Episode 41 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 41 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

ندا بھابھی کی برتھ ڈے کا فنکشن انہوں نے مل کر ہی ارینج کیا تھا اور کوئی بڑے پیمانے پر نہیں تھا بس سب فیملی کے افراد ہی تھے یا عمیر حسن اور ندا بھابھی کی بہنیں تھیں۔ ان سب نے مل کر خوب ہلا گلہ مچایا ہوا تھا۔ حالانکہ ندا بھابھی قطعی اس حق میں نہ تھیں اور انہوں نے اس پروگرام کی بے حد تردید بھی کی تھی۔ لیکن ان سب کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔
گھر میں ہی ان سب نے مل کر کچھ ڈشز کا اہتمام کر لیا تھا۔
کچھ بیکری وغیرہ کا سامان نبیل بھائی نے بازار سے منگوا لیا تھا۔ یوں ان سب کی خوب محفل جمی تھی۔
”ایسا سرد سرد سا ماحول تو مجھے ذرا فیسی نیٹ نہیں کرتا کچھ گرما گرم ہونا چاہئے۔“ وہ سب بڑے مہذب انداز میں خوش گپیاں لگا رہے تھے اور رافع کی بے چین فطرت کو کسی طور پر گوارا نہیں تھا۔

(جاری ہے)

اسی لئے سب سے پہلے اسی کی زبان میں کھجلی ہوئی تھی۔

”چائے بناؤں میں۔“ مزنہ نے اس کی بات کو سمجھتے ہوئے بھی جان بوجھ کے لطیف ساطنز کیا تھا۔
”چائے نہیں کافی لے آؤ بلکہ یوں کرو بلیک کافی بغیر شکر کے۔“ مقابل بھی رافع تھا۔ جو پہلے ہی مزنہ سے محاذ آرائی کیلئے ہر دم تیار رہتا تھا۔
”اسے ہر وقت نشانہ بنائے رکھتے ہو تم خود کہاں کے پرنس چارلس ہو۔“ میرب فوراً اس کی حمایت کیلئے میدان میں کودی۔
”میری اماں جان سے پوچھ کر دیکھو۔“ اس نے فرضی کالر اکڑائے ایسی بڑک وہ اپنی ”اماں جان۔“ کی غیر موجودگی میں ہی مار سکتا تھا اور یہ سب وہ اچھی طرح جانتے تھے۔
”ضرور بچہ جی! کہو تو ابھی بلا کے پوچھ لوں تاکہ سب کے سامنے آپ کا ”سواگت“ ہو جائے اور دل نامراد کی حسرت بھی پوری ہو جائے۔“ عذیر نے فوراً اسے آئینہ دکھایا۔
”اوئے… تو میرا دوست ہے یا دشمن…؟“ اس نے خونخوار نظروں سے عذیر کو گھورا۔
”ففٹی ففٹی۔“ عذیر بھی ایک نمبر کا کمینہ تھا۔
”بڑا ذلیل ہے۔“ رافع نے ملامتی نظروں سے اسے گھورا مگر وہ ڈھیٹ بنا دانت نکالتا رہا۔
”بس… بس آج لڑنے کا دن نہیں ہے۔“ رباحہ نے دخل انداز کی۔
”تو کیا پڑھنے کا دن ہے؟“ اس نے روئے سخن اب رباحہ کی طرف کیا۔
”خود ہی تو کہہ رہے تھے کچھ گرما گرم تو اب کچھ اچھا سا سناؤ۔
“ اب کی دفعہ عمیر حسن نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
”میں سناؤں…؟“ اس نے آنکھیں پھیلائیں۔
”آپ لوگ سناؤ۔“ ادھر کی شان بے نیازی کمال تھی۔
”نہ بھئی نہ… تم نے کہا تھا لہٰذا اب تم ہی سناؤ گے۔“ نبیل بھائی نے بھی اصرار کیا۔ پھر تو سب ہی اس کے سر ہو گئے اور تو اور ندا بھابھی نے بھی کہا تو اسے گھٹنے ٹیکنے ہی پڑے۔
چند لمحے کچھ سوچنے کے بعد وہ دھیمے لہجے میں بولنا شروع ہوا تو گویا وہاں پر موجود سب افراد کو ہی سانپ سونگھ گیا۔
”تیرے سوا۔“
نہیں اور کچھ بھی تیرے سوا
میرا پیار
میری زندگی
میری خاموشی
میری بے بسی
میرا علم بھی
میرا نام بھی
کہ میری صبح
میری شام بھی
کہ جو مل سکیں میرے دام بھی
وہ سبھی کچھ تجھے عطا کرے
میرے چارہ گر!
تو یقین تو کر
مجھے مانگنا تو نہ آسکا
میں نے پھر بھی مانگی یہی دعا
کہ گواہی دے گا میرا خدا
میں نے جب بھی اس سے طلب کیا
نہیں مانگا کچھ بھی
تیرے سوا
”واہ… زبردست۔
“ ان سب کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ انہیں ہرگز امید نہیں تھی کہ بظاہر اتنا اونگا بونگا نظر آنے والا رافع اتنے لطیف جذبات رکھتا ہوگا۔
”یقین نہیں آ رہا ہے رافع! تمہارا ذوق ایسا بھی ہو سکتا ہے۔“ میرب تو بول ہی اٹھی۔
”تم سب کا ”ذوق“ تو مر گیا ”دہلی“ میں مجھے بھی اپنے جیسا سمجھ رکھا ہے۔“ وہ واپس اپنی جون میں پلٹ چکا تھا۔
”اب ایسی بھی بات نہیں۔
“ عذیر کی نام نہاد انا بھڑکی۔
”تم بھی اتر آؤ میدان میں۔“ اس نے سینہ ٹھونک کر چیلنج کیا۔
”میں میدان میں اتر آیا تو تمہاری ویلیو ڈاؤن ہو جائیگی۔“ وہ لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ نچا کر بولا۔ تو ان سب کے چہروں پر دبی دبی مسکراہٹ پھیل گئی۔
”اس کی ویلیو Up کب تھی جو down ہو گی؟“ مزنہ کیلئے بھی زیادہ دیر خاموش بیٹھنا محال تھا۔
”تم اپنی سناؤ نہ تین میں نہ تیرہ میں۔“ وہ بلبلا کے اس کی طرف پلٹا۔
”بھئی اصل بات تو پھر وہیں رہ گئی“ ندا بھابھی نے انہیں مزید لڑائی سے روکا۔
”ہاں تو کون اترے گا اب میدان میں۔“ رافع نے باری باری سب کو دیکھا۔ وہ سب تو اس معاملے میں صفر تھے لہٰذا بغلیں جھانکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
”چہ…چہ… چہ لگتا ہے سب کورے ہو۔
“ رافع کو تو موقع مل گیا تھا سینہ پھلانے کا۔
”ہائے میرب! دیکھو اس ذلیل کو کیسے اکڑ رہا ہے۔ تم ہی کچھ سنا دو۔“ مزنہ کو فکر لاحق ہوئی۔ تو اس کے کان میں کہنے لگی۔
”مزنہ صحیح کہہ رہی ہے۔“ رباحہ نے بھی اس کی اکڑ دیکھ کے دانت پیسے اور اس کا طنطنہ ختم کرنے کیلئے میرب کو بالآخر میدان میں اترنا ہی پڑا۔
”زیادہ رعب جھاڑنے کی ضرورت نہیں ہے ہم ایسے بھی بدذوق نہیں ہیں۔
“ میرب دانت کچکچا کے بولی۔
”ارے واہ۔ اندھا کیا جانے بسنت بہار…“ اس نے مذاق اڑایا۔
”اس بے تکے محاورے کا مقصد…؟“ اس نے بھنویں اچکائیں۔
”تم خود کو سمجھتے کیا ہو…؟“ مزنہ بھلا اس کارخیر میں کیوں نہ حصہ لیتی۔
”تمہارا…“ اس نے کچھ کہتے کہتے زبان دانتوں تلے دبا لی۔
”بھائی…“ عمیر نے بے ساختہ کہا تو محفل زعفران بن گئی۔
”آئی تھنک میرب کچھ سنانا چاہ رہی تھی۔“ عمیر نے دوبارہ ان سب کی توجہ میرب کی طرف مبذول کروائی۔
”آں… ہاں…“ وہ گڑبڑا گئی اس کا ذوق کچھ ایسا اعلیٰ بھی نہیں تھا۔ رباحہ اور مزنہ کی باتوں میں آکر وہ کہہ تو گئی تھی مگر اب سنانا تو تھا۔
”اب پھوٹ بھی پڑو۔“ رباحہ نے کہنی اس کی کمر میں گھیسڑی۔ تو وہ ذہن کی ڈکشنری کھنگالنے لگی۔
بالآخر ایک بھولی بسری نظم اسے یاد آ ہی گئی۔
بہت ہی مان ہے تم پر
سنو! پاس وفا رکھنا
سبھی سے تم ملو لیکن
ذرا سا فاصلہ رکھنا
بچھڑنا بھی تو پڑتا ہے
ذرا سا حوصلہ رکھنا
وہ سارے وصل کے لمحے
تم آنکھوں میں سجا رکھنا
ابھی امکان باقی ہے
ابھی لب پہ دعا رکھنا
بہت نایاب ہیں دیکھو
ہمیں سب سے جدا رکھنا
”واہ… واہ… واہ۔
“ ان سب نے ہی بہت داد دی تھی اور سب سے آگے خود رافع ہی تھا۔
”چلو لڑکیو! اب پھیلاوا سمیٹو یہاں سے۔“ ندرت نے اندر آکر آرڈر دیا تو وہ سب مستعدی سے کھڑی ہو گئیں اور یوں ان کی محفل برخاست ہوئی۔
”نایاب تو تم واقعی بہت ہو اسی لئے تو سب سے الگ تھلگ جگہ پر رکھا ہوا ہے۔“ وہ ندا بھابھی کی بہنوں کو الوداع کہہ رہی تھی جب اس کے دائیں پہلو سے نہایت گھمیر سی آواز ابھری۔
وہ بے ساختہ گڑبڑا کر دو چار قدم پیچھے ہٹی۔
”پہلے میرا خیال تھا تمہاری اسٹڈی کمپلیٹ ہونے تک ویٹ کر لوں بٹ اب تو ایسا ہونا خاصا مشکل لگ رہا ہے۔“ باٹل گرین لباس میں ملبوس وہ سیدھی اس کے دل میں اتر رہی تھی۔ میرب کیلئے تو نگاہیں اوپر اٹھانا مشکل ہو گیا تھا۔ وہ بس زمین کو ہی گھورے جا رہی تھی۔
”میں جلدی ندا آپی سے بات کرکے ماما کو لے کر آؤں گا ویٹ کرنا۔
“ اس کے جگمگاتے چہرے پر آخری نظر ڈال کے وہ دھیمی مسکراہٹ سمیٹ کر بولا اور آگے بڑھ گیا۔
میرب کے یہاں وہاں ہر طرف روشنی پھیل رہی تھی۔
”آہم… آہم… وہ جا چکے ہیں میڈم So come back“ رباحہ نے اس کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا تو وہ جھنیپ گئی۔ اپنی خجالت مٹانے کو اس نے اسی کی کمر پر دھموکا جڑ دیا۔
”آہ…“ وہ کراہی پھر بھی جاتے جاتے اس کے کان میں گنگنا گئی۔
مینوں رب دی سو تیرے نال پیار ہو گیا
وے چنا سچی مچی

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum