Episode 42 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 42 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

احساس کے دریا سے وہ نکلنے نہیں دیتا
وہ ٹوٹ کے مجھ کو بکھرنے نہیں دیتا
خوش ہوں اس بات سے کہ میں اس کیلئے ہوں
کسی اور کا مجھ کو وہ ہونے نہیں دیتا
وہ آخری پیپر دے کر Eaxmination hall سے باہر نکلی تو خاصی مسرور تھی۔
”شکر ہے اب اس پڑھائی سے تو جان چھوٹی۔“ وہ نہات سرشاری کی کیفیت میں خود سے مخاطب تھی۔
”لیکن ابھی تھیسس تو کمپلیٹ کرنا ہے وہ بھی کسی سر درد سے کم نہیں۔
“ تیمور خان غالباً اسی کے انتظار میں تھا۔ اس کے باہر نکلتے ہی وہ اس کے ہمقدم ہو گیا۔ رباحہ نے چونک کر اسے دیکھا پھر مسکرا دی۔
”وہ بھی کمپلیٹ ہو جائے گا اس کی اتنی ٹینشن نہیں جتنی پیپرز کی تھی۔“ اس کا ساتھ چلنا اسے اچھا لگ رہا تھا۔
”اور تمہارے گھر میں سب کیسے ہیں؟“ وہ ایکدم ہی بات پلٹ کے پوچھنے لگا۔

(جاری ہے)

”سب ٹھیک ٹھاک ہیں۔
”پھر دوسرے امتحان کیلئے تیار ہو جاؤ؟“ وہ چلتے چلتے ایکدم رک گیا تو رباحہ کو بھی رکنا پڑا۔
”ایں…“ وہ اس کا سوال خاک بھی نہ سمجھی۔
”ایک تو ناں تم بھی… لگتا ہے بعد میں تمہیں ہر بات سمجھانا پڑے گی۔“ اس نے سخت متاسفانہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”وہ ابھی بھی نہیں سمجھی تھی اسی لئے پوری آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ رہی تھی۔
”تم جیسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے مجھے دیکھ رہی ہو اس سے اردگرد کے لوگ مشکوک ہو رہے ہیں۔“ اس نے اردگرد کے ماحول کی طرف اس کی توجہ مبذول کروائی تو وہ خجل سی ہو کر آہستہ قدموں سے چلنے لگی۔
”ایکچوئلی میں اپنی فیملی کو تمہاری طرف بھیجنا چاہ رہا ہوں۔ اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو… میں تو کب سے بھیجنا چاہ رہا لیکن تمہارے ایگزمز کی وجہ سے رکا ہوا تھا۔
“ چند لمحوں کے توقف کے بعد وہ گویا ہوا تھا۔
”جی… ای… ای۔“ اب کی دفعہ اسے واقعی حیرت کا اتنا شدید جھٹکا لگا تھا کہ وہ بے ساختہ رک گئی۔
”میں تم سے ایک دفعہ پوچھنا چاہ رہا تھا۔ اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو“ وہ بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھنے لگا جہاں اب تو قوس قزح کی طرح رنگ پھیل رہے تھے۔
پتہ نہیں ایکدم اسے ڈھیروں ڈھیر شرم کہاں سے آ گئی تھی۔
اس وقت تو اس میں اتنی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ سر اٹھا کے اسے کوئی جواب ہی دے سکتی۔ بمشکل خود کو چلنے پر آمادہ کرتی وہ آہستگی سے چلنے لگی۔
”ویسے خاموشی بھی رضا مندی ہوا کرتی ہے۔“ اس کے چہرے پر پھیلتے رنگوں نے تیمور خان کو جہاں بے پناہ سکون بخشا تھا وہیں وہ شوخ بھی ہوا تھا۔
”پھر کب بھیجوں میں…؟“ وہ اب یونیورسٹی کا گیٹ کراس کر رہے تھے۔
اسی لئے وہ جلدی سے پوچھنے لگا۔
”جب مرضی۔“ وہ بمشکل دو لفظ کہہ پائی تھی۔
پھر اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا رباحہ تیزی سے اپنے پوائنٹ کی طرف بڑھ گئی۔ اسے گھر پہنچنے کی جلدی تھی تاکہ جلد یہ خبر میرب اور مزنہ کو سنا سکے۔
اور پھر ہوا بھی یہی تھا اپنے کمرے میں پہنچتے ہی اس نے ”وہ“ دھماکہ خیز نیوز سنائی تھی۔ وہ دونوں ایک لمحے کو تو ساکت ہوئی تھیں۔
سب سے پہلے میرب کا سکتہ ٹوٹا تھا۔
”تم الو کی دم ،گھنی مینسی ،چالاکو ماسی“ اس کے ہاتھ اور زبان دونوں ایک رفتار سے چل رہے تھے۔
”کٹھور ،ظالم ،خرانٹ ،ذلیل۔“ مزنہ پیچھے رہ جاتی یہ بھلا کہاں لکھا تھا۔
”ہائے… میری کمر ٹوٹ گئی مر جاؤ اللہ کرکے…! ساری عمر بیاہ کو ترسو کوئی تمہیں منہ نہ لگائے دانے نکلیں تمہارے چہروں پر سات سات کلو کے۔
“ وہ اپنے دو ہاتھوں سے ان چار ہاتھوں کا مقابلہ تو نہیں کر سکتی تھی البتہ زبان خوب فراٹے بھر رہی تھی۔
”تمہاری یہ خوبصورت لینگوئج وہ تمہارا ہیروسن لے نا تو کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا دم دما کے بھاگ جائے۔“ میرب اسے اچھی طرح پیٹنے کے بعد اب بیڈ پر جا کر بیٹھ گئی تھی۔
”اور دوبارہ کبھی اس کوچہ جاناں میں قدم رنجہ نہ فرمائے۔“ مزنہ نے اسے آخری دھموکے سے نوازنے کے بعد میرب کے برابر بیٹھتے ہوئے اظہار خیال کیا۔
”ہائے مار ڈالا ظالمو! تم تو یہی چاہتی ہو۔ پر یہ تو سوچو کہ میں تم سے بڑی ہوں۔ میں یہاں سے کھسکوں گی تو تمہارا نمبر آئے گا۔“ رباحہ نے اپنی کمر سہلاتے ہوئے جیسے بڑے پتے کی بات کی تھی۔
”ہاں یہ کام کی بات ہے جو تم نے سب سے آخر میں اگلی ہے۔“ ان دونوں کی عقل میں شاید یہ بات آ گئی تھی۔
”تو بس پھر دعائیں دو مجھے جو تمہارے لئے اتنا درد مند دل رکھتی ہے۔
“ وہ اب جتاتی ہوئی نظروں سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
”خیر دعائیں تو تب دیں گے جب تم واقعی یہاں سے دفعان ہو جاؤ گی اپنی اتری ہوئی سڑی بسی بوتھی لے کر۔“ میرب نے کہا تو وہ فقط خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی اور صرف اسے گھورنے پر اکتفا کیا۔ کیونکہ فی الحال وہ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ ان کا کوئی پتہ نہ تھا پھر اسے پہلے کی طرح دھنک کی رکھ دیتیں۔
###
تیمور خان تو اتناجلد باز تھا کہ دوسرے دن ہی اپنی فیملی کو لے کر آن دھمکا۔ رباحہ کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اسے اتنی جلد بازی کی توقع ہرگز نہیں تھی۔
”تیمور کی والدہ اور بڑی بہن ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھیں جبکہ تیمور اپنے والد سمیت دوسرے ڈرائنگ روم میں تھا۔ مرد حضرات کے پاس ان کی فیملی میں یوں غیروں کا اپنی خواتین کے سامنے بیٹھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔
تیمور کی والدہ خالدہ بیگم کی جہاندیدہ نظروں نے پورے ڈرائنگ روم کا جائزہ لیا تھا اور آنے والی خواتین کے لباس اور زیور کو دیکھ کر اندازہ ہوا تھا کہ بیٹے نے کلاس تو اچھی ڈھونڈی ہے۔ ان کی اولاد کے لاکھ سمجھانے کے باوجود ان کی طبیعت کا لالچی پن نہیں گیا تھا۔
باتوں ہی باتوں میں انہوں نے ان کے خاندان کی پوری ہسٹری معلوم کرلی تھی۔
اسی وقت رباحہ اندر داخل ہوئی تھی جس کے پیچھے میرب بھی تھی۔ دونوں نے مشترکہ طور پر سلام کیا۔
”یہ میری بیٹی رباحہ ہے اور یہ میرب ہے۔“ ندرت نے ان دونوں کا تعارف کروایا۔
”ماشاء اللہ! بڑی پیاری بچیاں ہیں اللہ! بری نظر سے محفوظ رکھے۔“ وہ بڑے مٹھاس بھرے انداز میں گویا ہوئیں۔
رباحہ تو بے حد گھبرائی ہوئی تھی جبکہ میرب بڑے اعتماد سے بیٹھی تھی۔
تیمور کی بہن نادیہ ان کی پڑھائی اور مشاغل وغیرہ کے بارے میں پوچھنے لگی۔
خالدہ بیگم نے غیر ارادی طور پر دونوں کا موازنہ کیا تھا۔ میرب ،رباحہ کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت اور کم عمر تھی۔ ویسے بھی اکلوتی اولاد تھی۔ حسنہ کا سارا کچھ اسی کے نام ہونا تھا۔ پھر MBA بھی کر رہی تھی کل کو اچھی نوکری مل گئی تو بھی انہی کا فائدہ ہونا تھا۔
جہیز بھی رباحہ کی نسبت زیادہ لائے گی۔ آخر ماموؤں کی اکلوتی ،لاڈلی بھانجی ہے ان کی لالچی فطرت بار بار سر اٹھا رہی تھی۔
”لیکن تیمور نے تو رباحہ کیلئے کہا تھا۔“ انہیں قدرے پریشانی ہوئی۔
”تو پھر کیا ہے میں رباحہ کی بجائے میرب کا نام لے دوں گی۔ جب وہ اسے دیکھے گا تو خود ہی میری پسند کی داد دے گا اور پھر میں تو اس کے مستقبل کا بھی سوچ رہی ہوں یہ ندرت بتا رہی تھی کہ ان کی فیکٹری میں میرب کے نام کے شیئرز الگ ہیں۔
وہ بھی کل تیمور کے ہی کام آئیں گے۔“ دل انہیں ہر طرح کی دلیل دے کر اپنے موٴقف پر ڈٹا رہنے کی تلقین کر رہا تھا اور پھر بالآخر انہوں نے فیصلہ کر ہی لیا۔
انہوں نے اپنے میٹھے لہجے اور بظاہر انکسار اور عاجزانہ انداز سے ان سب کو متاثر کرنے کی بھرپور سعی کی تھی اور پھر تیمور بھی وجیہہ اور ایجوکیڈ لڑکا تھا۔ جو ان سب کو بھی بہت پسند آیا تھا۔
”بس بہن جی! ہمیں تو آپ کی میرب بہت ہی پسند آئی ہے۔ ماشاء اللہ بہت نیک اور شریف بچی ہے مجھے ایسی ہی بچی اپنے تیمور کیلئے چاہئے۔“ میرب اور رباحہ کے کمرے سے نکلتے ہی وہ ندرت اور حسنہ سے مخاطب ہوئیں۔ عائشہ بیگم بھی وہیں موجود تھیں۔ رباحہ کی بجائے میرب کا نام لینے پر نادیہ نے چونک کر اپنی ماں کو دیکھا تھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں انہیں اشارہ بھی کیا تھا۔
جسے انہوں نے جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا تھا۔
”آپ جیسے چاہیں تیمور کے بارے میں تسلی کروائیں۔ اچھی طرح سوچ سمجھ کے جواب دیں۔ یہ بیٹیوں کے فیصلے ہیں اللہ سب کے مقدر اچھے کرے۔ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔“ وہ بڑے رقت آمیز درد مندانہ لہجے میں بولیں۔ یہ بھی خود کو رحم دل ظاہر کرنے کا ایک انداز تھا۔
”ہم مشورہ کرکے آپ کو کوئی جواب دیں گے۔
ویسے تیمور ماشاء اللہ اچھا لڑکا ہے۔“ حسنہ بیگم نے متانت سے کہا اور یہی بات خالدہ بیگم کا حوصلہ بڑھا گئی۔
”یار…! تیری ساس تو بڑی اچھی خاتون لگ رہی تھی۔“ رات کو وہ تینوں اپنے کمرے میں بیٹھیں اصل صورتحال سے بے خبر تبصرہ کر رہی تھیں۔ میرب نے کہا تو رباحہ نے جھینپتے ہوئے اسے گھوری ڈالی۔
”فی الحال وہ میری ساس نہیں ہے۔“
”مستقبل قریب میں تو ہے۔
“ مزنہ فوراً بولی۔
”ویسے کچھ سن گن ملی…؟ بڑوں کے درمیان کیا فیصلہ ہوا؟“ رباحہ کو فکر لاحق ہوئی۔
”تیمور بھائی مشترکہ طور پر سب کو بہت پسند آئے ہیں۔ بس اتنا پتہ چلا ہے تایا ابو کہہ رہے تھے کہ وہ لڑکے کے بارے میں ایک دو دن میں معلومات حاصل کرکے پھر انہیں کوئی جواب دیں گے۔“ مزنہ نے بتایا تورباحہ کے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ سج گئی۔
”دیکھو اس کمینی کی کیسے باچھیں کھلی جا رہی ہیں۔ ابھی یہ حال ہے شادی پر تو لگتا ہے مسکراہٹ کانوں تک پھیل جائے گی۔“ میرب نے فوراً اس کی کمر پر دھموکا جڑا۔
”کیا پتہ اسی طرح کسی توٹھ پیسٹ کے اشتہار میں چانس لگ جائے کریڈٹ تو سارا تیمور بھائی کو جارئے گا۔“ مزنہ جھٹ سے بولی۔
”جلتی رہنا جل ککڑیو۔“ رباحہ نے چھت پھاڑ قہقہہ لگایا لیکن ان دونوں کے عتاب سے بچ نہ سکی تھی۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum