Episode 11 - Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر11 - من کے محلے میں - شکیل احمد چوہان

حکیم صاحب کے جاتے ہی عشال نے خوشی میں جھومتے ہوئے ممتاز بیگم کو کال ملا دی۔
”اسلام علیکم عشال بیٹی!!“ ممتاز بیگم نے کال رسیو کی تھی۔
”سہیلی! کل آپ نے میرے نکاح پر آنا ہے۔ میں نے ابّا سے اجازت لے لی ہے۔ اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ اگر آپ نہ آئی تو میری آپ کی فرینڈ شپ ختم!!“ عشال تیز گام کی طرح چھک چھک بولے جا رہی تھی، نا تو اُس نے سلام کا جواب دیا اور نہ ہی ممتاز بیگم کو بولنے کا موقع۔

’میں آپ کو بتا نہیں سکتی …میں آج کتنی خوش ہوں…“ عشال نے دم لیا تو ممتاز بیگم ہنستے ہوئے بول پڑیں :
”بتانے کی کوئی ضرورت نہیں…عشال بیٹی …!! مجھے سب کچھ پتہ چل گیا ہے۔“
”آپ کو کس نے بتایا ہے…؟“ عشال نے فٹا فٹ پوچھ لیا۔
”تمھاری خوشی سے مجھے سب کچھ پتہ چل گیا ہے۔

(جاری ہے)


”واہ جی واہ! آپ تو بڑی پہنچی ہوئی سرکار ہیں۔“ عشال اُسی رفتار سے بولے جا رہی تھی۔


”کہاں کی سرکار …؟ عشال بیٹی…!! تم نا ہوتی تو مجھے مزمل کے بارے میں کیسے پتہ چلتا…میں کل ضرور آؤ ں گی…بس مزمل سے بات کر کے تمھیں اطلاع دیتی ہوں۔“
”آپ کو مزمل سے اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اُس کی دادی ہیں۔ وہ آپ کا داد ا نہیں!!“ ممتاز بیگم یہ بات سُن کر ہنس پڑیں۔
”اجازت نہیں لینی عشال بیٹی! اُسے بتانا ہے۔ عاقل اور اپنے رشتے کے بارے میں…معراج کے کا ذکر کروں گی تو اُسے لگے گا جیسے اُس کی اور ماہم کی بات کر رہی ہوں۔
میں چاہتی ہوں کہ وہ ماہم کا مجھ سے خود ذکر کرے۔“
”دادی!! یہ نا ممکن ہے…ماہم میری بیسٹ فرینڈہے ۔ اُس نے آج تک مجھ سے کوئی بات نہیں چھپائی اِس کے باوجود مزمل اور خود کی محبت مجھ سے ڈسکس نہیں کرتی … مزمل بھی آپ سے بات نہیں کرے گا“
”کرے گا ضرور کرے گا…وقت آنے پر…“
”کس وقت کی بات کر رہی ہیں…چھ ماہ ہو گئے ہیں، اِس طوطا مینا کی کہانی کو…اِس عرصے کے دوران میں نے خود ایک دفعہ ماہم سے بات کی تھی، وہ تب بھی انکار ہی کر رہی تھی۔
مجھے غصہ آگیا میں نے اُس کی اچھی خاصی مرمت کر دی تھی“
”عشال…!!سہیلی کی مرمت کرنے سے الفت ختم ہو جاتی ہے“
”دادی…!! آپ کی بات ٹھیک ہے، پر مجھے غصہ اِس بات کا تھا کہ جب مجھے حارث سے محبت ہوئی تھی، تو میں نے سب سے پہلے اپنے دل کا حال ماہم کو ہی سنایا تھا۔ ابّا کو راضی کرنے کی بات آئی تو پھر بھی میں نے ماہم ہی سے کہا تھا۔ ابّا میری طرح ہی ماہم سے بھی محبت کرتے ہیں۔
ماہم کو مجھ پر اعتماد کرنا چاہیے تھا۔“
”اعتماد کسی کسی پر کیا جاتا ہے اور اعتقاد اپنا اپنا ہوتا ہے…عشال بیٹی…!!“
”دادی ! آپ تو ابّا کی طرح ہی مشکل مشکل باتیں کرنے لگیں…“
”آسان بات یہ ہے عشال!! تم نے بھی تو اپنی زندگی کا سب سے بڑا راز اُس سے چھپا کر ہی رکھا ہے …کیا تمھیں ماہم پر اعتماد نہیں…؟ وہ بیچاری تو اپنا راز بھی نہ چھپا سکی صرف ماننے سے انکاری ہے۔
عشال بیٹی اُسے تمھاری ضرورت ہے اُس کا خیال رکھو“ ممتاز بیگم کی باتوں سے عشال کسی گہری سوچ میں پڑ گئی۔ چند منٹ پہلے والی شوخی سوچوں کے سمندر میں ڈوب گئی تھی۔
”دادی…! مجھے ماہم کی طرف جانا ہے…رکھتی ہوں۔“ عشال نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے موبائل بند کر دیا تھا۔
#…#
عشال جمعے کی نماز کے بعد ماہم سے ملنے گئی۔
جب وہ اُن کے گھر پہنچی تو مریم بی بی اور مومنہ بازار جانے کے لیے تیار ہو رہی تھیں۔
”آنٹی! کدھر کی تیاری ہے؟“ عشال نے پوچھا۔
”تمھاری ساس نے مجھے اور مومنہ کو زبردستی اپنے ساتھ تیار کر لیا ہے…بازار تک جا رہے ہیں۔“
”عشال آپی!! آپ بھی چلو ہمارے ساتھ…حارث بھائی بھی ساتھ ہی ہیں۔“ مومنہ نے عشال سے کہا ہی تھا۔ہارن کی آواز کانوں میں پڑی سب کا دھیان اُدھر گیا۔

”بڑی لمبی عمر ہے اپنے حارث بھائی کی“ مومنہ نے شرارتی انداز میں کہا تھا۔ مریم بی بی عشال کے ساتھ مومنہ کی بے تکلفی نوٹ کر رہی تھی۔
”مومنہ!!“ مریم بی بی نے ڈانٹتے ہوئے مومنہ کو ٹوکا تھا۔
”عشال تم سے بڑی ہے…تمھارا مذاق بنتا نہیں۔ چلو حارث انتظار کر رہا ہے۔ عشال تم آؤ اور گیٹ بند کر لو۔“
”آنٹی! ماہم آپ کے ساتھ نہیں جا رہی ۔
“عشال نے جانتے ہوئے بھی ایسے ہی پوچھ لیا تھا۔
”پہلے کون سا وہ بازار جاتی ہے۔ فریج میں کھیر رکھی ہے وہ نکال کر اُس کے کمرے میں لے جاؤ خود بھی کھاؤ اور اُسے بھی کھلا دینا۔“ مریم بی بی صحن میں سے گزرتے ہوئے عشال کو ہدایات دے رہی تھی۔ دروازے پر پہنچ کر عشال رُک گئی مریم بی بی اور مومنہ گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ عشال نے آدھے کھُلے گیٹ سے ہی حارث کا دیدار کر لیا تھا۔
حارث بے خبر تھا عشال کی موجودگی سے۔
”عشال آپی گیٹ بند کر لو۔“ مومنہ نے گاڑی میں بیٹھ کر جان بوجھ کر ہی صدا لگا دی تھی۔ عشال کا نام سُن کر حارث کے کان کھڑے ہوگئے تھے۔تب تک وہ گاڑی چلا چکا تھا اور عشال نے گیٹ بھی بند کر لیا تھا۔ مریم بی بی نے ایک بار پھر مومنہ کو گھوری ڈالی تھی، جو کہ حارث کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی تھی۔ مریم بی بی اپنی سہیلی حلیمہ کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔

#…#
”واہ جی واہ۔ کیا ٹیسٹی کھیر بنائی ہے آنٹی جی نے “ عشال کھیر کھاتے ہوئے اُس پر تبصرہ کر رہی تھی۔ ماہم نے دیکھا تو ہلکا سا مسکرائی۔
”ٹیسٹ تو کرو…تھوڑی سی ڈال کر دوں“ عشال نے خلوص سے پوچھا تھا۔
”میرا دِل نہیں چاہ رہا…“ ماہم نے پھیکی مسکراہٹ کا سہارا لیتے ہوئے کھیر کھانے سے انکار کر دیا تھا۔
”میں کافی دنوں سے نوٹ کر رہی ہوں۔
۔ تم بجھی بجھی سی ہو…اینی پرابلم…“
”تمھارا وہم ہے…ایسا تو کچھ نہیں۔“ماہم نے پھیکا سا جواب دیا۔
”کل میرا نکاح ہے…یو نو…کہاں ہے میری وہ بیسٹ فرینڈ جس نے میری منگنی پر اتنی رونق لگائی تھی۔“ عشال نے کھیر کی خالی پیالی میز پر رکھی اور متلاشی نگاہ ماہم کے چہرے پر ڈالی۔
”ماہم!! تمھیں ایک بات بتاتی ہوں…تم پہلے خوشبو کی طرح تھی، جہاں بھی جاتی خاموشی کے باوجود اپنی خوشبو چھوڑ آتی۔
اب تم اندر ہی اندر سے سُلگ رہی ہو۔مزمل کی محبت کا اقرار کر لویا پھر شمعون سے نسبت توڑ دو“ عشال کی بات سُن کر ماہم نے بے چین نظروں سے اُسے دیکھا تھا۔
”ایسے مت دیکھو … دیوانوں کی طرح…“ عشال نے روکھے لہجے میں کہا ہی تھا۔ ماہم نے مسخرو ں کی طرح ہنسنا شروع کر دیا عشال کو اُس کی ہنسی پر شدید غصہ آگیا تھا۔
”Go to hell“ عشال یہ کہتے ہوئے غصے سے اُٹھی اور کمرے سے جانے لگی۔
ماہم نے بڑھ کر اُس کی کلائی تھامتے ہوئے کہا :
”سوری…عشال…!!“ عشال نے جلدی سے ماہم کی پیشانی پر اپنا دوسرا ہاتھ رکھا ہی تھا، اُس کا غصہ پریشانی کی شکل اختیار کر گیا۔
”تمھیں تو تیز بخار ہے…تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں… تم لیٹ جاؤ…میں ابّا سے دوائی لے کر آتی ہوں…“ عشال نے ماہم کو بیڈ پر لٹا دیا اور خود جانے لگی تھی۔
”عشال!! بیٹھ جاؤ…دوائی میں نے تھوڑی دیر پہلے ہی کھائی ہے“ ماہم جو کہ لیٹی ہوئی تھی اُٹھی اور بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
عشال نے رائٹنگ ٹیبل والی کرسی گھسیٹ کر ماہم کے بالکل سامنے رکھی اور اُس پر وہ بھی بیٹھ گئی۔
”عشال!! میں تم سے بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں چند ماہ پہلے بھی کوشش کی تھی لیکن کہہ نہیں پائی، کبھی کبھی مجھے ایسے لگتا ہے جیسے تمھیں میرے کردار پر شک ہو ۔ میں اپنے آپ کو پارسا تو نہیں سمجھتی۔ ایک گنہگار بندی ہوں۔ جانے انجانے اور بے خیالی کو چھوڑ کے ایک بات و ثوق سے کہتی ہوں میرے جسم کو آج تک صرف ایک مرد نے چھوا ہے۔
بینش کی بارات والے دن سب کچھ تمھاری آنکھوں کے سامنے ہی ہوا تھا۔ میرا خدا جانتا ہے اُس میں میری کوئی بدنیتی ہرگز شامل نہیں تھی وہ سب کچھ اتفاقاً ہوگیا تھا۔ اُس غلطی کے لیے میں ربِ کعبہ کے سامنے بڑا گڑگڑاتی ہوں۔“ ماہم بات کرتے کرتے خاموش ہوگئی۔ عشال مجسمہ بنئی اُس کو دیکھ رہی تھی۔
”عشال مجھے تھوڑا پانی پلا دو۔“ ماہم نے کہا ہی تھا، کہ عشال نے سائیڈ ٹیبل پر گلاس اور پانی کی بوتل پر نظر ڈالی بوتل کے پیندے میں چند قطرے پانی ہی تھا۔
اُس نے خالی بوتل پکڑی کھیر والے برتن ٹرے میں رکھے اور کمرے سے چلی گئی۔ چند منٹ بعد پانی کی بھری ہوئی بوتل کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی، اُس نے شیشے کے گلاس میں ماہم کو پانی ڈال کر پیش کیا۔ ماہم نے آدھ گلاس پانی پیا اور آدھا بھرا ہوا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
”تم اکثر مجھ سے کہتی ہو…مجھے اُس سے محبت ہوگئی ہے…محبت کا تو پتہ نہیں … یہ بات پتھر پر لکیر کی طرح واضع ہے کہ ابّو کی طے کی ہوئی نسبت نا تو میں توڑوں گی اور نا ہی امّی جی کو توڑنے دوں گی۔
اب اِس کے بعد میں کیوں اُسے دیکھتی ہوں اِس کی مجھے بھی خبر نہیں۔ فجر کے وقت جو گناہ کرتی ہوں عشاء تک اُس کی معافی تلافی میں لگی رہتی ہوں۔ روزانہ ہی اُسے نہ دیکھنے کا عہد کرتی ہوں اور ہر روز ہی توڑ دیتی ہوں۔ عشاء کے بعد جب بستر پر لیٹتی ہوں تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اُس نے شمعون کے نام سے بُک خالی پلاٹ پر چپکے ہی چپکے مکاں کھڑا کر لیا ہو اور اب وہ اُس مکان میں الفت کا دیپ جلا کے اُسے محبت کا آشیانہ بنانا چاہتا ہے۔

میری ہزار ہا کوشش کے باوجود میرے دل میں اُس کی یادوں کی محفل لگی رہتی ہے۔ عشال میری سمجھ سے باہر ہے سارا معاملہ اگر یہی محبت ہے ، تو میں اِس کا اقرار بھی نہیں کر سکتی۔ اقرار کے بعد اگر فرار کا رستہ اختیار کر وں گی تو جہنم میں جاؤں گی۔“
”گڈ ویری گڈ…تومت جاؤجہنم میں…ایک مہربانی ضرور کر دو…اُسے انتظار کروانے کی بجائے سیدھا اور صاف انکار کردو…وہ بھی اپنے گھر میں سکون سے بیٹھے اور تم بھی اِس کھُلی کھڑکی کو بند کر سکو… اِس طرح کم از کم سکون کی نیند تو سو سکو گئی!!“عشال نے دو ٹوک لہجے میں اپنی طرف سے سیدھی بات کہہ دی تھی۔

”عشال! حکیم چچا کہتے ہیں… محبت میں انتظار زندگی تھم جانے کا نام ہے اور محبت میں محبت کو انکار موت کے مترادف ہے۔“ ماہم نے بیتابی سے کہا تھا۔
”ویل سیڈ…چلو تم نے مانا تو سہی…کہ یہ محبت ہی ہے۔“ عشال نے فاتحانہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے ہوئے کہا تھا۔ ماہم نے اُس کی مسکراہٹ کو دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پر آدھے بھرے ہوئے شیشے کے گلاس پر نظر ڈالی اور کہنے لگی :
”میں نے حکیم چچا کی کہی ہوئی ایک بات تمھیں بتائی ہے…محبت کا اقرار نہیں کیا!!“ ماہم نے اپنی بات کی وضاحت پیش کی۔

”دیٹ از انٹریسٹنگ…!!محبت کا اقرار نہیں کیا…“ عشال نے ماہم کے انداز میں ہی کہا تھا اُس کا انداز دیکھ کر ماہم کے ہونٹوں پر میٹھی مسکراہٹ بکھر گئی ۔
”عشال! اِس پانی کے آدھے گلاس کی طرف دیکھو آدھ گلاس پانی سے بھرا ہے اور آدھا خالی۔ تم آدھے بھرے ہوئے گلاس میں محبت کا پانی دیکھ رہی ہو اور میں آدھے خالی گلاس میں نسبت کی ہوا کو محسوس کر رہی ہوں۔
دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پر اٹل حقیقتیں ہیں۔“
عشال نے خالی گلاس کو غور سے دیکھا اور کچھ دیر سوچا پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگی :
”خالی گلاس میں ہوا…نہیں …نہیں …انکل کی طے کی ہوئی نسبت کی ہوا… مزمل بیگ اچھے انسان ہو…محبت بھی کی تو کس نمونی سے …“
دونوں کے چہروں پر خوشی لوٹ آئی تھی۔
”شکر ہے تمھارے چہرے پر رونق تو آئی بڑے بڑے ڈائیلاگ مار رہی تھی۔
ماہم چوہدری!! مجھے تمھارے کردار اور حیا پر کوئی شک نہیں ہے۔ مائینڈ اٹ…!! وہ تمھیں دیکھتا ہے تم اُسے دیکھتی ہو دل میں سوال تو اُٹھیں گے۔“
”جب وہ مجھے دیکھتا ہے تو اُس کی نظروں پر حیا کا غلاف ہوتا ہے۔ اُس کی نظروں سے میرے چہرے کو چبھن محسوس نہیں ہوتی بلکہ ایک لمس کا احساس ہوتا ہے۔“
”واہ جی واہ …قربان جاؤ ں تمھاری منطق پر کوئی اور سنے گا تو لطیفہ سمجھ کر ہنس دے گا۔

”تم اپنی بتاؤ…دوسروں کو چھوڑو…“
”خیر مجھے تو تمھاری فکر ہے تمھیں ہونا ہو…کل میرا نکاح ہے…“عشال نے زور دے کر کہا تھا۔
”پتہ ہے…آج کی معذرت…کل کی رات تمھارے ساتھ ہی گزاروں گی۔“ ماہم نے جواب دیا۔
”کل اچھے سے تیار ہونا…مزمل بیگ کی دادی بھی آرہی ہیں۔۔“ عشال نے اطلاع دی۔
عشال کی بات سُن کر ماہم سوچ میں پڑ گئی چند لمحوں بعد منہ میں بولی :
”مزمل بیگ کی دادی…“

Chapters / Baab of Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan