات سن کے وہ جھجک کے اسی قدر کہہ سکی ایک لمحے کیلئے حیاء کی لالی نے اس کے چہرے پر چھپ دکھلائی دی تھی۔ تیمور نے خاصی دلچسپی سے یہ منظر دیکھا تھا۔
”آپ کیسے ہیں؟“ اس کی نظروں کے حصار سے بری طرح سٹپٹائی تھی اسی لئے اس کی توجہ ہٹانے کو پوچھ لیا۔
”اس وقت خود کو خاصا فریش محسوس کر رہا ہوں۔“ وہ مسکراتے ہوئے معنی خیزی سے بولا۔
”آپ کو پتہ چلا نیکسٹ منتھ سمسٹر سٹارٹ ہو رہا ہے۔“ وہ جو چند لمحوں کیلئے اس پریشانی کو بھولی تھی دوبارہ یاد آنے پر اس سے پوچھنے لگی۔
”ہاں مجھے بھی چند دن پہلے ہی پتہ چلا تھا۔“ وہ بھی سنجیدہ ہوا۔
”ہائے اللہ! مجھے لگتا ہے میں بری طرح فیل ہو جاؤں گی۔
“ وہ روہانسی ہو کر بولی۔
”کیا اچھی طرح بھی فیل ہوا جاتا ہے۔“ وہ جو ایک لمحے کیلئے سنجیدہ ہوا تھا دوبارہ شوخی سے گویا ہوا۔
”کتنی عزت افزائی ہو گی ناں سب کے سامنے اور ندا بھابھی کیا سوچیں گی۔ میری نند کتنی نالائق ہے۔“ اس نے گویا اس کی بات سنی ہی نہیں تھی خود میں ہی بڑبڑانے لگی۔
”اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو ایک بات کہوں۔
“ اس نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”جی“ وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔
”اگر آپ چاہیں تو مجھ سے ہر قسم کی Help لے سکتی ہیں۔“ اس نے بڑے ٹھہرے ہوئے باوقار لہجے میں آفر کی تھی۔
”آ… آپ سے…؟“ رباحہ تو بے ہوش ہونے کے قریب تھی۔ کہاں تو وہ پوری یونیورسٹی میں کسی کو گھاس نہیں ڈالتا تھا اور کہاں اسے اتنی اچھی آفر۔
”کیوں میں کیا کسی کی مدد نہیں کر سکتا۔“ اس نے یوں ظاہر کیا جیسے وہ برا مان گیا ہو۔
”نن… نہیں میرا یہ مطلب تو نہیں تھا آپ تو بہت نیک اور رحم دل ہیں۔“ وہ جلدی جلدی میں جو منہ میں آیا بول گئی بغیر سوچے سمجھے۔ مبادا وہ اپنی پیشکش واپس ہی نہ لے لے۔
اس کے نیک اور رحم دل کہنے پر تیمور کو ہنسی آ گئی۔ وہ واقعی بے حد سادہ تھی۔
”شاید جلدی میں کچھ غلط بول گئی ہوں۔“ وہ اسے ہنستا دیکھ کر اس نے شرمندہ ہو کر دل میں سوچا۔
”او۔ کے آپ مجھے بتا دیجئے گا آپ کو کون سے ٹاپک حل کرنے ہیں۔ میں آپ کو نوٹس بھی لادوں گا اور اگر کہیں کوئی Problem ہوئی تو سمجھا بھی دوں گا۔“ اسے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ وہ اس پر اتنا مہربان کیوں ہو رہا ہے۔ آج اتنے دنوں بعد اس کی شکل دیکھ کے قدم خود بخود اس کی طرف اٹھ گئے تھے۔
”تھینکس… تھینکس سو مچ۔“ وہ خوشی سے بے قابو ہوتے لہجے میں بولی۔ اس کے چہرے کی جگمگاہٹ نے تیمور کے اندر باہر روشنی بھر دی تھی۔
”یو آر آلویز موسٹ ویلکم۔“ اس کے چہرے پر نظریں جما کے وہ گہرے لہجے میں بولا۔
”لیکن اختیاط کیجئے گا کسی کو پتہ نہ چلے۔“ اس نے آخر تنبیہ بھی کر دی۔ وہ جس قدر بے وقوف تھی اس سے کچھ توقع نہیں تھی کہ اپنے ساتھ پورے ڈیپارٹمنٹ کو بھی شریک کر لیتی۔
”ڈونٹ وری میں کسی کو نہیں بتاؤں گی۔“ اس کی خوشی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔
”اور ہاں میں فیس بھی لوں گا۔“ وہ جاتے جاتے پھر شریر ہوا۔
”ضرور کیوں نہیں میں دے دوں گی۔“ حسب توقع اس نے ظاہری مطلب اخذ کیا تھا اور گہرائی میں جانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
تمیور کے لبوں پر مسکراہٹ پھیلی تھی اسے اللہ حافظ کہتا وہاں سے اٹھ آیا۔
###
وہ یونیورسٹی سے گھر لوٹی تو لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اسے غیر معمولی چہل پہل کا احساس ہوا۔ حسب خلاف اس وقت ہی سب کی محفل جمی تھی۔ وہ بھی اپنے کمرے میں جانے کی بجائے سب کو مشترکہ سلام کرتی شولڈر بیگ اور فائل سائیڈ پر رکھتی وہیں دھپ سے صوفے پر بیٹھ گئی۔
”ہائے پانی تو پلا دو ظالمو!“ اس نے بیٹھتے ہی ہانک لگائی۔
”میرب! ان سے ملو یہ میرے بھائی ہیں عمیر حسن۔
“ ندا بھابھی نے اسے مخاطب کیا تو وہ چونک کر اپنے سائیڈ والے صوفے کی طرف متوجہ ہوئی۔ جہاں ایک خوبرو نوجوان آنکھوں میں ذہانت کی چمک لئے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
”ہیں…“ اس نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کے اسے دیکھا۔
”مطلب کہ ایک مہینے میں اتنی ترقی…؟“
”کیا مطلب…؟“ عمیر کے ساتھ ساتھ وہ سب بھی اس کے مبہم جملے پر حیران ہوئے تھے۔
”مطلب کہ ایک ماہ پہلے جب ندا بھابھی کی شادی ہوئی تو ان کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ ایک مہینے میں اتنا بڑا بھائی…؟ امیزنگ۔“ اس کی حیرت ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔
”دبی دبی مسکراہٹ ان سب کے چہروں پر پھیل گئی۔
”عمیر میرا پھوپھی زاد بھائی ہے آئی مین کزن۔“ ندا نے وضاحت کی۔
”اوہ… اچھا۔“ اس نے یوں اطمینان بھرا سانس خارج کیا جیسے کوئی بہت بڑی مشکل حل ہو گئی ہو۔
عمیر بھی اس کے انداز پر مسکرا دیا۔
”ویسے بائی دا وے آپ اب تک کہاں غائب تھے؟ میں نے تو آپ کو شادی میں بھی نہیں دیکھا۔“ وہ اب براہ راست عمیر سے مخاطب ہوئی۔
”میں ایجوکیشن کے سلسلے میں لندن میں تھا۔ اسی ہفتے واپس آیا ہوں تو ماما نے ندا آپی کی شادی کا بتایا۔ مجھے تو کسی نے انفارم ہی نہیں کیا ورنہ شادی میں شرکت کی ضرور کوشش کرتا۔
اب آیا ہوں تو پہلی فرصت میں ندا آپی سے ملنے آ گیا ہوں۔“ اس نے بڑے مفصل انداز میں جواب دیا۔ اس کے مہذب اور شائستہ لب و لہجے نے میرب کو متاثر کیا تھا۔
”عمیر بہت اچھا ہے ہمیں کبھی بھائی کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ بالکل بھائیوں کی طرح ہم سب بہنوں کا خیال رکھتے ہیں۔“ ندا کے لہجے میں محسوس کی جانے والی محبت و چاہت تھی۔
”دراصل جو لوگ خود اچھے ہوتے ہیں ناں انہیں سب ہی اچھے لگتے ہیں۔
“ عذیر نے فلسفہ جھاڑا۔
”اور یوں تم جیسوں کے حصے میں بھی ایک آدھ تعریف آ ہی جاتی ہے۔“ میرب نے اسے لتاڑا۔
”تم بھی میری ہی قبیل سے ہو۔“ وہ کون سا ادھار کا قائل تھا۔
”اٹھو میرب! جاؤ اپنے کمرے میں فریش ہو کپڑے Change کرو۔ چلو مزنہ اور رباحہ اٹھو شام کی چائے کی تیاری کرو۔“ ندرت نے اندر آتے ہوئے تینوں کو اٹھایا۔
”پرایا بچہ آیا بیٹھا ہے اور انہیں کوئی عقل ہی نہیں ہر وقت بس چونچیں لڑاتے رہتے ہیں۔
پتہ نہیں کب بڑے ہوں گے۔“ وہ دل ہی دل میں انہیں کوسے جا رہی تھی۔
اپنے کمرے میں آکر فریش ہونے کی بعد وہ جو لیٹی پھر اس وقت اٹھی جب شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔ بکھرے بالوں کو جوڑے کی شکل میں لپیٹتی دوپٹے کو بائیں کندھے پہ ڈالتی وہ باہر لان میں آئی۔ تو سب چائے کے ساتھ لطف اندوز ہو رہے تھے۔
”ہو گئی نیند پوری؟“ ندا بھابھی اسے دیکھ کر مسکرائیں اور اپنے ساتھ والی کرسی اس کیلئے بڑھائی۔
”جی آج یونیورسٹی میں کافی تھکاوٹ ہو گئی تھی۔ راستے میں پوائنٹ میں گڑبڑ ہو گئی بس کھینچ تان کر گھر تک پہنچی ہوں۔“
نیند کے خمار سے گلابی ہوتی آنکھیں ،چہرے کے اطراف سے نکلتی لٹیں۔ جنہیں بے دھیانی میں وہ بار بار کان پیچھے اڑس رہی تھی۔ عمیر کی نگاہوں کا مرکز بن گئی۔
”کیا پڑھ رہی ہیں آپ؟“ عمیر نے پوچھا۔
”میں ایم۔
بی اے کر رہی ہوں۔“ وہ مزنہ سے چائے کا کپ پکڑتے ہوئے بولی۔
”عمیر بھائی ہمیں لندن کا کوئی مزے دار واقعہ سنائیں۔“ مزنہ نے اپنی عقل کے مطابق ہی بات کی تھی۔
”وہ لندن گئے تھے ایئر فورس میں نہیں جو تمہیں مزے دار واقعے سنائیں۔“ رافع نے حسب عادت اسے گھسیٹ لیا تھا۔
”تم نے ہر بات میں ضرور ٹانگ اڑانی ہوتی ہے۔“ وہ چڑ کے بولی۔
”ٹانگ جو اتنی لمبی ہے خود بخود ہی اڑ جاتی ہے۔“ رباحہ کی زبان میں بھی کھجلی ہوئی۔
”تمہاری زبان سے تو چھوٹی ہی ہے۔“ وہ بیک وقت کئی محاذوں پر لڑ سکتا تھا۔
”بس کرو اب شروع مت ہو جانا۔“ ندرت نے ڈپٹا۔
”رہنے دیں آنٹی! یہ ہی تو محبت کی علامت ہے۔“ عمیر نے فوراً ان کی سائیڈ لی۔
”نبیل بھائی اور عذیر نظر نہیں آ رہے۔
“ ان دونوں کو غائب پاکر میرب نے دریافت کیا۔
”تمہارے ماموں کا فون آیا تھا۔ کوئی ڈیلیگیشن آ رہا تھا۔ اس لئے دونوں چلے گئے۔ مجھے تو خود اچھا نہیں لگ رہا تھا ان کا جانا عمیر آیا تھا اس کو کمپنی دیتے۔“ ندرت نے کہا۔
”کوئی بات نہیں آنٹی! میں جانتا ہوں بزنس کی مصروفیات کو۔ ایسا سب تو چلتا ہی رہتا ہے۔“ اس نے فوراً پوزیشن کلیئر کرنا چاہی۔
”پتہ نہیں واقعی اتنا سعادت مند ہے یا صرف پوز کر رہا ہے۔“ میرب نے جانچتی نظروں سے اسے دیکھا۔ اس دم عمیر نے نظریں اٹھائیں۔ نظروں کے تصادم پہ میرب نے جزبز ہو کے نگاہیں جھکا لیں اور فوراً چائے کا کپ لبوں سے لگا لیا جبکہ عمیر کے ہونٹوں پر بڑی دلکش مسکراہٹ بکھری تھی۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum