Episode 43 - Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum

قسط نمبر 43 - میں اداس رستہ ہوں شام کا - مدیحہ تبسم

اور پھر جس کسی نے بھی سنا اسے یقین نہ آیا۔
”میرب اور تیور…؟
تیمور اور میرب…؟
رباحہ کو اپنا دماغ بھک سے اڑتا ہوا محسوس ہوا تھا جبکہ میرب کے قدموں تلے سے زمین کھسکی تھی۔ مزنہ نے نہایت بے یقینی سے ان دونوں کو دیکھا تھا جیسے پوچھ رہی ہو۔“ یہ کب ہوا اور کیونکر ہوا؟“
ابھی ابھی تو عائشہ مامی نے اسے بتایا تھا کہ تیمور ہر لحاظ سے اچھا لڑکا ہے فاروق ماموں نے پوری چھان بین کروا لی ہے۔
وہ دل ہی دل میں بہت خوش ہو رہی تھی۔ لیکن جب انہوں نے آخر میں اس کا نام لیا تو وہ بھونچکی رہ گئی۔
”میں نے تو حسنہ سے کہا تھا کہ ایک دفعہ میرب سے پوچھ لو اس کا تیمور کے بارے میں کیا خیال ہے حسنہ نے کہا کہ میں نے پوچھا ہے وہ بہت اچھی رائے رکھتی ہے۔ ویسے بھی تیمور شکل سے ہی سلجھا ہوا لڑکا لگتا ہے۔

(جاری ہے)

“ وہ تو اور بھی پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہی تھیں اس کا دماغ ہی سائیں سائیں کر رہا تھا۔

امی نے اس سے پوچھا ضرور تھا کہ تیمور کیسا لڑکا لگا ہے تمہیں؟ اور اس وقت تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کس حوالے سے پوچھ رہی ہیں۔ اس کے ذہن میں تو رباحہ ہی تھی۔ اگرچہ اس نے تیمور کے ساتھ کوئی گپ شپ نہیں لگائی تھی لیکن مختصر سی سلام دعا ہوئی تھی واپسی کے وقت اور وہ بھی وہ رباحہ کے پرزور اصرار پر گئی تھی ان کو الوداع کہنے۔
”مائی گاڈ! یہ کیا ہوگیا…! یہ کیا ہو گیا…؟“ عائشہ مامی کے جاتے ہی وہ اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گئی آنکھوں کے سامنے بار بار رباحہ کا بے یقین چہرہ آ رہا تھا۔
”پہلے میرا خیال تھا تمہاری اسٹڈی کمپلیٹ ہونے تک ویٹ کر لوں اب تو ایسا ہونا خاصا مشکل لگ رہا ہے۔“ کسی کا شوخ لہجہ اس کی سماعت میں گونجا تو وہ تڑپ اٹھی۔
”میں جلد ہی ندا آپی سے بات کرکے ماما کو لے کر آؤں گا۔
“ ویٹ کرنا۔“ کچھ کہتی بولتی نگاہیں میرب کو لگا اس کا دل بند ہو جائے گا۔
ابھی تو اس کی آنکھوں نے خواب دیکھنا شروع کئے تھے۔ یہ ابھی سے کیا ہو گیا؟
”تقدیر اتنی بے رحم ہرگز نہیں ہو سکتی۔“ وہ مچل کے کھڑی ہو گئی۔
”یقینا ایسی ہی حالت رباحہ کی بھی ہو گی۔ وہ بھی تو تیمور کو… اور تیمور مجھے کس طرح آخر اس نے یہ سوچ بھی کیسے لیا…؟ اور عمیر حسن وہ کیا کرے گا؟ میں کیسے اس کا سامنا کر پاؤں گی؟“ سوال اتنے تھے کہ اس کا دماغ پھٹنے لگا۔
اس کی تو حالت اتنی عجیب ہو رہی تھی وہ تو خود کو اس قابل نہیں پا رہی تھی کہ رباحہ سے نظریں ہی ملا سکے۔
”یا اللہ! ہمارے حق میں بہترین فیصلے فرما۔“ اس کے دل نے پوری شدت سے دعا مانگی تھی۔
###
کبھی لوٹ آئے تو نہ پوچھنا
بس دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی
کہ یہ راستہ کوئی اور تھا
پتہ نہیں کتنے دن یونہی بے کیف ،خود سے نظریں چراتے ،کرلاتے گزر گئے۔
تیمور خان کیلئے سب نے پسندیدگی کا اظہار کیا تھا اور شاید یہ اظہار ادھر تک بھی پہنچ گیا تھا میرب کا جی چاہتا تھا چیخ چیخ کر سب کو بتائے کہ سب غلط ہے۔ لیکن ایک طرف تو اس کی ماں تھیں۔ جنہوں نے سب کے درمیان بڑے مان سے کہا تھا کہ ان کی بیٹی ان کی بڑی فرمانبردار ہے اسے اپنی ماں کا ہر فیصلہ قبول ہے جبکہ دوسری طرف رباحہ تھی جس کی متورم آنکھیں اداس چہرہ سارا دن اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتا رہتا۔
اور ایک طرف اس کا دل تھا۔ جس میں عمیر حسن کی آوازیں تھیں۔ لیکن دل تو بیچارہ کسی کھاتے میں شمار ہی نہیں تھا۔ وہ تو ہر طرف سے پس رہی تھی۔ روز پل صراط سے گزرتی تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کیا کرے کیا نہ کرے۔ بس سارا دن اس کا اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہی گزر جاتا تھا۔
”یہ میں کیا سن رہا ہوں میرب!“ وہ دھاڑتا ہوا اس کے سر پر پہنچا تھا۔
یونیورسٹی آورز ختم ہونے والے تھے وہ لائبریری میں بیٹھی یونہی خالی ذہنی سے کتاب کے اوراق پلٹ رہی تھی جب عمیر تن فن کرتا اس تک پہنچا تھا۔
”تو قیامت کی گھڑی آن پہنچی۔“ اس کا نازک سا دل لڑکھڑا رہا تھا۔
”تم اتنی کٹھور کیسے ہو سکتی ہو میرب؟“ وہ شکستہ سا اس کے سامنے چیئر گھسیٹ کے بیٹھ گیا۔ شکر تھا کہ وہ اس وقت الگ تھلگ ایک کارنر میں بیٹھی تھی۔
”بتاؤ کس کے کہنے پر یہ سب کر رہی ہو؟“ وہ چپ چاپ بیٹھا دیکھ کر وہ تیز لہجے میں بولا۔
میں کیوں کس کے کہنے میں آؤں گی۔“ اس نے لہجے کو نارمل رکھنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
”میں نے تمہیں کہا تھا میں چند دنوں تک ماما کو لے کر آؤں گا۔ میں ایک ضروری کام سے کہیں گیا ہوا تھا۔ آج ہی لوٹا ہوں۔ ماما تو اسی دن سے تیار ہیں۔ مجھے کیا پتہ تھا میری چند دن کی غیر حاضری یہ رنگ لائے گی۔
“ وہ بہت ٹوٹا اور بکھرا ہوا لگ رہا تھا میرب کے دل کو کچھ ہونے لگا۔
”میں نے کچھ دیر پہلے ندا آپی کی خیریت پوچھنے کیلئے فون کیا تھا۔ تو انہوں نے بتایا مجھ سے صبر نہ ہوا تو فوراً ادھر چلا آیا۔ یہ کیا ہو رہا ہے میرب…؟ مجھے سمجھ نہیں آ رہا؟“ وہ شکستہ لہجے میں بولی۔ میرب ہنوز خاموشی سے میز کی سطح کو گھور رہی تھی۔
”تم خوش ہو اس رشتے سے…؟ اس نے چبھتا ہوا سوال کیا۔
میرب کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا۔
وہ خاموش دہی بتانے کو بھابھی کیا۔
آندھیان تو چلتی ہیں
خشک زرد پتوں کو
شاخ سے اڑنے کی
کوششیں بھی ہوتی ہیں
سازشیں بھی ہوتی ہیں
بخت کے ستارے کو
اک خوشی کے لمحے سے
ضرب دیتے رہنے کی
آرزو بھی ہوتی ہے
ہاں مگر کیا کہئے
کیسی بدنصیبی ہے
سازشوں سے لڑ جانا
پھر بھی سہل ہوتا ہے
بخت کے ستارے کو
اک خوشی کے لمحے سے
ضرب دینا مشکل ہے
بخت سے کون لڑ سکتا تھا؟ بخت سے کون لڑا ہے؟ لڑنے کا فائدہ کیا؟
”میرب…! کیا مجھے یہ بتانے کی ضرورت تھی یا ہے کہ میرے دل میں تمہارے لئے کیا ہے؟ میں تو اس کیلئے بہت مناسب وقت کے انتظار میں تھا۔
میرب پلیز! ٹرائی ٹو انڈر سٹینڈ۔“ پتہ نہیں اس سمے اس کے لہجے میں کیا تھا کہ وہ ہار گئی۔ نہ معلوم خود سے جنگ کرتے کرتے ہار گئی تھی یا اس شخص کے جذبوں سے ہار گئی تھی۔
میز پہ سر ٹکا کے وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی تھی۔
”میرب…! عمیر اس اچانک ردعمل پر گھبرا گیا۔
”خود کو سنبھالو پلیز! اس طرف کوئی بھی آ سکتا ہے۔“ وہ لجاجت سے بولا۔
اسے خود بھی شاید احساس ہو گیا تھا۔ اسی لئے سر اٹھا کے اپنے آنسو پونچھنے لگی۔
”اب بتاؤ مجھے کیا بات ہے؟ اور مجھ پر پورا بھروسہ رکھو۔ عمیر حسن کبھی تمہارے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائے گا۔“ اس کے اپنائیت بھرے لہجے میں کچھ اور ایسا تھا کہ بے اختیار اس کا جی چاہا کہ اس پر اعتبار کر لے۔
اور یہی تو محبت ہے جب ہم اپنی ذات کے علاوہ کسی دوسرے پر اپنے دل کا بوجھ دھرتے ہیں تو دراصل اسے اپنی ذات کا ہی ایک حصہ سمجھتے ہیں اور محبت ذات ہی تو ہوتی ہے۔ وہ بھی جو کسی سے نہ کہہ سکی تھی۔ آج اس سے کہہ گئی تھی۔
آہستہ آواز اور نم لہجے میں وہ اسے ساری بات بتانے لگی۔

Chapters / Baab of Main Udas Rasta Hon Shaam Ka By Madiha Tabassum