Episode 5 - Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر5 - من کے محلے میں - شکیل احمد چوہان

”چوہدری شمعون…! آج میں نے تمھاری منگ کو دیکھا“ ملنگی نے نشے سے جھومتے ہوئے بتایا۔ شوکی نے سُنا تو وہ ہنس دیا اور ہنستے ہنستے کہنے لگا:
”منگ اور بھرجائی میں فرق ہوتا ہے پاگلہ…! میں نے آج چوہدری کی منگ کو نہیں اپنی بھرجائی کو دیکھا ہے“
”اوئے ! تم دونوں کیا بک رہے ہو۔میرے تو کچھ پلے نہیں پڑا…“ شمعون نے شراب گلاس میں ڈالتے ہوئے کہا۔
چوہدری شمعون اور اُس کے دوست ملنگی اور شوکی۔ چوہدری شمعون کے ڈیرے پر دسمبر کی سرد رات میں آگ کاالاؤ بھڑکائے شراب اور کباب کے مزے لوٹ رہے تھے۔
”میں سمجھاتا ہوں…چوہدری…! آج تیرے گاؤں کی کسی لڑکی کی بارات اڈے والے شادی ہال میں آئی تھی۔ وہیں پر سڑک پار کرتے ہوئے تیری منگ کو دیکھا تھا۔ “ملنگی نے شراب کا پیگ لگاتے ہوئے تفصیل سنائی۔

(جاری ہے)


”تو کیا سمجھائے گا…ملنگی بادشاہ! میں بتاتا ہوں بھرجائی کے بارے میں۔ دیکھ چوہدری! تو اپنا جگری یار ہے تیری منگ تیرے ساتھ جچتی نہیں ہے۔ وہ ملوک سی اور تو گھبرو جوان…یہ جوڑی کچھ جمتی نہیں ہے“ شوکی نے کڑوی بات مٹھاس سے کہہ دی۔ شمعون سختی سے بولا:
”شوکی…! بک مت اوئے۔وہ میری منگ ہے…وہ بھی بچپن سے“
”غصہ نہ کر چوہدری! تیرے ساتھ کوئی اتھری رن سوہنی لگے گی۔
یہ چھوئی موئی سی اُستانی نہیں…“ شوکی ایک بار پھر بولا تھا، بغیر کسی جھجک کے۔ ملنگی نے کباب کھاتے ہوئے پوچھا :
”نا تو یہ بتا۔وہ اتھری رن آئے گی کہاں سے؟“
”کل کی آچکی ہے…میاں چنوں سے…“ شوکی کمینی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ شمعون اور ملنگی کے کان کھڑے ہوگئے شوکی کی بات سُن کر۔
”شوکی! سیدھی بات کر۔“شمعون نے سرخ آنکھوں کے ساتھ شوکی کی طرف دیکھ کر کہا۔

”اے ہوئی نا بات…تیری آنکھ کی لالی…تیرا غصہ میرے بادشاہ! بتاتا ہوں… ٹھنڈ رکھ…ساتھ والے گاؤں کا مہر سعید ہے نا !اُس کی بہن ہے سندس ۔ نانکے رہتی تھی کل ہی آئی ہے۔ بڑا نخرہ…بڑی اتھری ہے بھئی“ شوکی کی باتیں سُن کر ملنگی اور شمعون نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
”سچی بات ہے…چوہدری شمعون ! میں نے تو کل ہی اُسے بھرجائی مان لیا تھا۔“ شوکی نے جلدی سے کہہ دیا۔

”شوکی…!تیرے ویسے ہی بارہ بج گئے ہیں“ملنگی نے کہا۔
#…#
”کیا ہے شمائل…! آدھی رات ہوگئی ہے… اب تو سونے دو۔“ ستارہ نے بے زاری سے جواب دیا۔
”بارہ ہی تو بجے ہیں…“ شمائل بولی۔
”ٹائم مت بتاؤ…کام بتاؤ․․․․․․․․․․“ستارہ نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔
”میں نے اُسے ڈھونڈ لیا ہے…“ شمائل نے اپنی کامّیابی کی نوید سنائی۔

”کس کو…؟“ ستارہ آنکھیں ملتے ہوئے بیٹھ گئی اور اپنی چھوٹی بہنوں کی طرف دیکھا جو سب سُو رہی تھیں۔
”مزمل بیگ کو…اور کسے…“شمائل دھیمی آواز میں بول رہی تھی، اُس کا بس چلتا تو وہ چیخ چیخ کر بتاتی۔
”مزمل بیگ کو ڈھونڈ لیا ہے“ستارہ نے خود کلامّی کی ۔
”ہاں…اور اُسے فرینڈ ریکوسٹ بھی بھیج دی ہے“
”اچھا…فیس بک پر بیٹھی ہو…فیس بک کی یاری…سراسر بیماری …“
”مجھے اُس سے واقعی محبت ہوگئی ہے“ شمائل نے لگے ہاتھوں اپنے دل کا حال بھی سنا دیا۔

”یہ کس نے بتایا…؟“ ستارہ نے سرد لہجے میں پوچھا۔
”مجھے نیند جو نہیں آرہی…محبت میں سب سے پہلے نیند ہی تو اُڑتی ہے“شمائل نے دانشمندی کا ثبوت دینے کی کوشش کی۔
”تمھاری نیند کا علاج ہے میرے پاس“
”وہ کیا…؟“شمائل نے جلدی سے پوچھا۔
”تم اپنی میٹرک کی کتابیں نکالو…اُن میں سے کوئی ایک کھولو…فوراً نیند آجائے گی“
”ستارہ نے غصے سے موبائل بند کر دیا۔
پھر اِرد گرد دیکھا سب سو رہے تھے اُس نے لیٹتے ہوئے خود کلامی کی:
”امّی صحیح کہتی ہیں… ستارہ ! بیوقوف سہیلی سے دشمن سہیلی بہتر ہے“
#…#
”ماہم چوہدری! ہوش کے ناخن لو، بے وقوفوں کی طرح مت سوچو، یہ کبھی نہیں ہو سکتا“
” مگر شمعون مجھے پسند نہیں ہے“
”تو پھر اِس رشتے سے انکار کر دو“
”انکار تو کردوں …پر… ابّوکی زبان کا پاس ہے … لوگ کیا کہیں گے … اپنے مرحوم باپ کی زبان کا پاس بھی نہیں رکھاکچھ بھی ہو جائے میں ابّو کی زبان کا پاس ضرور رکھوں گی“
”ماہم اپنے بستر پر لیٹی ہوئی! اپنے ضمیر کی آواز سے خاموشی سے ہم کلام تھی۔
کبھی ضمیر کی آواز کی دلیل مضبوط ہوتی اور کبھی ماہم کی آواز بہترین دلائل پیش کرتی۔ آوازوں کی اس جنگ میں ماہم کو اپنی محبت کے لُٹ جانے کا ڈر تھا۔
”تمھارا دل کیا کہتا ہے“ ضمیر سے آواز آئی۔
”دل کہاں سیدھی راہ چلنے دیتا ہے۔ یہ تو دلدل کی طر ف لے جا رہا ہے“ ماہم کی آواز نکلی اُس نے لیٹے لیٹے ہی اپنے آنسو صاف کیے۔
”دل میں کسی کے لیے محبت کی نمی ہو، تو ہی آنکھوں میں چمکتی ہے، چمک جب جذبات کی گرج سہہ نہیں پاتی تو آنکھوں سے برسنے لگتی ہے“ ضمیر نے اپنی حتمی رائے دے دی۔
ماہم نے ضمیر کی بات سن کر غصے سے لحاف ہٹایا اور اپنے کمرے کی کھڑکی کھولی اور مسجد کے زینے دیکھنے لگی جہاں پر مزمل کھڑا ہوا اُسے نظر آیا، مزمل نے ایک نظر ماہم پر ڈالی اور وہ پیچھے ہٹ گئی۔
مزمل کو کبھی وہ کھڑکی کے پیچھے نظر آتی اور کبھی اپنی بانہوں میں جھولتی ہوئی۔ مزمل نے سامنے پڑے ٹیبل پر رومال کے اوپر رکھی ہوئی چوڑیوں کے ٹکڑوں سے ایک ٹکڑا اٹھایا اور اُسے دیکھنے لگا ایک دفعہ پھر وہ سارا منظر اُسے دل کی آنکھوں سے نظر آرہا تھا۔

وہ تنگ آکر اپنے بیڈ روم سے نکل کر ٹیرس پر چلا گیا ٹیرس کے سامنے اُس کے گھر کا باغیچہ تھا۔ جس میں بیرونی دیوار کے ساتھ ساتھ سمبل اور سُندری کے اونچے اونچے درخت تھے۔ جن کے پتوں پر بھی اُسے ماہم ہی کی تصویر نظر آرہی تھی۔مزمل نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف دیکھا جس نے ماہم کو تھاما تھا۔
ماہم نے اپنی کلائی پر نظر ڈالی جہاں خراشیں لگی ہوئی تھیں۔

 ”ماہم چوہدری! ایسی خراشیں گھاؤ بن جاتی ہیں“ عشال کی آواز گونجی وہ کمرے میں آئی فسٹ ایڈ باکس نکالا اور کلائی پر پٹی لپیٹ لی۔
مزمل بھی اپنے بیڈ روم میں آیا فریج کھولی اُس میں سے پائن ایپل کا جوس نکالا اور پینے لگا، اُس نے ایک ہی سانس میں سارا جوس ختم کر دیا تھا۔ اُس کے بعد وہ اپنے بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا ۔
”یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے“اُس کے دماغ سے آواز آئی ۔

”میں بتاتا ہوں…تمھیں اُس سے محبت ہو گئی“دل نے جلدی سے اطلاع دی۔
”بکواس مت کرو… یہ جھوٹ ہے“ دماغ نے دل کی بات پر شدید رد عمل دکھایا پھر سمجھاتے ہوئے بولا:
”بی پریکٹیکل… بیگ صاحب! تم دل کی کسی بات کو سیریس مت لو…یہ تو پاگل …دیوانہ ہے“
”مجھے محبت ہو گئی ہے“ دل نے سادگی سے اقبال جرم کر لیا۔
”Shut up!…محبت ہوگئی ہے…محبت ایک ایسا لفظ ہے…جس کا سہارا لے کر دنیا میں سب سے زیادہ دھوکہ دیا جاتا ہے…کیوں بیگ صاحب! میں نے ٹھیک کہا نا… یہ تمھارے ہی الفاظ تھے ۔
کیا تمھارا اب بھی محبت پر یقین ہے“دماغ نے مضبوط دلائل بیگ صاحب کو پیش کیے ۔
”مزمل صاحب! میں بتاتا ہو…آپ کا محبت پر اب بھی یقین ہے۔ صرف انسانوں سے اُٹھ گیا ہے۔ دیکھو برین! تم مزمل صاحب کو ڈسٹرب مت کرو“دل نے دماغ کی گھن گرج والی تقریر سُننے کے بعد بڑی تحمل مزاجی سے جواب دیا۔ مزمل بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے دل اور دماغ کی جرح سُن رہا تھا۔

مزمل کو یہ ساری تاویلیں دلیلیں سننے کے بعد بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
وہ پتنگ والی ڈور کے گنجل کی طرح مزید اُلجھتا جا رہا تھا۔ اضطراب در اضطراب سی کیفیت میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
دماغ ور دل کی یہ جرح کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچتی تھی۔ مزمل نے کمرے کی لائٹ بند کی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
#…#
”حکیم صاحب! لائٹ جلا دیں“ حکیم صاحب کی بیگم عروسہ نے حکیم صاحب کو جائے نماز سمیٹتے ہوئے دیکھا تو کہہ دیا۔
حکیم صاحب نے لائٹ جلا دی۔ حکیم صاحب کی بیگم عروسہ پچھلے کئی سال سے بیمار ہے اُس کے گھٹنوں میں شدید درد رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ چل پھر نہیں سکتی۔ وہیل چیئر کی مدد سے ایک سے دوسری جگہ حرکت کرتی ہے۔
”عروسہ بیگم! رات آپ نے پھر دوائی نہیں پی“ حکیم صاحب نے سرزنش کے انداز میں کہا۔
”تہجد پڑھ لی آپ نے“ عروسہ نے اپنی پوچھ لی۔
”ہاں پڑھ لی…دوائی دوں…؟ حکیم صاحب نے پوچھا۔

”خالی پیٹ … دوائی پیوں “عروسہ نے بیزاری سے کہا۔
”یہ خالی پیٹ ہی پینی تھی“حکیم صاحب نے دیسی دوائی کی شیشی پکڑی اور ایک چمچ عروسہ کو پلا دیا۔
”آ…بہت کڑوی ہے“عروسہ نے بچوں کی طرح منہ بناتے ہوئے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
”عروسہ بیگم! سچائی اور دوائی…بھلے ہی کڑوی ہوں فائدہ ضرور پہنچتا ہے۔“
”حکیم صاحب ! آپ کی باتیں بھی حکیموں والی ہیں“
”پہلے تو آپ کچھ اور کہتی تھیں“حکیم صاحب نے عروسہ سے نظریں چار کرتے ہوئے الفت سے کہا۔

”آپ بھی نا…! سُنا ہے مزمل بیگ بھی بارات کے ساتھ آیا تھا…آپ کو جانتا ہے وہ…؟“
”اُس کی باتوں سے تو نہیں لگا…کہ وہ مجھے جانتا ہے“حکیم صاحب نے سوچتے ہوئے بتایا۔
”ملاقات ہوئی تھی…کیا…؟“ عروسہ نے تجسس سے پوچھا۔
”بارات کے چند افراد میں سے ایک وہ تھا…شادی کے گواہوں میں بھی اُس کا نام شامل ہے…مسجد میں بھی نماز پڑھ کر گیا ہے“
”اُسے پتہ لگے گا تو کیا سوچے گا…؟“عروسہ نے فکر مندی سے کہا۔

”جو عشال سمجھتی ہے…وہ لڑکی ہو کر خود کو سنبھال سکتی ہے…یہ تو پھر لڑکا ہے۔“
”عشال کی بات کچھ اور ہے“
”آپ بھی کمال کرتی ہیں۔ عروسہ بیگم! مجھ سے پوچھیں تو عشال کا غم بہت بڑا ہے…مزمل بیگ سے کہیں زیادہ“
”اور آپ کا غم…“ عروسہ نے جانچتی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔حکیم صاحب نے ایک لمحے کے لیے عروسہ سے آنکھیں ملائیں پھر چار پائی سے اُٹھتے ہوئے بولے:
”فجر کی آذان کا وقت ہو گیا ہے…میں مسجد جا رہا ہوں“
#…#
”مومنہ ! اب اُٹھ بھی جاؤ…اذان تو کب کی ہوچکی ایک تم ہو اور ایک ماہم ہے…اُسے کبھی اُٹھانا نہیں پڑا اور تم کبھی اُٹھی نہیں“ مریم بی بی نے قرآن پاک سے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا، پھر قرآن پڑھنے میں مصروف ہو گئی۔

”اسلام علیکم امّی جی“ ماہم نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہہ دیا۔ مریم بی بی نے اُس کی طرف دیکھا اور منہ میں جواب دیا۔
”مومنہ ابھی تک سوئی ہوئی ہے…اٹھو مومنہ …!“ماہم نے پیار سے مومنہ کا کمبل ہٹایا اور اُس کی پیشانی چومی۔
”آپی! میں اِسی لیے نہیں اُٹھتی … آپ آؤ اور میری پیشانی چومو“مومنہ نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔
”چلو جلدی سے نماز ادا کرلو…“ماہم نے قرآن پاک الماری سے اُٹھایا اور تلاوت کرنے لگی۔

چوہدری شمشاد احمد اور ہیڈ ماسٹر محمود احمد دو ہی بھائی تھے۔ وہ دونوں اور اُن کا ڈرائیور چند سال پہلے منڈی بہاؤالدین ایک کام سے گئے تھے۔ واپسی پر کار کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ڈرائیور اور ماسٹر صاحب موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئے۔ چوہدری شمشاد پچھلی سیٹ پر تھا اُس حادثے میں اُس کی دونوں ٹانگیں ضائع ہوگئیں۔
ہیڈ ماسٹر محمود احمد کی دو بیٹیاں ہیں۔
بڑی ماہم چوہدری اور چھوٹی مومنہ چوہدری۔ ماہم نے ایم اے، ایم ایڈ کرنے کے بعد لڑکیوں کے لیے ہائی اسکول بنانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ماسٹر صاحب نے خوشی خوشی اپنی بیٹی کی بات مان لی۔ چوہدری شمشاد اور ہیڈ ماسٹر محمود کی مشترکہ زمین 20مربعے تھی۔ جن کی دیکھ بھال چوہدری شمشاد کے ذمے تھی۔ ماسٹر صاحب نے کبھی اپنے بڑے بھائی کے معاملات میں دخل نہیں دیا تھا۔
وہ جو کچھ زمینوں کی آمدن سے دیتا ماسٹر صاحب خاموشی سے رکھ لیتے ۔
دونوں بھائیوں کی حویلیاں معراج کے گاؤں میں ہی تھیں۔ ماہم کی خواہش تھی کہ معرا ج کے گاؤں سے 4کلو میٹر دور مین جی ٹی روڈ ہے۔ وہاں پر ایک اسکول بنایا جائے اور اُس کی پچھلی طرف اپنا گھر۔
جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ کافی سارا رقبہ ماسٹر محمود کا ہی تھا۔ اِس لیے اِس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی اسکول اور گھر ماہم کی منشا اور مرضی کے عین مطابق تعمیر ہو گئے۔
ماہم کے اسکول کو شروع ہوئے دو سال ہی گزرے تھے کہ ماسٹر محمود کار ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوگئے۔
ماسٹر محمود کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ کی طرح پڑھنے میں لائق تھی۔ اس کے برعکس چوہدری شمشاد کے دونوں بچے پڑھنے میں انتہائی نالائق ثابت ہوئے۔ چوہدری شمعون نے ساتویں کلاس ہی میں اسکول چھوڑ دیا تھا۔ شمائل چار بار میٹرک کا امتحان دینے کے باوجود ناکام ہی رہی اُس کے مقابلے میں اُس کی سہیلی ستارہ بی، اے کرنے کے بعد ماہم کے اسکول میں ٹیچر کی نوکری کر رہی ہے۔

Chapters / Baab of Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan