Episode 19 - Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر19 - من کے محلے میں - شکیل احمد چوہان

اگلے دن صبح فجر کے بعد سب نمازیوں کے جانے کے بعد مزمل مسجد سے باہر نکلا۔ ماہ رُخ کے چہرے والی ماہم کی منتظر نگاہیں مرکوز تھیں مزمل کے مکھڑے پر لکھی ہوئی تحریر کا متن پڑھنے کے لیے۔ مزمل کی آنکھوں کا مرکز و محور ماہم کی مقدس آنکھیں تھیں۔ کوئی نظر سے سیراب ہوجاتا ہے کسی کو لمس چاہیے ہوتا ہے۔ چند لمحوں میں ہی اُن دونوں کی نگاہوں نے صدیوں کی مسافت طے کرکے اپنی اپنی منزلوں کو پا لیا تھا۔

موسم کوئی بھی ہو محبوب کو دیکھ کر من مہکنے لگتا ہے۔ من کی کلیاں کھل کھل جاتی ہیں۔ ملن کی آرزو میں میٹھے میٹھے نغمے بجنے لگتے ہیں۔
حسبِ معمول مزمل گردن جھکائے اپنی گاڑی میں بیٹھا ہی تھا گاڑی میں پڑا ہوا موبائل بج اُٹھا۔
”السلام علیکم عشال…!“ مزمل نے کال ریسیو کی۔

(جاری ہے)


”وعلیکم السلام…! ابّا نے آپ کو بیٹھک میں بلایا ہے۔“ عشال نے مختصر بات کی اور فون رکھ دیا۔


”مزمل کو کچھ فکر لاحق ہوئی وہ نظریں جھکائے گلی سے گزرا۔ ماہم اُس وقت بھی کھڑکی میں کھڑی تھی۔ مزمل نے اُس کی طرف نہیں دیکھا۔
”السلام علیکم حکیم صاحب…! آپ نے بلایا تھا؟“ مزمل نے بیٹھک میں داخل ہوتے ہی کہا۔ حکیم صاحب اُس کے استقبال کے لیے پہلے سے کھڑے تھے۔
”وعلیکم السلام…! بیٹھو مزمل بیٹا…! پہلے ناشتہ کرلیں بعد میں بات کریں گے۔

ماہم اپنے کمرے میں بے چین ہوگئی تھی۔ اُس کے دل کی دھڑکن تیز تھی۔ خیالوں کی نگری سے کئی خیال نکل نکل کر فشارِ خون کو تیز کر رہے تھے۔ قدم رُکنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ کمرے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک نہ جانے کتنے ہی چکر لگا چکی تھی ۔ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد حکیم صاحب نے ہی بات شروع کی :
”دُنیا میں پہلا قتل عورت کی وجہ سے ہوا تھا۔
“حکیم صاحب نے ٹٹولتی نظروں سے مزمل کو دیکھ کر کہا۔
”مجھے علم ہے“ مزمل نے اعتماد سے جواب دیا۔
”جہاں حاجت ختم ہو، علم وہاں سے شروع ہوتا ہے، علم کا علم ہونا لاعلمی ہے۔ جو تم دونوں کر رہے ہو وہ غلط ہے گناہ ہے۔ وہ تمھارے لیے نا محرم ہے تم اچھی طرح جانتے ہو۔ اُس کی نسبت کسی اور سے طے ہے۔“ حکیم صاحب نے تحمل اور حکمت سے مزمل کو سمجھایا۔

”جس منفی چیز کی نسبت اللہ کی طرف ہوجائے وہ مثبت بن جاتی ہے۔میں اُس نا محرم سے نکاح کر کے اُسے محرم بنانا چاہتاہوں۔“ اس بار مزمل کی آواز میں الفت کے ساتھ ساتھ درد بھی تھا۔
”یہ نا ممکن ہے۔ وہ شادی سے انکار نہیں کرے گی۔ تم اُس کی اجازت کے بغیر رشتہ بھیجو گے نہیں۔ اُس نے مجھے اپنے تایا سے بات کرنے سے منع کر دیا ہے اور تم نے کہا ہی نہیں۔
مزمل بیٹا…! دستک دینے سے دروازہ کھلتا ہے، دعا مانگنے سے مرادیں ملتی ہیں۔“
”حکیم صاحب … ! دستک دینے کی اجازت نہیں۔ رہا سوال مانگنے کا۔ ساری زندگی اُس کی ناشکری کی ہے۔ ہمیشہ محبتیں لُٹنے کا گلہ کیا ہے۔ اب کس منہ سے محبت مانگوں؟ اب سوچا ہے جو وہ عطا کردے گا اُس پر شکر کروں گا، جو نہیں دے گا اُس صبر ۔“مزمل نے لرزتی آواز میں کہا۔
”صبر …صبر بڑی دور کی منزل ہے مزمل بیٹا …! جو مل گیا اُس پر راضی ہو جاؤ جو نہیں ملا اُس پر شکر کرو۔
صبر کا مقام اس سے بہت آگے بہت دور ہے۔ صبر اور شکر سے پہلے کوشش ہے جو تم نے کی ہی نہیں“ حکیم صاحب نے ہونٹوں پر تبسم سجائے اپنا نقطئہ نظر بیان کیا۔
”کوشش اس ڈر سے نہیں کرتا کہیں محبت کے حضور بے ادبی نہ ہو جائے۔ میں تو پہلے ہی محبت کی درگاہ سے راندہ درگاہ ہوں۔“
”مزمل بیٹا…! پھر دعا ہی واحد راستہ ہے۔ اُسے دعا مانگنے والے بہت پسند ہیں۔
گناہ گارہوں یا نیک و کار …شکر والے ہو ں یا نا شکرے…بس ہاتھ اُٹھانے کی دیر ہے۔“ حکیم صاحب نے شائستگی سے حل بتایا۔
”مجھے اجازت دیں فیکٹری پہنچنا ہے۔“ مزمل نے اجازت لی اور بیٹھک سے نکل آیا۔
ماہم کومزمل کی مہک کھڑکی تک کھینچ لائی۔ وہ گردن جھکائے اُس کی گلی سے گزر گیا۔ ماہم کی نظروں نے مزمل کو گاڑی تک چھوڑا۔ گاڑی کے جانے کے بعد بھی کچھ دیر تک ماہم کی نظریں اُسی مقام کو دیکھتی رہیں جہاں اُس کے من کے میت کی سواری کھڑی تھی۔
وہ پلٹی تو عشال اُس کے پیچھے موجود تھی۔
”تم یہاں؟“ ماہم نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں میں…آنٹی اور مومنہ تمھارے کمرے میں پہلے ہی کم آتی ہیں۔ اب میرے آنے پر بھی پابندی لگا دو۔“ عشال نے گھورتے ہوئے کہا۔
”ایسا سوٹڈ بوٹڈ ایک دم … کام ڈاؤن عاشق پہلی بار دیکھا ہے۔مجھے یہ تو بتاؤ محبت کی کوئی الگ کوالیفیکیشن ہے جس میں تم دونوں نے سپیشلائزیشن کی ہوئی ہے۔
ایسی بڑی بڑی باتیں کرتے ہو تم دونوں جو میری جیسی بندی کی سمجھ سے تو باہر ہیں۔ ابّا تو عالم فاضل آدمی ہیں وہ مشکل بات کریں تو سمجھ آتی ہے۔ سیدھی سی بات ہے۔ ایک لڑکا تمھیں محبت کرتا ہے تم بھی اُسے چاہتی ہو۔ تمھارا فیانسی تمھیں پسند نہیں ہے۔ انکار کردو سمپل۔ ماہم تمھیں کیوں سمجھ نہیں آرہی ہے۔ میری مثال تمھارے سامنے ہے۔ ابّا نے میرے لیے کسی اور کو پسند کیا تھا۔
میں حارث سے محبت کرتی تھی۔ تمھیں اپنے دل کی بات بتا دی۔ تم نے ابّا کو سمجھایا۔ میں نے بات کی ۔ابّا مان گئے۔ حارث کی خواہش پر ابّا نے ہمارا نکاح بھی پڑھا دیا۔ سیدھی سادھی سی لو اسٹوری ۔ تمھاری محبت انگلش کے Tensesکی طرح بہت ہی مشکل ہے۔ “ عشال نے ماہم کو ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ لمبا چوڑا بھاشن دے ڈالا۔
”ایک بات تم کتنی دفعہ کرو گی جب بھی آتی ہو یہی بات لے کر بیٹھ جاتی ہو۔
کل تم نے کہا تھا تمھیں سارے سوالوں کے جواب مل گئے ہیں آج پھر سے وہی بات…!“ماہم نے سنجیدگی سے کہا۔ عشال نے سُنی ان سُنی کردی اور کہنے لگی:
”سوالوں کو چھوڑو…بس تم معراج کے والوں کو جواب دے دو۔ اس رشتے سے صاف انکار کر دو…“
” انکار ہی تو نہیں کر سکتی سارے شریکے برادری میں ابّو جی کی تھوتھو ہوجائے گی۔ سارا شریکا کہے گا ہیڈ ماسٹر چوہدری محمود کی بیٹی نے اپنے مرے ہوئے باپ کی زبان کی لاج بھی نہ رکھی۔

”تم لاج رکھ لو، بھلے ہی مزمل کی محبت کا جنازہ نکل جائے“ عشال نے ترش لہجے میں کہا۔
”پتا نہیں تم نے کہا تھا یا اُس نے، چالاکی سے محبت نہیں جیتی جاتی۔ تم دونوں کی باتیں بھی ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ تم شمعون کا سارا بائیو ڈیٹا کھول کر اپنے تایا جی کے سامنے رکھ دو۔“
”تایا جی شمعون کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں۔“ ماہم نے بے تاثیر چہرے کے ساتھ جواب دیا۔
”سب کچھ جانتے ہوئے بھی؟“ عشال نے حیرانی سے پوچھا۔
”اُن کی بھی زبان کا سوال ہے۔ میں اُن کے بیٹے کی منگ ہوں۔ ہمارے خاندان میں لوگ مر جاتے ہیں منگ نہیں چھوڑتے“
”اب بھی؟“ عشال کو دھچکا لگا تھا۔
”ہاں…! اب بھی“ ماہم نے بڑی مشکل سے کہا۔ وہ ضبط کے باوجود اپنے اشک نہ روک سکی۔

Chapters / Baab of Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan