Episode 8 - Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر8 - من کے محلے میں - شکیل احمد چوہان

”کیا لگتی ہے وہ میری…؟ اُس کا کیا رشتہ ہے مجھ سے“مزمل ہوٹل کے کمرے میں اپنے ہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا۔
دو بجے اُس کی جرمنی سے آئے ہوئے کلائینٹ کے ساتھ میٹنگ تھی۔ میٹنگ پوائنٹ ایک فائیو سٹار ہوٹل کی لابی تھا۔
میٹنگ سے فارغ ہونے کے بعد مزمل نے مارٹن کے ساتھ اُسی ہوٹل میں ڈنر کیا۔ اُس کے بعد پروٹوکول کی غرض سے مارٹن کو ایئرپورٹ ڈراپ کرکے آیا۔
جب وہ ہوٹل واپس آیا اُس وقت رات کے 9بج رہے تھے۔ تھکاوٹ سے اُس کا بُرا حال تھا۔ اُس نے کچھ دیر سوچا پھر دادی کو کال کرکے اطلاع دے دی کہ وہ کل آئے گا۔
اب ہوٹل کے کمرے میں بھی اُس کو چین نہیں تھا۔ پچھلی رات بھی اُس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کاٹی تھی۔
”ایک انسان کو ایک دن میں تقریباً 60ہزار خیال آتے ہیں۔

(جاری ہے)

“ مزمل نے کسی کتاب میں پڑھا تھا۔

پھر اُس نے سوچنا شروع کیا کہ پچھلے 36 گھنٹوں میں مجھے کون کون سے خیال آئے ہیں …؟ مارٹن کے ساتھ گزارے تقریباً 7گھنٹوں کے علاوہ اُس نے صرف ماہم کے متعلق ہی سوچا تھا۔ وہ بندہ جس نے لندن کی سرد راتوں میں بھی کسی لڑکی کو تو د ور کی بات کبھی اُس کے خیال کو بھی اپنے پاس آنے نہیں دیا ۔ آج خیالوں کے آگے بے بس تھا۔
”ایک خیال 3سے 13سیکنڈ انسان کے دماغ میں رہتا ہے “اُسے پڑھی ہوئی ایک اور بات یاد آئی تھی۔

”یہ خیال نہیں ہیں…مزمل بیگ“ مزمل بیگ نے ہوٹل کے کمرے میں لگے ہوئے بڑے سے شیشے میں خود کو دیکھتے ہوئے خود کلامی کی۔
”کیا یہ اُس کا Auraہے…؟“وہ پھر خود کو دیکھتے ہوئے بولا۔
”مگر Auraتو ساڑھے آٹھ میٹر تک ہوتا ہے …یہاں سے معراج کے کوئی پونے چار سو کلو میٹر تو ہو گا۔“ مزمل نے خود سے اندازہ لگایا۔
”اور ماڈل ٹاؤن سے 72کلو میٹر ہی ہے“ اس بار اُس نے یقین سے کہا تھا۔

”پھر یہ کیا ہے۔ جس نے میرا سکون برباد کرکے رکھ دیا ہے“ اُس نے خود کی پریشانی خود ہی سے پوچھی۔ آج اُس کی ملائم آواز میں خرخراہٹ آگئی تھی۔ اُس کا شانت رہنے والا رُخسار بے چین تھا۔
”کیا میں بیمار ہوں“ اُس نے خود ہی سے اگلا سوال کیا۔
”ضرور یہ کوئی سایا ہے۔ یا پھر کسی نے تم پر کالا جادو کر دیا ہے“اُس کے دماغ میں ایک خیال یہ بھی آیا۔
اُس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد خود کلامی کی:
”ہو سکتا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں تو ایسا بہت کچھ ہوتا ہے“
”مزمل بیگ! تو اتنا ضعیف الاعتقاد تو نہیں تھا جو استھانوں، جوتشیوں، نجومیوں اور جادوگروں کے پاس جاتا پھرے“ اُس کے اندر سے آ واز آئی۔
”پھر یہ کیا ہے…؟“ وہ اپنی خود کی آ واز میں شکست و ریخت سے چلایا۔ اس کا بلڈ پریشر ہائی ہو چکا تھا۔
دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ اُس کے ماتھے پر شکنیں تھیں۔
دل نے موقعے کا فائدہ اُٹھایا اور ہولے سے بولا:
”مزمل صاحب! آپ کو محبت ہوگئی ہے۔ نا تو آپ اِس جذبے کو سائنسی پوائنٹ آف ویو سے سمجھنے کی کوشش کریں اور نہ ہی دیسی طریقے سے … صرف مجھ سے پوچھیں اِس کا جواب صرف میرے پاس ہے“دل نے جلدی سے اپنی بات ختم کی اُسے ڈر تھا کہیں دماغ کوہوش نا آجائے۔
مزمل کھڑا تھا اُس نے سائیڈ ٹیبل سے پانی اُٹھایا اور ایک ہی سانس میں غٹا غٹ کافی سارا پانی پی گیا ۔
تھوڑی دیر بعد اُس نے خود کو کافی بہتر محسوس پایا۔ اب وہ کافی حد تک پر سکون تھا۔ نیند پھر بھی اُس سے کوسوں دور تھی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اُس نے اپنا سامان اُٹھایا اور ہوٹل سے چیک آؤٹ کر آیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ رات کے ڈیڑھ بجے وہ موٹر وے کی بجائے جی ٹی روڈ سے سفر کر رہا تھا۔

اتنا لمبا سفر اُسے خود بھی پتہ نہیں چلا کیسے طے ہوگیا تقریباً 5بجے کے قریب اُس نے اپنی گاڑی سرامکس کی بند پڑی فیکٹری کے ساتھ پارک کی تھی۔
فجر کی اذان کی ہلکی ہلکی آواز اُس کے کانوں میں پڑی۔ اُس نے گاڑی کا دروازہ کھولاتو اذان کی آواز واضع سنائی دینے لگی۔ حکیم صاحب فجر کی اذان دے رہے تھے۔ وہ مسجد کے اندر چلا گیا۔ وضو کرنے کے بعد جب وہ مسجد کے ہال کے اندر داخل ہوا حکیم صاحب کی نظر اُس پر پڑی ۔

”مزمل بیگ “ حکیم صاحب نے مزمل کو دیکھ کر صرف اتنا کہا۔ مزمل کے چہرے پر پھیکی مسکراہٹ اُبھری وہ بولا کچھ نہیں ۔
مزمل فجر کی سنتیں پڑھنے لگا۔ اِس دوران مسجد میں نمازی آنا شروع ہوگئے تھے۔ فجر کی نماز حکیم صاحب نے پڑھائی، پانچ مقتدیوں میں سے پانچواں مزمل تھا۔ حکیم صاحب اور گلاب اُس مسجد کے پکے نمازی تھے۔ فجر اور مغرب کی نمازوں میں دو چار افراد اور کچھ بچوں کا اضافہ ہو جاتا تھا۔
گلاب نے غور سے مزمل کو دیکھا ہاتھ ملایا اور چلا گیا۔ حکیم صاحب کو تشویش ہوئی مزمل کو دیکھ کر، پھر بھی وہ خاموش ہی رہے۔ سارے نمازی جا چکے تھے، صرف حکیم صاحب اور مزمل مسجد میں بیٹھے تھے۔ مزمل نے حکیم صاحب کو سلام کیا اور چل دیا۔
مزمل نے مسجد کے بیرونی دروازے سے نکلتے ہوئے نگاہ اُٹھائی ۔ ماہم پہلے سے کھڑکی کھولے کھڑی تھی۔ اُس کی بھوری آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے۔
وہ ایسے تڑپ رہی تھی جیسے ماہی بے آب۔
مزمل نے صرف اُسے اِک نظر دیکھا اِک نظر ہی سے اُس کی آنکھوں میں نور اُتر آیا تھا۔ دل کی دھڑکن تیز تھی پر اُس کو قرار مل گیا تھا۔
مزمل نے ادب سے گردن جھکائی اور اپنی گاڑی کی طرف چل پڑا۔ گاڑی میں ارد گرد دیکھے بغیر بیٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔
مزمل کے جانے کے بعد ماہم کی حالت جل بن مچھلی جیسی بالکل بھی نہیں رہی تھی، بلکہ وہ تو محبت کی جھیل میں غوطہ زن تھی۔
ماہی کوآب سے نکال لیا جائے تو وہ تڑپ تڑپ کر جان دے د یتی ہے۔ ماہم کی حالت ماہی جیسی ہی تھی اور مزمل اُس کے لیے آبِ حیات جیسا بن چکا تھا۔ اِس سب کے باوجود وہ زبان سے انکار ہی کر رہی تھی۔ ماہم کے دل کو بھی مزمل کے دیدار سے قرار مل گیا تھا۔
لاہور پہنچ کر مزمل نے پیٹ بھر کر ناشتہ کیا اور لمبی تان کر سکون کی نیند سو گیا۔
#…#
اب مزمل کا یہ معمول بن گیا تھا۔
وہ سارا دن کام کرتااور رات کو جلدی سو جاتا۔ رات کے دوسرے پہر اُٹھتا اپنی گاڑی نکالتا اور معراج کے روانہ ہو جاتا۔ فجر کی نماز پڑھتا سب نمازیوں کے جانے کے بعد مسجد سے نکلتا وہ کھڑکی میں نور بانٹنے کے لیے کھڑی ہوتی۔ مزمل آنکھوں سے آنکھوں میں نور اُتارتا پھر گردن جھکا کر واپس لاہور چلا جاتا۔
ڈیڑھ ماہ کا عرصہ اِسی طرح گزر گیا۔ حکیم صاحب اور عشال کو سب کچھ پتہ چل گیا تھا۔
اُن کے توسط سے یہ خبر عروسہ کو پتہ چلی تو اُس کو کچھ فکر لاحق ہوئی۔
عشال نے شروع ہی میں ممتاز بیگم کو موبائل پر ساری طوطا مینا کی کہانی سُنا دی تھی۔
ممتاز بیگم خوش بھی بہت تھیں ساتھ ہی ساتھ اندر سے ایک ڈر بھی تھا۔ مزمل کی ایک ڈھال ممتاز بیگم کی نظر میں حکیم عاقل انصاری بھی تھا۔ حکیم صاحب کے متعلق سوچ کر اُن کو تسلی ہو جاتی۔
علاقے کے لوگوں میں تشویش بڑھ گئی تھی۔
اب وہ سوچنے لگے تھے یہ لڑکا کیوں ہر روز ماڈل ٹاؤن لاہور سے معراج کے آتا ہے۔
پھر ایک دن علاقے کے لوگوں کو خبر ملی، سیٹھ مجیب کی بند پڑی فیکٹری مزمل بیگ نے خرید لی ہے۔ اعتراض کی جگہ عرضیاں ہونے لگیں۔ مزمل نے بند پڑی فیکٹری میں دوبارہ کام شروع کروادیا۔ علاقے کے نوجوانوں کو روز گار مل گیا۔ اُس علاقے میں لوگ اُس کی عزت کرنے لگے، عزت کیوں نہ کرتے اُس نے کافی سارے گھرانوں کے بچوں کو کام پر جو لگا لیا تھا۔
اُس کا اپنے ملازموں سے سلوک بھی بہت اچھا تھا اور سب سے بڑھ کر مناسب تنخواہ وہ بھی وقت پر۔
اب اُس کے فجر کے وقت معراج کے آنے پر کسی کو حیرت بھی نہ تھی۔ لوگوں کی تشویش بھی دور ہوگئی تھی۔
ایک اور حیرت کی بات یہ تھی خاموش محبت کی اِس کہانی کا حکیم صاحب کے گھرانے کے علاوہ کسی کو علم نہیں تھا۔
ماہم کی کھڑکی پرانی وضع کی تھی۔ جس کے اوپر ایک مخروطی چھجاتھا۔
لکڑی کے دو تختے جو گلی کی طرف کھلتے تھے۔ تختوں کے پیچھے لوہے کے سیدھے سریئے تھے ، ماہم جب کھڑکی میں کھڑی ہوتی تو لکڑی کے تختے، گلی کی طرف کھل جاتے، جس کی وجہ سے وہ گلی میں سے گزرنے والوں کی نظر وں سے محفوظ رہتی ۔
اب لکڑی کے تختے چوبیس گھنٹے کھُلے رہتے البتہ لوہے کے سرئیوں کے پیچھے کمرے کے اندر ایک موٹا پردہ ہمیشہ کھڑکی پر پڑا رہتا تھا، ماہم اُس پردے کو صرف فجر کے وقت ہٹاتی تھی۔

وہ چوبیس گھنٹوں میں صرف چند منٹ کے لیے کھڑکی میں کھڑی ہوتی تھی۔ جب مزمل نے مسجد سے نکلنا ہوتا۔ معراج کے گاؤں دور تھا۔ اڈے پر بہت کم لوگوں کی رہائش تھی فیکٹری کے پیچھے صرف آٹھ دس گھر تھے۔ جن کے نمازیوں کے جانے کے بعد ہی مزمل مسجد سے نکلتا تھا۔
حکیم صاحب کو پتہ اُن کی حکمت کی وجہ سے لگا تھا۔ انہوں نے پہلے دن ہی اندازہ لگا لیا تھا، جب ماہم نے گلاب کے ہاتھ یہ کہہ کر مسجد میں چائے بھجوائی تھی۔

”خان چاچا! حکیم صاحب کا کوئی عزیز بارات کے ساتھ آیا ہے اُسے مسجد میں چائے دے آئیں“ ماہم نے مہتاب خان کو چائے دیتے ہوئے کہا تھا۔
”حکیم صاحب عشال کو کیوں نہیں کہتا“ گلاب نے سوال کیا تھا۔
”عشال شادی ہال میں ہے۔ عروسہ چچی کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ میں گھر دوائی کھانے کے لیے آئی تھی۔ حکیم چچا نے مجھے دیکھا تو کہہ دیا“
”ٹھیک…ٹھیک… اب ہم سمجھا…ہم دے دیتا ہے چائے“ گلاب نے چائے پہنچا دی تھی۔

شروع شروع میں مسجد کے دوسرے نمازیوں کو بھی مزمل پر شک گزرا تھا۔ اُن کے شکوک شبہات حکیم صاحب نے یہ کہہ کر دور کر دیئے تھے مزمل میرا رشتے دار ہے اس کا ایک گھر گوجرانوالہ شہر میں بھی ہے۔ وہ فجر کی نماز پڑھنے یہاں آجاتا ہے۔ نماز پڑھ کر لاہور چلا جاتا ہے۔
شروع شروع میں ایک دن گلاب نے حکیم صاحب کو اکیلے میں پوچھا :
”حکیم صاحب! یہ تو ٹھیک ہے یہ لڑکا تمھارا رشتے دار ہے لیکن مڑا اِس کا روز آنا…دال میں کچھ کالا ضرور ہے“ حکیم صاحب اور گلاب بات کرتے کرتے مسجد کے احاطے سے باہر آچکے تھے۔

”گلاب خان ! بات دراصل کچھ اور بھی ہے۔ تمھارا شک بالکل ٹھیک ہے۔ یہ لڑکا یہ فیکٹری خریدنا چاہتا ہے۔ پر کسی نے اس کو ڈرایا ہے یہاں فجر سے پہلے جنات چکر لگاتے ہیں یہ اسلیے ہر روز فجر کے وقت خود آکر دیکھتا ہے“
”یہ بات تو سراسرجھوٹ ہے۔ ہم اتنا سال یہاں چوکیداری کیا ہے۔ ایسا تو کچھ نہیں ہے۔ ہم مزمل صاحب کو خود بتائے گا“
”نہیں نہیں گلاب خان اُسے خود تصدیق کرنے دو“
ماڈل ٹاؤن میں مزمل کے گھر میں بھی ممتاز بیگم کے علاوہ سارے ملازم حیران تھے کہ مزمل صاحب فجر سے پہلے کہا جاتے ہیں۔

ممتاز بیگم نے سب کو سختی سے منع کیا تھا کہ وہ اس بارے میں مزمل سے کوئی سوال نہیں کریں گے۔
فیکٹری خریدنے کے بعد مزمل کی روٹین میں ایک فرق آیا تھا۔ وہ مسجد سے نکلتا ایک نظر ماہم کو دیکھتا کبھی لاہور واپس چلا جاتا اور کبھی اپنی فیکٹری میں چلا جاتا۔ مین گیٹ کی طرف سے جو مین جی ٹی روڈ پر تھا۔
دوپہر 12بجے تک فیکٹری کے معاملات دیکھتا پھر لاہور چلا جاتا۔
مزمل کے فیکٹری خریدنے کے بعد شمائل کو پھر سے اُس کا خیال آیا تھا۔ ستارہ نے اُسے سمجھایا :
”پہلے بھی تم مزمل کے چکر میں فیس بک پر پتہ نہیں کس کس سے بے وقوف بنتی رہی ہو مزمل کا خیال دل سے نکال دو۔“ ستارہ کے پانی ڈالنے سے شمائل کے عشق کی جھاگ وقتی طور پر بہہ گئی تھی۔

Chapters / Baab of Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan